امریکا نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کا دعوٰی کر دیا ہے۔
اتوار کو امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے آپریشن ’ مڈنائٹ ہیمر ‘ کے بارے پینٹاگون کی بریفنگ کا آغاز یہ کہتے ہوئے کیا کہ ’ گزشتہ رات کے حملے ایران کی جوہری صلاحیتوں کو "کم کرنے" اور "تباہ" کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔
امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ان حملوں نے ایرانی جوہری پروگرام کو "تباہ" کر دیا لیکن اس کے نتیجے میں ایرانی فوجی یا عام شہری متاثر نہیں ہوئے۔
امریکا کے علاوہ کوئی اور ملک ایسا نہیں کر سکتا تھا
پیٹ ہیگستھ کا کہنا تھا کہ بہت سے امریکی صدور نے "ایران کے جوہری پروگرام کو آخری دھچکا پہنچانے کا خواب دیکھا لیکن ٹرمپ تک کوئی ایسا نہیں کر سکا"۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران کے خلاف آپریشن "جرات مندانہ اور شاندار" تھا۔
انہوں نے کہا کہ "جب صدر ٹرمپ بولتے ہیں تو دنیا کو سننا چاہیے، امریکا کے علاوہ کوئی اور ملک ایسا نہیں کر سکتا تھا"۔
ایرانی جوابی کارروائی کا طاقت سے مقابلہ کیا جائے گا
امریکی وزیر دفاع نے خبردار کیا کہ ایران کی طرف سے کسی بھی جوابی کارروائی کا طاقت سے مقابلہ کیا جائے گا۔
پیٹ ہیگستھ نے کہا کہ صدر ٹرمپ "امن کے خواہاں ہیں" اور انہوں نے کہا ہے کہ کوئی جوہری ہتھیار نہیں، وہ امن چاہتے ہیں اور ایران کو یہ راستہ اختیار کرنا چاہیے۔‘‘
انہوں نے گزشتہ رات ٹرمپ کی سوشل میڈیا پوسٹس کو پڑھ کر بھی سنایا جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ ایران کی طرف سے کسی بھی انتقامی کارروائی کا "بہت زیادہ" طاقت سے مقابلہ کیا جائے گا۔
حملوں بارے واشنگٹن میں بہت کم لوگ جانتے تھے
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ڈین کین نے بریفنگ کے دوران ایرانی جوہری تنصیبات پر کیے گئے حملے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس کارروائی کو "آپریشن مڈنائٹ ہیمر" کا کوڈ نام دیا گیا تھا، جو ایک انتہائی خفیہ مشن تھا، اور اس کے وقت اور منصوبہ بندی سے واشنگٹن کے چند ہی اعلیٰ حکام واقف تھے۔
جنرل ڈین کین کے مطابق صرف چند منتخب منصوبہ ساز اور سینیئر رہنما ہی اس کارروائی سے باخبر تھے۔
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ یہ امریکا کی تاریخ کا سب سے بڑا B-2 بمبار مشن تھا، اس حملے میں 75 میزائل اور بم استعمال کیے گئے، جن میں دو درجن سے زائد ٹوماہاک کروز میزائل اور 14 ایم او پی (بنکر بسٹر) بم شامل تھے ،جو پہلی مرتبہ کسی مشن میں استعمال کیے گئے۔
جنرل نے بتایا کہ فردو کی زیرِ زمین تنصیبات زمین کی سطح سے 80 سے 90 میٹر گہرائی میں واقع ہیں، اور ان پر حملے کے لیے بنکر بسٹر بم واحد ممکنہ ہتھیار تھے جو اس حد تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگرچہ ان کی مکمل کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
اس مشن میں سات B-2 بمبار طیارے شامل تھے جنہوں نے ہدف تک پہنچنے کے لیے 18 گھنٹے طویل پرواز کی، جب یہ طیارے ایرانی فضائی حدود میں داخل ہوئے، تو ایک امریکی آبدوز نے دو درجن سے زائد ٹوماہاک میزائل اصفہان کی جوہری تنصیبات پر داغے، جنہیں مشن کے اہم اہداف قرار دیا گیا تھا۔
جنرل کین کے مطابق تمام اہداف کو 25 منٹ کے اندر اندر نشانہ بنایا گیا اور اختتام پر ایک بار پھر اصفہان پر میزائل حملہ کیا گیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پورے آپریشن کے دوران ایران کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت سامنے نہیں آئی۔
ان کے مطابق ایرانی زمین سے فضا میں مار کرنے والے دفاعی نظام نے امریکی طیاروں کو "شاید دیکھا ہی نہیں"۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی ایسے واقعے کی اطلاع نہیں ملی جس میں امریکی طیاروں پر فائرنگ کی گئی ہو۔
نقصان کا مکمل اندازہ لگانے میں کچھ وقت لگے گا
جنرل ڈین کین کا کہنا تھا کہ ایران کو پہنچنے والے نقصان کا مکمل اندازہ لگانے میں کچھ وقت لگے گا۔
امریکی افواج 'ہائی الرٹ' پر ہیں
ان کا کہنا تھا کہ ایران پر حملے میں "امریکی تاریخ کا سب سے بڑا B-2 آپریشنل حملہ" شامل تھا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی افواج "ہائی الرٹ" پر ہیں اور "کسی بھی ایرانی جوابی کارروائی کا جواب دینے کے لیے پوری طرح تیار ہیں"۔
’یہ مشن حکومت کی تبدیلی بارے نہیں ‘
وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ سے جب ایران میں حکومت کی تبدیلی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’ مشن حکومت کی تبدیلی کے بارے میں نہیں تھا اور نہ ہے"۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے ہمارے فوجیوں، ہمارے اتحادی اسرائیل کے ڈیفنس اور ہمارے قومی مفادات کو لاحق خطرات کو بے اثر کرنے کے لیے ایک درست آپریشن کی اجازت دی ہے۔
ٹرمپ نے ایران پر حملہ کرنے کا فیصلہ کب کیا؟
وزیر دفاع سے پوچھا گیا کہ کیا کوئی خاص لمحہ تھا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے "ٹرگر کھینچنے" کا فیصلہ کیا ؟۔
انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ "امن کے عمل کے لیے پوری طرح پرعزم ہیں" اور وہ مذاکرات کا نتیجہ چاہتے ہیں، تاہم، انہوں نے "ایران کو ہر موقع دیا اور پھر حملہ کیا گیا"۔
انہوں نے کہا کہ "ٹرمپ کے لیے کوئی خاص لمحہ نہیں تھا، لیکن ایک لمحہ ایسا تھا جب انہیں احساس ہوا کہ ایک وقت ایسا بھی ہے جب خطرے کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے"۔
یاد رہے کہ وائٹ ہاؤس نے جمعرات کو کہا تھا کہ صدر ٹرمپ ایران تنازع میں امریکی شمولیت بارے فیصلہ دو ہفتوں میں کریں گے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’ امریکا کا خیال ہے کہ اس نے فوردو میں صلاحیتوں کو تباہ کر دیا ہے جو ان کا اصل ہدف تھا۔‘
ایران اب بھی میز پر آسکتا ہے
امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ انہیں اب بھی امید ہے کہ ایران مذاکرات میں واپس آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں صرف اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ ایرانیوں کو متعدد چینلز پر عوامی اور نجی دونوں پیغامات پہنچائے جا رہے ہیں جو انہیں میز پر آنے کا ہر موقع فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی حملے کا دائرہ "جان بوجھ کر محدود تھا اور یہی وہ پیغام ہے جسے ہم بھیج رہے ہیں، تاہم، انہوں نے کہا کہ امریکی فوج کی صلاحیتیں "تقریباً لامحدود" ہیں۔