Live Updates: سینیٹ نے 26 واں آئینی ترمیمی بل دوتہائی اکثریت سے منظور کرلیا
شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبیلو ایم کے ارکان ایوان سے چلے گئےوفاقی وزیر قانون 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کل اہم پریس کانفرنس کرینگے
وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ حلیف جماعتوں کےنمائندوں کےہمراہ کل اہم پریس کانفرنس کرینگے۔
اسلام آباد میں وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ26ویں آئینی ترمیم کےحوالےسےکل اہم پریس کانفرنس کرینگے، کانفرنس میں حلیف جماعتوں کےنمائندگان بھی شامل ہوں گے۔
وفاقی وزیرقانون مجوزہ26ویں آئینی ترمیم میں شامل اہم نکات کےحوالےسےمیڈیاکوآگاہ کرینگے،پریس کانفرنس کامقصد26ویں آئینی ترمیم کےحوالےسےپائےجانےوالےابہام کودورکرنااوراصل حقائق پیش کرناہے
وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ میڈیانمائندوں کو26ویں آئینی ترمیم کےبارےمیں سوالوں کےجواب بھی دینگے۔
پیپلزپارٹی کی نائب صدرسینیٹر شیری رحمٰن کی فافن کےوفد سےملاقات
پیپلزپارٹی کی نائب صدرسینیٹر شیری رحمٰن کی فافن کےوفد سے ملاقات ہوئی ہے، فافن کے وفد نے پیپلزپارٹی کے ساتھ آئینی عدالت کےقیام پر اصولی اتفاق کرلیا ہے۔
اسلام آباد میں فری اینڈ فیئرالیکشن نیٹ ورک (فافن ) کے وفد سے پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان کی ملاقات ہوئی، ملاقات میں پیپلزپارٹی نے فافن کے وفد کو وفاقی آئینی عدالت کے مسودے کے حوالے سے آگاہ کیا۔
اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں کہ 26 آئینی ترمیم اٹھارویں ویں ترمیم کی طرح شفاف اور اتفاق رائے سے ہو، اسی لیے سول سوسائٹی کو وسیع تر مشاورت کا حصہ بنا رہے ہیں تاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جا سکے ۔
فافن نے اصولی طور پر پیپلز پارٹی کے ساتھ آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق کیا اور اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔
بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان کی ملاقات، مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم پربات چیت
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان ملکی سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔
کراچی میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی ) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے لئے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بلاول ہاؤس پہنچے ہیں ، شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا اجلاس خوش آئند ہے اور خطے کے استحکام میں معاون ہوگا، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے اتفاق رائے ہوئی ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے وفد میں پی پی پی شعبہ خواتین کی مرکزی صدر فریال تالپور، پی پی پی سندھ کے صدر نثار کھوڑو اور وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ شامل ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی کے وفد میں شازیہ مری، سید نوید قمر اور مرتضی وہاب بھی شامل ہیں، جمعیت علمائے اسلام کے وفد میں مولانا اسعد محمود، مولانا ضیاالرحمان، راشد محمود سومرو اور ناصر محمود سومرو شامل تھے۔
اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے وفد میں کامران مرتضی، مفتی ابرار، مولانا اسجد محمود، مولانا عبیدالرحمان اور عثمان بادینی بھی شامل ہیں۔
بانی پی ٹی آئی نے مولانا فضل الرحمان سے مشاورت جاری رکھنے کا کہا ہے، بیرسٹر گوہر
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا ہے کہ عمران خان صحت مند اور ہائی اسپرٹ میں ہیں اور انہوں نے آئینی ترامیم کے حوالے سے جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے مشاورت جاری رکھنے کا کہا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے حوالے سے خصوصی گفتگو کی اور بتایا کہ وہ صحت مند اور ہائی اسپرٹ میں ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ سو سال بھی جیل میں گزارنے پڑے گزاروں گا۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ جیل میں ملاقات کے دوران بانی پی ٹی آئی نے بتایا کہ 5 روز تک سیل میں بجلی نہیں تھی،2 ہفتے سے اخبار نہیں مل رہا ، ٹی وی نہیں اور ایکسرسائز بھی نہیں کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ملاقات کے دوران عمران خان سے آئینی ترامیم پر مشاورت کی، وہ آئین کی بالادستی چاہتےہیں،مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتوں کا احوال ان کے سامنے رکھا ہے اور بتایا ہے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ اتفاق کیا تھا جو بھی ترامیم آئیں گی ہم ساتھ چلیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیر کو ہم دوبارہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کریں گے، انہوں نے کہا یہ سنجیدہ معاملہ ہے مولانا فضل الرحمان سے مشاورت جاری رکھیں گے، بانی پی ٹی آئی نے علی امین گنڈا پور پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ عمر ایوب ، شبلی فراز ، احمد بھچر اور علی امین بھی مشاورت کیلئے آئیں ۔
بیرسٹر گوہر کے مطابق بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ قوم کی عزت پر کمپرو مائز نہیں کروں گا اور انہوں نے بہنوں کی گرفتاری پر اظہار افسوس کیا ہے۔
کوئی ساتھ دے یا نہ دے، 26 ویں آئینی ترمیم پاس ہونے جا رہی ہے، فیصل واوڈا
سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ کوئی ساتھ دے یا نہ دے، 26 ویں آئینی ترمیم پاس ہونے جا رہی ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ کوئی ساتھ دے یا نہ دے، 26 ویں آئینی ترمیم پاس ہونے جا رہی ہے اگر ساتھ دیں گے تو عزت بچ جائے گی اور اگر نہ آئے تو ترمیم ہوجائے گی لیکن عزت نہیں رہے گی۔
فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ ہیرو سے زیرو ہونے میں دیر نہیں لگتی، یہ رونا دھونا کرتے رہیں گے اور ترمیم پاس ہو جائے گی، اگر سمجھتے ہیں کہ کسی کو اٹھایا، تشدد کیا یا پیسے دیئے تو سمجھتے رہو، سوچنے پر کوئی قید نہیں، جس نے جو الزام لگانا ہے وہ لگاتا رہے۔
پی ٹی آئی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ بکاؤ مال کی شکلیں آج آپ سب نے دیکھی لی ہوں گی، تحریک انصاف نے عملی طور پر اس حکومت کو تسلیم کر لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی گورنمنٹ کے ساتھ بیٹھی اور بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی فرمائش کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کو بیچ کر یہ لوگ خود مزے لے رہے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر کا قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے بائیکاٹ کی بجائے شرکت کا فیصلہ کرلیا۔
سماء سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ہم قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوں گے ۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ایوان میں جانے کے بعد اگلا لائحہ عمل طے کریں گے ۔
ان کا کہنا تھا کہ دیکھتے ہیں حکومت نے آئینی ترمیم کے لیے اپنی نمبر گیم کیسے پوری کی ہے ۔
دوسری جانب محمود خان اچکزئی اور پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر بھی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے ہیں۔
یاد رہے کہ حکومت نے 26 ویں آئینی ترامیم کی منظوری کے لئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس طلب کر رکھے ہیں۔
خدشہ ہے ہمارے 2 سینیٹرز آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈال سکتے ہیں، بیرسٹر گوہر
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ خدشہ ہے ہمارے دو سینیٹرز آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
سماء سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ہمارے دو سینیٹرز سے ہمارا رابطہ نہیں ہے جن میں زرقا تیمور سہروردی اور فیصل سلیم شامل ہیں اور ہمیں خدشہ ہے کہ یہ دو سینیٹرز آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے تمام سینیٹرز کو آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ نہ دینے کی واضح ہدایت کر رکھی ہے، میرے خیال میں ہمارے 2 سینیٹرز آئینی پارٹی پالیسی کے خلاف جا سکتے ہیں۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کو اپنی پارٹی پالیسی اور بانی پی ٹی آئی کا مؤقف بتا دیا ہے اور سربراہ جے یو آٰئی سے آج ہماری مزید کوئی ملاقات نہیں ہوگی اگر ملاقات ضروری ہوئی تو پیر کو ہی ہوگی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بطور اپوزیشن مولانا فضل الرحمان ہمارے اتحادی رہیں گے۔
مشن آئینی ترمیم، مولانا فضل الرحمان نے حتمی مسودہ وصول کرنے کے بعد ایک دن کا وقت مانگ لیا
26ویں آئینی ترمیم کی اتفاق رائے سے منظوری کیلیے مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ سیاسی مرکز بنی ہوئی ہے جہاں حکومت اور اپوزیشن اراکین کی وقفے وقفے سے آمد کا سلسلہ جاری رہا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیم کا حتمی مسودہ فضل الرحمان کو پیش کیا، سربراہ جے یو آئی ایف نے مسودہ وصول کرنے کے بعد مشاورت کیلئے ایک روز کا وقت مانگا۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس ملتوی
قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس اتوار کی سہ پہر تک ملتوی کر دیا گیا ہے ، جبکہ وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی اتوار صبح تک ملتوی کیا گیا ہے جس میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی جائے گی۔
مولانا کی رہائشگاہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز
حکومت کی جانب سے حتمی مسودہ مولانا فضل الرحمان کے حوالےکر دیا گیا اور امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ آج 19 اکتوبر کی شب ہی آئینی ترمیم منظور کروائی جائے گی لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا، مشاورت ایک روز مزید جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر داخلہ محسن نقوی سربراہ جے یو آئی کی رہائش گاہ پر 3 گھنٹے تک مشاورت کرتے رہے۔
آئینی ترامیم مسودے پر مشاورت کیلئے بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل بھی مولانا فضل الرحمان کی رہائشگاہ پہنچے جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری بھی وہاں موجود تھے اور 2 گھنٹے سے زائد وقت سے مشاورت کا سلسلہ جاری رہا۔
اس سے قبل
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمان سے دو بار ملاقاتیں کیں، پہلی ملاقات کے بعد انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی پی اور جے یو آئی کے درمیان آئینی ترمیم پر اتفاق رائے پیدا ہوگیا ہے۔
بعد ازاں وزیر داخلہ محسن نقوی، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار دوسری بار، پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پہنچے۔ پھر وزیر قانون مولانا کے گھر پہنچے اور آئینی ترمیم کا حتمی مسودہ انہیں پیش کیا۔
وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ، شیری رحمن، نوید قمر اور مرتضی وہاب نے بھی فضل الرحمان سے ملاقات کی۔ اس کے علاوہ بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے بھی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔
مشن آئینی ترمیم، سینیٹ کا اجلاس اتوار کی سہ پہر 3 بجے تک ملتوی
26 ویں آئینی ترمیم آج سینیٹ میں منظوری کیلئے پیش نہیں کی جا سکی جس کے باعث اجلاس اتوار کی سہ پہر 3 بجے تک ملتوی کر دیا گیا ۔
تفصیلات کے مطابق ایوان بالا کا اجلاس 3 گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا اور آغاز کے وقت ایوان میں 43 اراکین موجود تھے ، اجلاس شروع ہونے پر سینیٹر عرفان صدیقی کی جانب سے وقفہ سوالات معطل کرنے کیلئے تحریک پیش کی گئی جسے منظور کر لیا گیا ۔
بینکنگ کمپنیز ترمیمی بل
سینیٹ اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے بینکنگ کمپنیز ترمیمی بل زیر غور لانے کی تحریک پیش کی گئی جسے فوری منظور کر لیا گیا ۔ اس کے بعد وزیر خزانہ کی جانب سے بینکنگ کمپنیز ترمیم بل منظور ی کیلئے پیش کر دیا جسے اکثریت سے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا ۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
وزیر خزانہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 2008 کے عالمی معاشی بحران میں کئی کمپنیاں ڈوب گئیں، کوئی ادارہ مشکل میں جائےتواس کیلئےاصلاحات لائی گئی ہیں، اسلامی بینکنگ کیلئے لیگل فریم ورک زیادہ مستحکم بنایا گیا ہے، بل کےذریعےاسٹیٹ بینک کا ریگولیٹری رول مستحکم کیا گیاہے، بینکنگ محتسب کےپاس شکایات کیلئےآسانی پیداکی، سعودیہ اورملائیشیاسمیت کئی ممالک میں اسلامی بینکنگ نظام چل رہاہے، پاکستان میں زیادہ تربینک شریعہ کمپلائنس کی طرف جارہےہیں۔
وزیر خزانہ کا کہناتھا کہ 6لاکھ سالانہ انکم پر کوئی ٹیکس نہیں، یہ واحد ملک ہے جس میں نان فائلر کی اختراع ہے، نان فائلرکی اختراع ختم کرنا ہوگی، دنیاکےممالک میں ٹیکس نہ دیں تو ووٹ نہیں دےسکتے، سیاسی لوگوں کو بینکنگ کی کسی سہولت سےانکارنہیں ہوناچاہیے، اب میں خود بھی ایک سیاسی آدمی ہوں، بینکوں کوسیاسی لوگوں کےساتھ بھی کاروبارکرناچاہیے، اب مجھ سےبھی ذرائع آمدن اورکاروبارکےاضافی سوال ہوں گے، اس معاملےپرگورنراسٹیٹ بینک سےبھی بات کروں گا، سوائے 2کے تمام بینک پرائیویٹ سیکٹرمیں ہیں، بینک گارنٹی کےحوالےسےمداخلت نہیں کرسکتے، اسلامی بینکنگ پر قائمہ کمیٹی میں الگ سیشن ہوناچاہیے۔
سینیٹر دنیش کمار
سینیٹر دنیش کمار نے سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ درخواست ہےآج آئینی ترمیمی بل پیش کیاجائے، ہمیں ہر جگہ سے فون آتے ہیں کیا ہوا ترامیم کا ؟ ہمارا نام ترامیم والے سینیٹر رکھ دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت 26 ویں آئینی ترمیم کیلئے اتحادیوں اور اپوزیشن کے ساتھ مشاورت جاری رکھے ہوئے ہے اور دعویٰ کیا جارہاہے کہ مسودے پر اتفاق کر لیا گیاہے تاہم آج سینیٹ اور قومی اسمبلی کا اجلاس چوتھی مرتبہ ملتوی کرتے ہوئے رات 8 اور ساڑھے 9 بجے طلب کیا گیا تھا ۔
قومی اسمبلی کا اجلاس کے وقت کی چوتھی بار تبدیل کرتے ہوئے رات ساڑھے 9 بجے طلب کیا گیاہے ، اس سے قبل قومی اسمبلی کا اجلاس دوپہر تین بجے طلب کیا گیا لیکن شروع نہ ہو سکا جس کے بعد اجلاس ملتوی کرتے ہوئے شام 7 بجے طلب کیا گیا لیکن اجلاس کا وقت آگے بڑھاتے ہوئے ساڑھے نوبجے طلب کیا گیاہے تاہم اجلاس تاحال شروع نہیں ہو سکا ہے ۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سینیٹر اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار ، محسن نقوی اور اعظم نذیر تارڑ کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان کی رہائشگاہ پر موجود ہیں جہاں حکومت وزراء نے 26 ویں آئینی ترمیم کا حتمی مسود ہ سربراہ جمیعت علماء اسلام کے حوالے کیا ۔
پیپلز پارٹی اور جے یو آئی آئینی ترمیم پر متفق، اپوزیشن جماعتیں کل جواب دیں گی: مولانا فضل الرحمان
جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف سمیت اپوزیشن جماعتوں نے کل تک کا وقت مانگا ہے، وہ کل اپنا جواب دیں گے جس کے بعد آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کر کے اتفاق رائے سے منظور کروائیں گے، ہم نے حکومتی مسودے پر جن نکات پر اعتراض کیا وہ تمام خارج کر دیئے گئے ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ ہماری خواہش ہے کہ جمعیت علماء اسلام پارلیمان میں پیش کرے ۔
مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان ے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیمی بل پر جو اتفاق رائے حاصل کیا تھا اور کراچی میں مشترکہ پریس کانفرنس کا اس کا اظہار بھی کیا ، بعد میں لاہور آ کر پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کے ساتھ ہم نے اس کو شریک کیا، اس پر طویل مشاورت ہوئی، بات چیت ہوئی، جو ابتدائی مسودہ تھا اور جس کو ہم نے مسترد کر دیا تھا، ہم نے اس کے جتنے حصوں پر اعتراض کیا ، حکومت اس سے دستبردار ہونے پر آمادہ ہوئی اور ا پھر اتفاق رائے حاصل ہو سکا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے درمیان ، اس بل کے حوالے سے کوئی بڑا متنازعہ نقطہ موجود نہیں ہے ، اکثر اختلافی اجزاء اب تحلیل ہو چکے ہیں، اس حوالے سے ہم نے اس مسلسل ایک مہینے یا اس سے زیادہ ، پاکستان تحریک انصاف کو بھی اعتماد میں لیئے رکھا ، ان کے ساتھ بھی بات چیت ہوئی، حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات میں جتنی پیشرفت ہوتی رہی ، اس پیشرفت سے پی ٹی آئی کو آگاہ رکھا، آئینی ترمیمی بل کا مسودہ جب ہماری طرف سے مکمل ہوا اور ہم نے اس کا ایک آخری ڈرافٹ تیار کر لیا ، تو پاکستان تحریک انصاف کی قیادت ، اسلام آباد میں موجود ہے ، انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم عمران خان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس اتفاق رائے کو ان کی تائید اور منظوری حاصل ہو سکے ، آج ان کی ملاقات ہوئی اور ملاقات کے بعد انہوں نے اس ملاقات کی تفصیل پریس کانفرنس میں بیان۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ تحریک انصاف کو حکومتی رویوں سے شکایت رہی، تاہم میرے پاس جو بانی پی ٹی آئی کا پیغام پہنچایا گیا وہ ایک مثبت رویے کا جواب تھا، میں ان کا شکر گزار ہوں ، اس حوالے سے ، اس بات کی ضرورت پی ٹی آئی کو تھی اور میں نے جائز سمجھی کہ وہ اپنے یہاں پر سینئر پارلیمنٹیرنز اور پارٹی کے اعلیٰ ذمہ دارن سے بھی مشاورت کریں ، کل کا دن انہوں نے مانگا اور میں نے ان سے اتفاق رائے کیا، مجھے انشاء اللہ کل ان کا جواب موصول ہو جائے گا، جب پارلیمنٹ کے اجلاسوں کا تعین ہوگا اور ہم اس میں ووٹ بھی کر سکیں گے ، ہم کل تک کا انتظار کر رہے ہیں، جو صورتحال سامنے آئے گا اس سے قوم کو بھی آگاہ کریں گے ۔
بلاول بھٹو زرداری
میں سب کا شکر گزار ہوں، مولانا فضل الرحمان کا بھی شکر گزار ہوں، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے مل کر جومحنت کی ہے وہ آپ کے سامنے ہیں، جو آئینی اصلاحات ہونے جارہی ہیں ، جہاں تک اس کا متن ہے ، جو ہم نے اتفاق کے ساتھ بنایا ہے ، وہ تقریبا تمام جماعتوں نے تسلیم کیاہے، مولانا فضل الرحمان نے باقی اپوزیشن جماعتوں کو کل صبح تک کا وقت دیاہے ، وہ کل صبح تک میرا یقین ہے کہ مثبت جواب مولانا کو دیں گے ، جبکہ ان کے تمام اعتراضات ، تمام شکایتیں ، اس آئینی ترمیمی بل میں موجود نہیں ہیںِ۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ مولانا فضل الرحمان انہیں بھی قائل کر لیں گے ، مجھے امید ہے کہ جیسے ہی ان کی ملاقات ختم ہوتی ہے اور پارلیمان کا اجلاس ہوتاہے تو مولانا فضل الرحمان میری درخواست مانیں گے اور جو اب ہمارا بل ہے ، جو ہم نے مل کر لکھا ہے ، وہ بل جمیعت علماء اسلام خود پیش کرے ، نہ صرف جو حکومت میں اتحادی جماعتیں ہیں بلکہ اپوزیشن کی جماعتیں بھی اس ترمیم ووٹ دیتے ہوئے ساتھ دے سکیں گی ، جیسے 18 ویں ترمیم اتفاق رائے سے پاس کروائی ، اس آئینی ترمیم کو بھی سیاسی اتفاق رائے سے پاس کروائیں گے۔
آئینی ترمیم کیلئے آج ہونے والی سیاسی سرگرمیوں پر ایک نظر
26ویں آئینی ترمیم کی اتفاق رائے سے منظوری کیلیے مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ سیاسی مرکز بنی ہوئی ہے جہاں حکومت اور اپوزیشن اراکین کی وقفے وقفے سے آمد کا سلسلہ جاری رہا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیم کا حتمی مسودہ فضل الرحمان کو پیش کیا، سربراہ جے یو آئی ایف نے مسودہ وصول کرنے کے بعد مشاورت کیلئے ایک روز کا وقت مانگا۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس ملتوی
قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس اتوار کی سہ پہر تک ملتوی کر دیا گیا ہے ، جبکہ وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی اتوار صبح تک ملتوی کیا گیا ہے جس میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی جائے گی۔
مولانا کی رہائشگاہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز
حکومت کی جانب سے حتمی مسودہ مولانا فضل الرحمان کے حوالےکر دیا گیا اور امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ آج 19 اکتوبر کی شب ہی آئینی ترمیم منظور کروائی جائے گی لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا، مشاورت ایک روز مزید جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر داخلہ محسن نقوی سربراہ جے یو آئی کی رہائش گاہ پر 3 گھنٹے تک مشاورت کرتے رہے۔
آئینی ترامیم مسودے پر مشاورت کیلئے بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل بھی مولانا فضل الرحمان کی رہائشگاہ پہنچے جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری بھی وہاں موجود تھے اور 2 گھنٹے سے زائد وقت سے مشاورت کا سلسلہ جاری رہا۔
اس سے قبل
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمان سے دو بار ملاقاتیں کیں، پہلی ملاقات کے بعد انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی پی اور جے یو آئی کے درمیان آئینی ترمیم پر اتفاق رائے پیدا ہوگیا ہے۔
بعد ازاں وزیر داخلہ محسن نقوی، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار دوسری بار، پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پہنچے۔ پھر وزیر قانون مولانا کے گھر پہنچے اور آئینی ترمیم کا حتمی مسودہ انہیں پیش کیا۔
وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ، شیری رحمن، نوید قمر اور مرتضی وہاب نے بھی فضل الرحمان سے ملاقات کی۔ اس کے علاوہ بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے بھی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔
مولانا فضل الرحمن کے بغیر بھی ترمیم منظوری کا آپشن ہے، خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے بغیر بھی ترمیم منظوری کا آپشن ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کو ساتھ لے ہر چلیں اور چاہتے ہیں کہ متفقہ آئینی ترمیمی بل پارلیمنٹ ست منظور ہو۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ اتفاق رائے نہ ہوا تو آئینی ترمیمی بل کا اپنا مسودہ لائیں گے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا ہم پی ٹی آئی سے ڈکٹیشن کیوں لیں ، ہمیں مزید وقت بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
تحریک انصاف کا آئینی ترمیم پر رائے شماری سے بائیکاٹ کا فیصلہ
پاکستان تحریک انصاف نے آئینی ترمیم کو متنازع اور غیر شفاف قرار دیتے ہوئے اس کا حصہ نہ بننے اور ووٹنگ کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کردیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کا بیرسٹر گوہر کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں کمیٹی نے آئینی ترمیم کو متنازع اور غیر شفاف قرار دیتے ہوئے بائیکاٹ کا فیصلہ کردیا۔
اعلامیے کے مطابق پی ٹی آئی سینیٹ اور قومی اسمبلی دونوں ایوانوں میں آئینی ترمیم پر رائے شماری کے عمل کا مکمل بائیکاٹ کرے گی۔ پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ اراکین پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہ ڈالیں، پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کر کے رائے شماری میں حصہ لینے والے اراکینِ قومی اسمبلی اور سینٹ کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔
سیاسی کمیٹی نے کہا کہ انتخاب پر کھلا ڈاکہ ڈالنے اور عوام کا مینڈیٹ ہتھیا کر ایوانوں پر قابض ہونے والے گروہ کے پاس آئین کو بدلنے کا کوئی اخلاقی، جمہوری اور آئینی جواز نہیں ہے، مینڈیٹ چور سرکار آئین میں ترامیم کے ذریعے ملک میں جمہوریت کو زندہ درگور کرنا ہے۔
سیاسی کمیٹی نے کہا کہ تحریک انصاف روزِ اوّل سے ان متنازع ترین ترامیم کی مخالف اور انہیں ملک کے مستقبل کیلئے تباہ کن سمجھتے ہوئے ان کی مزاحمت میں مصروفِ عمل ہے اور دستور کا چہرہ مسخ کرنے کے اس بیہودہ عمل اور اس پر دونوں ایوانوں میں رائے شماری سے مکمل طور پر الگ رہے گی۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے ٹکٹس پر سینٹ اور قومی اسمبلی کا حصہ بننے والے اراکین پارٹی پالیسی اور عمران خان کی ہدایت پر عمل کے پابند ہیں، پارٹی پالیسی سے روگردانی کرتے ہوئے سینٹ یا قومی اسمبلی میں کسی بھی انداز میں رائے شماری میں حصہ لینے والے اراکین کیخلاف پرامن دھرنے دیں گے۔
جے یو آئی (ف) کا آئینی ترامیم کا مجوزہ مسودہ منظر عام پر آگیا
چھبیسویں آئینی ترمیم میں جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کا مجوزہ مسودہ منظر عام پر آگیا۔ مسودہ 27 نکات پر مشتمل ہے۔
جے یو آئی کی 27 نکات پر مشتمل مجوزہ مسودہ میں ججزکی تقرری کیلئے 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کا ذکر نہیں۔ 3 ججوں کا پینل بھی نہیں ہوگا، گویا سینئر ترین جج ازخود چیف جسٹس بن جائے گا۔
آرٹیکل 175 اے، جوڈیشل کونسل کے صدر چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے۔ ارکان میں سپریم کورٹ کے 3 سینئرترین ججز ، وزیرقانون، اٹارنی جنرل شامل ہوں گے، سپریم جوڈیشل کونسل میں 4 ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ ایک خاتون یا غیرمسلم ممبر ہوگا۔
قبل ازیں گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو میں جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف سمیت اپوزیشن جماعتوں نے کل تک کا وقت مانگا ہے، وہ کل اپنا جواب دیں گے جس کے بعد آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کر کے اتفاق رائے سے منظور کروائیں گے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومتی مسودے پر جن نکات پر اعتراض کیا وہ تمام خارج کر دیئے گئے ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ ہماری خواہش ہے کہ جمعیت علماء اسلام پارلیمان میں پیش کرے۔
رابطے اور مذاکرات رنگ لے آئے، حکومت 26 ویں آئینی ترامیم منظور کرانے کے قریب
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس آج ہوگا۔ وفاقی کابینہ آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری آج دے گی۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اہم اجلاس بھی آج دوبارہ ہوں گے۔ دونوں ایوانوں میں آئینی ترامیم منظوری کے لیے پیش کیے جانے کاامکان ہے۔
وفاقی کابینہ 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری آج دے گی ۔ اجلاس دوپہر ڈھائی بجے ہوگا۔ اس کے ساتھ سینیٹ کا اجلاس سہ پہر 3 بجے جبکہ قومی اسمبلی کا اجلاس شام 6 بجے طلب کیا گیا ہے۔ دونوں ایوانوں کے اجلاسوں کے ایجنڈے میں آئینی ترمیم کا بل تاحال شامل نہیں۔
قومی اسمبلی اجلاس میں قانونی معاونت اور انصاف اتھارٹی کے قیام کا ترمیمی بل، صدرمملکت کے دونوں ایوانوں سے خطاب پر بحث، عوامی مسائل پر دو توجہ دلاؤ نوٹسز،وقفہ سوالات قومی اسمبلی ایجنڈے میں شامل ہیں۔ قومی اسمبلی اجلاس ایجنڈے میں 26 ویں آئینی ترمیم کا بل شامل نہیں۔
سینیٹ اجلاس میں وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ سوسائیٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860میں ترمیم کا بل پیش کرنے کی تحریک پیش کرینگے، آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی اورسینیٹ میں سپلیمنٹری ایجنڈے کے طور پر پیش کرنےکا امکان ہے۔
آئینی ترامیم کا مجوزہ مسودہ
چھبیسویں آئینی ترمیم میں جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کا مجوزہ مسودہ منظر عام پر آگیا۔ مسودہ 27 نکات پر مشتمل ہے۔ جے یو آئی کی 27 نکات پر مشتمل مجوزہ مسودہ میں ججزکی تقرری کیلئے 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کا ذکر نہیں۔ 3 ججوں کا پینل بھی نہیں ہوگا، گویا سینئر ترین جج ازخود چیف جسٹس بن جائے گا۔
آرٹیکل 175 اے، جوڈیشل کونسل کے صدر چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے۔ ارکان میں سپریم کورٹ کے 3 سینئرترین ججز ، وزیرقانون، اٹارنی جنرل شامل ہوں گے، سپریم جوڈیشل کونسل میں 4 ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ ایک خاتون یا غیرمسلم ممبر ہوگا۔
قبل ازیں گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو میں جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف سمیت اپوزیشن جماعتوں نے کل تک کا وقت مانگا ہے، وہ کل اپنا جواب دیں گے جس کے بعد آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کر کے اتفاق رائے سے منظور کروائیں گے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومتی مسودے پر جن نکات پر اعتراض کیا وہ تمام خارج کر دیئے گئے ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ ہماری خواہش ہے کہ جمعیت علماء اسلام پارلیمان میں پیش کرے۔
مجوزہ آئینی ترمیم، سینیٹ اور قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کیا ہے؟
عدلیہ سے متعلق قانون سازی کیلئے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس آج ہوں گے۔ آئینی ترمیم کا بل سپلیمنٹری ایجنڈے کے طور پر پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ حکومت کی جانب سے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
آئینی ترمیم کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے الگ الگ دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ دو تہائی اکثریت کے لیے قومی اسمبلی میں 224 اور سینیٹ میں 63 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں حکومتی نشستوں پر 215 ارکان جب کہ اپوزیشن بنچزپر 101 ارکان موجود ہیں، قومی اسمبلی میں 8 آزاد ارکان بھی ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی ووٹ نہیں کاسٹ کرسکیں گے، جے یوآئی کے8 ارکان ملانے کے بعد بھی مزید 4 ووٹ درکار ہوں گے۔
قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ ن کے 111، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے 70، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 22، استحکام پاکستان پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ق کے چار 4، پاکستان مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کا 1 ایک ایک رکن ہے۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کے 80، پی ٹی آئی حمایت یافتہ 8 آزاد ارکان ، جمیعت علماء اسلام کے 8، بلوچستان نیشنل پارٹی، مجلس وحدت المسلمین اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن ہے۔ آزاد حیثیت سے منتخب ہو کر مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کرنے والے ایک ایک رکن بھی اپوزیشن نشستوں پر ہیں۔
سینیٹ میں حکومتی بنچز پر پاکستان پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19،بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم کے 3 ارکان ہیں۔ حکومتی بنچز پر 2 آزاد سینیٹرز جب کہ 2 ارکان انڈیپنڈنٹ بنچز پر ہیں۔ یوں ایوان بالا میں ان کی مجموعی تعداد54 بنتی ہے، اس لیے آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو مزید 9 ووٹ درکار ہیں۔
سینیٹ میں اپوزیشن بنچز پر پی ٹی آئی کے 17، جے یو آئی کے 5، اے این پی کے 3، سنی اتحاد کونسل ، مجلس وحدت المسلمین ، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کا ایک ایک سینٹر ہے۔ اپوزیشن بنچز پر ایک آزاد سینیٹر بھی ہیں، اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن بنچز پر 31 سینیٹرز موجود ہیں۔
سیاسی صورتحال کے باعث وزیراعظم نے بیرون ملک جانے کا پروگرام ترک کردیا
آئینی ترمیم اور سیاسی صورتحال کے باعث وزیراعظم شہبازشریف نے بیرون ملک جانے کا پروگرام ترک کردیا۔ وزیراعظم نے دولت مشترکہ کے سربراہان حکومت کے اجلاس میں شرکت کرنا تھا تاہم بلاول بھٹو زرداری آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد دبئی روانہ ہوجائیں گے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے بیرون ملک جانے کا پروگرام ترک کردیا، وزیراعظم شہباز شریف نے منگل کو سموعہ کے لئے روانہ ہونا تھا، دولت مشترکہ کے سربراہان حکومت کا اجلاس 24اور25 اکتوبر کو ہونا ہے، وزیراعظم کی جگہ وزیرخارجہ کا پاکستان کی نمائندگی کرنے کا امکان ہے۔ آئینی ترمیم ہونے کی صورت میں وزیرخارجہ آج رات روانہ ہوں گے۔
دوسری جانب چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی آج دبئی روانہ ہوں گے، بلاول بھٹو زرداری اپنی ہمشیرہ بختاور اور بھانجوں سے ملاقات کریں گے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس آج ہوگا۔ وفاقی کابینہ آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری آج دے گی۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اہم اجلاس بھی آج دوبارہ ہوں گے۔ دونوں ایوانوں میں آئینی ترامیم منظوری کے لیے پیش کیے جانے کاامکان ہے۔
وفاقی کابینہ 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری آج دے گی ۔ اجلاس دوپہر ڈھائی بجے ہوگا۔ اس کے ساتھ سینیٹ کا اجلاس سہ پہر 3 بجے جبکہ قومی اسمبلی کا اجلاس شام 6 بجے طلب کیا گیا ہے۔ آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی اور سینیٹ میں سپلیمنٹری ایجنڈے کے طور پر پیش کرنے کا امکان ہے۔
تحریک انصاف کے 5 اراکین قومی اسمبلی سے ہمارا رابطہ نہیں ہے،بیرسٹر گوہر
چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی کا کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی کے بیٹے کا اپنی فیملی سے رابطے میں نہیں ہے جبکہ مجموعی طور پر سے 5 لوگوں کے ساتھ ہمارا رابطہ نہیں ہے۔
نمائندہ خصوصی سماء سے گفتگو میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ تاحال نہیں کیا، ہمارے چند دستیاب ارکان آج پارلیمنٹ اسمبلی ہاؤس جائیں گے، فضل الرحمان کو اپنی پارٹی کے فیصلوں سے بھی آگاہ کریں گے۔
تحریک انصاف نے فضل الرحمان سے ملاقات کے لئے وفد تشکیل دے دیا، وفد میں بیرسٹر گوہر، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور اسد قیصر شامل ہیں۔ وفد کی ملاقات کچھ ہی دیر میں فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر ہوگی۔ بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ فضل الرحمان سے آج آئینی ترمیم پر مشاورت کریں گے۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے 11 ارکان کا پارٹی سے رابطہ نہیں ہوپا رہا، جن میں 2 سینیٹرز اور 8 سے 9 ارکان قومی اسمبلی شامل ہیں۔
سینٹرز میں فیصل سلیم اور ڈاکٹر زرقا تیمور سہروردی جبکہ اراکین قومی اسمبلی میں زین قریشی، ظہور قریشی، برگیڈئیر ر اسلم گھمن سے رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ عثمان علی، ریاض فتیانہ مقداد حسین ،چوہدری الیاس سے بھی رابطہ نہیں۔ اورنگزیب خان کھچی اور مبارک زیب خان بھی ربطے سے باہر ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے اپنے سینیٹرز کو پارلیمنٹ ہاؤس جانے کی ہدایت کردی
جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپنے سینیٹرز کو پارلیمنٹ ہاؤس جانے کی ہدایت کردی۔
جمعیت علماء اسلام کے 5 سینیٹرز کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات ہوئی ہے جس کے دوران سربراہ جے یو آئی نے انہیں پارلیمنٹ پہنچنے کی ہدایت کی۔
مولانا فضل الرحمان کی ہدایت کے بعد کامران مرتضیٰ،عطاء الرحمان ، احمد خان اور عبدالواسع پارلیمنٹ ہاوس کیلئے روانہ ہو گئے ہیں جبکہ مولانا عبدالشکور براہ راست پارلیمنٹ ہاؤس عطاالرحمان کے چیمبر میں پہنچیں گے۔
جمعیت علماء اسلام کے تمام سینیٹرز مولانا عطالرحمان کے چیمبر میں بیٹھیں گے۔
وفاقی کابینہ نے 26 ویں آئینی ترامیم کے مسودے کی منظوری دے دی
وفاقی کابینہ نے 26 ویں آئینی ترامیم کےمسودے کی منظوری دے دی۔
اتوار کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس ہوا جس میں 26 ویں آئینی ترامیم کےمسودے کی منظوری دے دی گئی ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تمام وزراء شریک ہوئے۔
وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد آئینی ترامیم کا مسودہ ایوان بالا اور ایوان زیریں میں پیش کیا جائے گا۔
کابینہ اجلاس کا اعلامیہ
اجلاس کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم پر دوبارہ تفصیلی بریفنگ دی جس کے بعد کابینہ نے پیپلز پارٹی سمیت حکومتی اتحادی جماعتوں کا 26 ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودہ منظور کرلیا۔
کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور ملکی حالات کی بہتری کیلئے بہترین فیصلہ کیا، پوری قوم کو 26 ویں آئینی ترمیم کی کابینہ سے منظوری کی مبارکباد ہو۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کابینہ نے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے ملکی وسیع تر مفاد میں فیصلہ کیا، اللہ کے فضل سے معیشت کے بعد آئینی استحکام اور قانون کی حکمرانی کا سنگ میل عبور ہوا، وعدے کے مطابق ملک کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کیلئے کام جاری رکھیں گے۔
وزیراعظم شہبازشریف نے تمام اتحادی جماعتوں کے سربراہان کا بھی خصوصی شکریہ ادا کیا۔
وزیر دفاع کی گفتگو
کابینہ اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ کابینہ نے اتفاق رائے کیساتھ مسودے کی منظوری دی ہے اور جمعیت علماء اسلام ترمیمی بل کی حمایت کرے گی۔
وزیر دفاع نے بتایا کہ آٸینی ترمیم کا مسودہ پہلے سینیٹ میں پیش کیا جاٸیگا ، قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے، یہ کوٸی بالادستی کا معاملہ نہیں ، مشاورت کے بعد آٸینی ترمیمی بل کے مسودے کی منظوری دی گٸی ہے ، کسی کے اختیارات کا معاملہ نہیں ہم آئین کے مطابق قانون سازی کر رہے ہیں۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آٸی کو آن بورڈ کرے کی پوری کوشش کی ، پی ٹی آئی کا روٸیہ ہمیشہ منفی رہا ہے۔
پی ٹی آئی موجود ہو یا نہیں لیکن آئین سازی آج ضروری ہوگی، بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) موجود ہو یا نہیں لیکن آئین سازی آج ضروری ہوگی۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ملک کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مجھے وہ انصاف دیا جو کوئی اور نہیں دے سکتا ، اس جج نے مشرف غداری، ایبٹ آباد کیس، فیض آباد کیس اور کوئٹہ وکلا کیس کے فیصلوں کو نمٹایا۔
لازمی پڑھیں۔ وفاقی کابینہ نے 26 ویں آئینی ترامیم کے مسودے کی منظوری دے دی
پی پی چیئرمین نے مطالبہ کیا کہ تمام صحافی اور دیگر حضرات چیف جسٹس کی ایکسٹینشن پر غلط خبروں پر معافی مانگیں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے خود ملاقات کے بعد اپنا مؤقف دینے کا کہا تھا ، پاکستان تحریک انصاف کا رد عمل افسوس ناک ہے ، ہم نے کوشش کی کہ اتفاق رائے بن جائے مگر پاکستان تحریک انصاف نے ترمیم کے حوالے سے کوئی تجاویز نہیں دی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کو ان ترامیم میں ساتھ دینا چاہیے ، پاکستان تحریک انصاف موجود ہو یا نہیں لیکن آئین سازی آج ضروری ہوگی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے کوئی طعنہ نہیں دے سکتا کہ میں نے جلد بازی کی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترامیم کے مسودے کے اہم نکات بتادیے
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترامیم کے مسودے کے اہم نکات بتادیے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم آج پارلیمنٹ میں پیش ہونے جا رہی ہے جس کا مسودہ 26 نکات پر مشتمل اور متفقہ ہے جبکہ مسودے پر سیاسی اتفاق رائے پیدا کیا گیا ہے اور یہ وہی مسودہ ہے جو پارلیمانی کمیٹی نے پیش کیا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ تمام عمل میں بلاول بھٹو کی انتھک محنت اور کوشش ہے، بریک تھرو اتحادی جماعتوں نے جو مسودہ دیا تھا اس پر نیگیوشیٹ کیا تھا، جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ) نے 5 تجاویز دیں اور وہ اپنی ترامیم فلور پر لائی تو حق میں ووٹ دیں گے۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ صدر اور وزیر اعظم کی بھی مولانا فضل الرحمان سے طویل مشاورت ہوئی تھی، شریعت کورٹ کی ججمنٹ کو ٹرانسلیٹ کیا گیا، وہی ترامیم اس ڈرافٹ کا حصہ تھیں جو جے یو آئی نے دیں، باقی چیزیں وہی ہیں جس میں آئینی بینچز ہیں، بینچز کی تشکیل کا اختیار جوڈیشل کمیشن کے پاس ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کا سربراہ چیف جسٹس ہوگا، 4 سینئر ترین ججز بھی جوڈیشل کمیشن میں ہیں۔
پی ٹی آئی کا ترامیم کے حق میں ووٹ نہ دینے کا اعلان، کالے سانپ کے دانت توڑ دیئے، مولانا فضل الرحمان
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) نے حکومتی آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ نہ دینے کا اعلان کر دیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا سربراہ جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ) مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم نے آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ہم پارلیمنٹ اجلاس میں شرکت کریں گے اور تقاریر میں اپنا موقف پیش کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان سے ہمارا کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے اور ان کے ساتھ پہلے کی اچھے تعلقات برقرار رہیں گے۔
بیرسٹر گوہر کی گفتگو
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ملاقاتوں کا سلسلہ عرصے سے جاری ہے، مولانا فضل الرحمان نے بردباری کا مظاہرہ کیا ہے، پی ٹی آئی کی جانب سے میں ان کا مشکور ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین میں ترمیم سنجیدہ مسئلہ ہے، اس مسئلے کو اچھے طریقے سے سمجھتے ہیں، بانی پی ٹی آئی آج بھی چیئرمین ہیں کل بھی تھے آئندہ بھی رہیں گے، ہم ہر مشورہ ان کی رضامندی سے کرتے ہیں، حکومتی مسودے پر غور کیا ہے، کل بانی پی ٹی آئی نے کہا تھااپوزیشن لیڈر سے مشاورت کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اصولی موقف لے چکے ہیں، جس طریقے سے اس بل کو لایا گیا اس کی ہم نے مذمت کی ہے، ہمارے ممبران کو اٹھایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا اورمولانا فضل الرحمان کا ساتھ رہے گا، جہاں تک ووٹنگ کا تعلق ہے، اعلان کرتے ہیں کہ بل پر ووٹ نہیں کریں گے، ہمارےشدید تحفظات اور احتجاج رہا ہے، ہم تحفظات پر فلور پر بات کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا مولانا فضل الرحمان سے کوئی گلہ شکوہ نہیں۔
مولانا فضل الرحمان کی گفتگو
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے کالے سانپ کے دانت توڑ دیے ہیں اور اس کا زہر نکال دیا ہے، تحریک انصاف کے حالات ایسے ہیں جن کے باعث ووٹ نہ دینا ان کا حق بنتا ہے، ابھی بھی مفاہمت کا وقت ہے، ہم کوشش کریں گے کہ سب کا اتفاق ہو۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا مشکور ہوں انہوں نے ہمارے کردار کو سراہا، کسی درجے میں کوئی تحفظ تو رہ جاتا ہے، ہم نے کالے سانپ کے دانت توڑ کر زہر نکال دیا ہے، بل کے مسودے کے متن پر کوئی جھگڑا نہیں رہا ہے۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ جو حالت زار بانی پی ٹی آئی کی بتائی گئی اور دیگر معاملات ہوئے اس پر پی ٹی آئی کا فیصلہ ان کا حق بنتا ہے اور اس بنیادی حق کو میں سپورٹ کرتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کسی کا نہیں قوم کا ہوتا ہے، ہم نے مل کر محنت اور کوشش کی ہے، کسی بھی جماعت پر جبر نہیں کر سکتے، خوشی سے بائیکاٹ کیا ہے تو جائز ہے، جو بل مسترد کیا تھا ہم نے تبدیل کر دیا ہے، میں نے اسمبلی میں انیی شیٹ کیا تھا، کہا تھا آئینی ترمیم کو ججز کی شخیصات پر یرغمال کیوں بنا رہے ہیں، کبھی ججز کی معیاد زائد ، تعداد بڑھا رہے ہیں ، ججز کی فٹنس بھی اہمیت کی حامل ہے، ججز کی کارکردگی بھی اہم ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم پیکج پر متفق ہیں ، جزیات پر تحفظات ہوا تو ترمیم کریں گے، جہاں پر اختلاف رائے ہوگا ہم کریں گے۔
سینیٹ میں آئینی ترمیمی بل کی شق وار منظوری کا عمل جاری
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیمی بل سینٹ میں پیش کردیا۔
چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کی صدارت ایوان بالا کا اجلاس جاری ہے جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے 26 ویں آئینی ترمیمی بل سینٹ میں پیش کردیا گیا ہے۔
26 ویں آئینی ترمیمی بل ضمنی ایجنڈے کے طور پر سینیٹ میں لایا گیا۔
اجلاس تاخیر سے شروع ہونے کے بعد سینیٹر اسحاق ڈار نے وقفہ سوالات معطل کرنے کی تحریک پیش کی جسے اکثریتی رائے سے منظور کر لیا گیا۔
بعدازاں، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیمی بل پیش کیا۔
وزیر قانون کا اظہار خیال
وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے سیینٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیمی بل پر اپوزیشن سمیت تمام جماعتوں سے مشاورت کی گئی اور سینیٹ میں ضمنی ایجنڈا تمام ارکان کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔
19 ویں ترمیم عجلت میں کی گئی،19 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے ججز تقرری عمل کا توازن عدلیہ کے حق میں چلا گیا تھا، نئی ترامیم کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال ہوگی ، کوشش کی گئی ہےاعلیٰ عدالتوں میں ججز کے تقرر کا عمل شفاف بنایا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ چیف جسٹس کے تقرر کے لیے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنے گی، چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا، پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے 3 سینئر ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی، پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم اور صدرمملکت کو بھجوائیں گے۔
وزیر قانون نے بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی اور چار سینیٹرز ہوں گے ، پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی نمائندگی ہوگی ، سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر جوڈیشل کمیشن کرے گا، وفاقی وزیرقانون اور اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے رکن ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پارلیمانی کمیٹی میں ہم نے کئی فیصلوں کو آٹھ صفر سے کیا، صرف ایک جج نے پارلیمانی کمیٹی کے متفقہ فیصلے کو اٹھا کر پھینک دیا اس سلسلے کو بند کرنا ہے، آئینی بینچز کا تقرر جوڈیشل کمیشن کرے گا۔
انہوں نے بتایا کہ چیف جسٹس قاضی فائر عیسی سے تین ملاقاتیں ہوئیں ، انہوں نے کہا کہ ایکسٹینشن میں دلچسپی نہیں رکھتے، وہ مدت مکمل کر کے چلے جائیں گے۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ بند دروازوں کے پیچھے جو معاملات ہوتے ہیں ہم انہیں نہیں مانتے، بر وقت انصاف نہیں ملتا ، مقدمات پر سالہا سال لگ جاتے ہیں، ججز تقرری میں شفافیت کے لیے سب ایک کمیشن میں بیٹھ کر فیصلہ کریں گے، جوڈیشل کمیشن کے پاس ججز کی کارکردگی جانچنے کا بھی اختیار ہوگا، جو ججز کام نہیں کرتے اور جن کی کارکردگی درست نہیں کمیشن کو رپورٹ کریں گے۔
جے یو آئی ف کی 5 مزید ترامیم کو بھی تسلیم کرنے کا اعلان
حکومت نے آئینی ترمیمی بل کے متفقہ مسودہ میں جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ) کی پانچ مزید ترامیم کو بھی تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور وزیر قانون نے کہا کہ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے پانچ ترامیم آج جمع کرائی ہیں، ان پانچوں ترامیم پر بھی ہمارا اتفاق رائے ہے ۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے سے ترامیم ہیں ، 26 ویں آئینی ترمیمی بل کو آج منظور کیا جائے ، آئین میں ترمیم کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔
26ویں آئینی ترمیم کے متعلق سینیٹ میں پیش کئے گئے مسودے کے نکات سامنے آگئے
26ویں آئینی ترمیم کے متعلق کابینہ کی منظوری کے بعد سینیٹ میں پیش کئے گئے مسودے کے نکات سامنے آگئے ہیں۔
چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کی صدارت ایوان بالا کا اجلاس ہوا، جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیمی بل سینٹ میں پیش کیا 26 ویں آئینی ترمیمی بل ضمنی ایجنڈے کے طور پر سینیٹ میں لایا گیا۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیمی بل پیش کیا۔
26ویں آئینی ترمیم کے متعلق سینیٹ میں پیش کئے گئے مسودے کے نکات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری 12رکنی پارلیمانی کمیٹی کرےگی، کمیٹی میں قومی اسمبلی کے 8 ،سینیٹ کے 4 ارکان شامل ہوں گے، تمام جماعتوں کو پارلیمنٹ میں ان کی تعداد کے تناسب سے کمیٹی میں نمائندگی ملے گی قومی اسمبلی تحلیل ہو تو سینیٹ کے 4 ارکان تقرری کے مجاز ہوں گے، کمیٹی سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ترین ججز میں سے کسی ایک کو کثرت رائے سے چیف جسٹس مقرر کرے گی۔
چیف جسٹس کی تقرری قبول نہ کرنے پر ان کے بعد کے سینئر جج کا نام زیر غور لایا جائے گا، کمیٹی کا اجلاس بند کمرے میں ہوگا، اس کی کارروائی ریکارڈ کی جائے گی، کمیٹی اور جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا، آرٹیکل 179 میں ترمیم، چیف جسٹس کی مدت زیادہ سے زیادہ 3 سال ہوگی، 3سال گزرنے پر چیف جسٹس کی عمر 65 برس سے کم بھی ہوگی تو ریٹائرڈ کر دیا جائے گا۔
Draft of the 26th Constitutional Amendment by Farhan Malik on Scribd
نیا آرٹیکل 191 اے میں سپریم کورٹ میں“آئینی بینچ”کا قیام، ججز کی تعداد جوڈیشیل کمیشن مقرر کرے گا، آئینی بینچ کے ججز میں ممکنہ حدتک تمام صوبوں کو برابر کی نمائندگی دی جائے گی، آئینی بینچ کے علاوہ سپریم کورٹ کا کوئی جج اوریجنل جوریسڈکشن، سوموٹو مقدمات، آئینی اپیلیں یا صدارتی ریفرنس کی سماعت کا مجاز نہیں ہوگا سوموٹو، اوریجنل جوریسڈکشن درخواستوں اور صدارتی ریفرنسز کی سماعت اور فیصلہ“آئینی بینچ” کا 5 رکنی بینچ کرے گا۔
آئینی اپیلوں کی سماعت اور فیصلہ بھی 5 رکنی آئینی بینچ کرے گا، آئینی بینچ کے 3 سینئر ترین جج سماعت کا بینچ تشکیل دیں گے، سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کے دائرہ اختیارمیں آنے والی “زیرالتوا” کیسز اور نظرثانی درخواستیں آئینی بینچ کو منتقل ہوجائیں گی، ہائیکورٹ کو سوموٹو نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہوگا، آرٹیکل 175 اے، جوڈیشل کمیشن کے موجودہ ارکان برقرار، 4 ارکان پارلیمنٹ شامل کئے جائیں گے۔
سینیٹ کارکن منتخب ہونے کی مجاز خاتون یا اقلیتی شہری بھی رکن ہوگا، تقرری اسپیکر دو سال کیلئے کرے گا، کمیشن کے ایک تہائی ارکان چیئر پرسن کو تحریری طور پر اجلاس بلانے کی استدعا کر سکتے ہیں، چیئر پرسن 15روز میں اجلاس بلانے کاپابند ہوگا، نہ بلانے پر سیکرٹری کو 7 روز میں اجلاس بلانے کا اختیار ہوگا، نیا آرٹیکل 9 اے متعارف، صحت مندانہ پائیدار ماحول بنیادی حق قرار جائے گا،آرٹیکل 48 میں سے وزیر اور وزیر مملکت کے الفاظ حذف کئے جائیں۔
صرف کابینہ یا وزیراعظم کی صدر کو بھجوائی گئی سمری کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکےگا، آرٹیکل 81 میں ترمیم، سپریم جوڈیشیل کونسل اور انتخابات کیلئے فنڈز لازمی اخراجات میں شامل ہوں گے آرٹیکل 111 میں ترمیم، صوبائی مشیروں کو بھی اسمبلی میں خطاب کا حق دیا جائے گا، 184(3) کے تحت سو موٹو یا ابتدائی سماعت کے مقدمات میں سپریم کورٹ صرف درخواست میں کی گئی استدعا کی حد تک فیصلہ جاری کر سکے گی۔
سپریم کورٹ اب 50ہزار کے بجائے 10 لاکھ روپے تک کی اپیلیں براہ راست سماعت کی مجاز ہوگی، آرٹیکل 186 اے میں ترمیم سپریم کورٹ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے زیر سماعت مقدمہ اپیل یا دیگر کارروائی کسی اور ہائیکورٹ کو منتقل کرنے کے علاوہ خود کو بھی منتقل کرنے کی بھی مجاز ہو گی ،آرٹیکل 187کے تحت مکمل انصاف کے لئے کوئی بھی حکم جاری کرنے کا اختیار محدود کرنے کی تجویز حکم صرف اپنے آئینی دائرہ اختیار کے اندر ہی جاری کیا جا سکے گا۔
آرٹیکل 209 میں ترمیم چیف جسٹس آف پاکستان کیخلاف ریفرنس ہو تو ان سے نیچے کا سینئر ترین جج سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ بنایا جا سکے گا،ججز کو ہٹانے کی وجوہات میں ناقص کارکردگی کو بھی شامل کر دیا گیا، اس کے لئے ججز کی کارکردگی پر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کو بنیاد بنایا جائےگا سپریم جوڈیشل کونسل کا اپنا سیکریٹریٹ قائم کرنے اور ایک سیکریٹری کی سربراہی میں اسٹاف کے تقرر کی تجویز، ہر کام کونسل کے وائد کی روشنی میں عمل میں آئے گا۔
چیف الیکشن کمشنر اور ارکانِ الیکشن کمیشن مدت مکمل ہونے کے باوجود نئے کمشنر یا ارکان کی تقرری تک کام کرتے رہیں گے، کوئی آئینی عہدیدار کسی دوسرے آئینی عہدیدار سے حلف لینے سے انکار کرے تو چیف جسٹس آف پاکستان یا چیف جسٹس ہائیکورٹ حلف لینے کیلئے کسی کو نامزد کر سکتے ہیں ،وفاقی شرعی عدالت کاجج بھی شریعت کورٹ کاچیف جسٹس بن سکے گا، وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ اپیل کی صورت میں صرف ایک سال معطل رہ سکے گا شریعت ایپلٹ بینچ کے فیصلہ نہ کر سکنے کی صورت میں ایک سال بعد شرعی عدالت کا فیصلہ بحال ہو جائے۔
سینیٹ نے26ویں آئینی ترمیمی بل دوتہائی اکثریت سےمنظورکرلیا
- سپریم کورٹ کاآئینی بینچ تشکیل دیاجائیگا،بل
- جوڈیشل کمیشن آئینی بینچزاورججزکی تعدادکاتقررکرےگا۔
- آئینی بینچزمیں جتناممکن ہوتمام صوبوں سےمساوی ججزتعینات کیے جائیں گے۔
- آرٹیکل184کےتحت ازخودنوٹس کااختیارآئینی بینچزکےپاس ہوگا۔
- آرٹیکل185کےتحت آئین کی تشریح سےمتعلق کیسزآئینی بینچزکےدائرہ اختیارمیں آئیں گے۔
- آئینی بینچ کم سےکم پانچ ججزپرمشتمل ہوگا۔
- آئینی بینچزکےججزکاتقرر3سینیئرترین ججزکی کمیٹی کریگی۔
- چیف جسٹس کا تقررخصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پرکیاجائےگا۔
- پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے3سینیئرترین ججزمیں سےچیف جسٹس کاتقررکرےگی۔
- کمیٹی کی سفارش پرچیف جسٹس کانام وزیراعظم صدرمملکت کو بھجوائیں گے۔
- پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی تعیناتی دوتہائی اکثریت سےکریگی۔
- کسی جج کےانکارکی صورت میں اگلےسینیئرترین جج کانام زیرغورلایا جائےگا۔
- چیف جسٹس کےتقررکےلئے12رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائےگی۔
- پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔
- پارلیمانی کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی چار ارکان سینٹ ہوں گے۔
- چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت3سال ہوگی۔
- چیف جسٹس کےلیےعمرکی بالائی حد65سال مقرر۔
- آرٹیکل184تین کےتحت سپریم کورٹ کوئی ہدایت یاڈیکلریشن نہیں دے سکتی۔
- آرٹیکل186اےکےتحت سپریم کورٹ ہائیکورٹ کےکسی بھی کیس کومنتقل کرسکتی ہے۔
- ججزتقرری کمیشن ہائیکورٹ کےججزکی سالانہ کارکردگی کاجائزہ لے گا۔
- سپریم کورٹ کےججزکاتقررجوڈیشل کمیشن کرےگا۔
- چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں4سینیئرترین ججزشامل ہوں گے۔
- وفاقی وزیرقانون اٹارنی جنرل بھی کمیشن کےارکان ہوں گے۔
- کم سے کم 15 سال تجربےکاحامل پاکستان بارکونسل کانامزدکردہ وکیل2سال کےلیےکمیشن کا رکن ہوگا۔
- 2ارکان قومی اسمبلی اور2ارکان سینٹ کمیشن کاحصہ ہوں گے۔
- سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ خاتون رکن یاغیرمسلم رکن کو بھی2سال کےلیے کمیشن کارکن بنایاجائے گا۔
- آرٹیکل38میں ترمیم کےتحت جس حدتک ممکن ہوسکے1جنوری2028 تک سودکاخاتمہ کیاجائےگا۔
- آرٹیکل48میں ترمیم منظور۔
- وزیراعظم یاکابینہ کی جانب سےصدرمملکت کوبھجوائی گئی ایڈوائس پر کوئی عدالت،ٹریبیونل یااتھارٹی سوال نہیں اٹھاسکتی۔
- شریعت کورٹ میں سپریم کورٹ جج لگایا جاسکے گا۔
اگر سینیٹرز کا مسودے کے نکات پر امتحان لوں تو 99 فیصد فیل ہوجائیں، بیرسٹر علی ظفر
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر علی ظفر نے دعویٰ کیا ہے کہ ارکان سینیٹ نے آئینی ترمیم کا مسودہ پڑھا ہی نہیں اور اگر سینیٹرز کا مسودے کے نکات پر امتحان لوں تو 99 فیصد فیل ہوجائیں گے۔
ایوان بالا کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی پارلیمانی لیڈر علی ظفر کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیمی بل نے منظور ہو جانا ہے لیکن ہم اس عمل کا حصہ اس لئے نہیں بن رہے کیوںکہ بانی پی ٹی آئی سے مشاورت نہیں کرنے دی گئی۔
سینیٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ آئین میں ترمیم عوام کے مفاد کیلئے ہوتی ہے، ایوان میں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اس بل کو پڑھا تک نہیں ہے، اس طرح بل پاس ہوا تو یہ جمہوریت پر دھبہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ افواہ ہے کہ ہمارے کچھ ساتھی ایوان میں پیش کیے جائیں گے ، وہ زبردستی یا کسی اور وجوہات کے باعث ووٹ دیں گے ، لوگوں سے زبردستی لوٹا بنا کر اور ظلم کرکے ووٹ لینا درست نہیں ، آپ پراعتماد ہیں کہ آج آئینی ترمیم بل منظور کرالیں شائد کرا بھی لیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہماری پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ ہے کہ ہم آئینی ترمیمی بل کی حمایت نہیں کریں گے ، اگر پی ٹی آئی کا کوئی رکن آئینی ترمیم کے لیے ووٹ ڈالتا ہے تو اسے شمار نہ کیا جائے ، ہم نے پارلیمانی کمیٹی میں شرکت کی لیکن مسودہ میں ایک بھی ترمیم تجویز نہیں کی ۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے ابتدائی مسودہ میں 80 سے زائد ترامیم تھیں ، ان ترامیم کا مقصد بہت خطرناک تھا ، فیئر ٹرائل سمیت بنیادی حقوق کو ختم کرنا تھا ، آئین کے آرٹیکل 8 میں ترمیم کی جارہی تھی ، کسی کو اٹھائے پر کسی عدالت میں نہیں جا سکتے تھے ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے کچھ ساتھی اس خوف سے اجلاس میں نہیں آئے کہ انہیں اٹھا لیا جائے گا ۔
ہمیں لاہوری گروپ کی نہیں، فائز عیسیٰ جیسے ججز کی ضرورت ہے، ایمل ولی
عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی ) کے سینیٹر ایمل ولی خان کا کہنا ہے کہ ہمیں لاہوری گروپ کی نہیں بلکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسے ججز کی ضرورت ہے۔
ایوان بالا کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو چیف جسٹس فائز عیسیٰ جیسے ججز کی ضرورت ہے، ہمیں لاہوری گروپ کی ضرورت نہیں، حکومت عوام کی نمائندہ ہے اور اس کا کام نظام کو سیدھا کرنا ہے۔
سینیٹر ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس کھوسہ جیسے ججز کا راستہ رک گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) والے اپنے منتخب چیئرمین کو نہیں مانتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فوجی اور سرکاری تنصیبات پر حملہ کرنے والے کیخلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہئے، یہ نکات بھی لائیں میں اس کی حمایت کروںگا، کسی ذاتی تنصیبات پر بھی حملے کا کسی کو حق نہیں۔
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد کیا ہوگا؟
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد کیا ہوگا؟
26ویں آئینی ترمیم کی دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد صدر توثیق کریں گے،صدر مملکت کی توثیق کے فوری بعد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کرے گاگزٹ نوٹیفیکیشن کے ساتھ ہی 26 آئینی ترمیمی بل آئین کا حصہ بن جائے گاایکٹ بننے کے بعد چیف جسٹس کی تعیناتی کیلئے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے گی۔
اسپیکر قومی اسمبلی سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں سے ارکان کے نام لیں گے،پارلیمانی کیمیٹی کیلئے قومی اسمبلی سے 8اور 4 ارکان سینیٹ سے لئے جائیں گے،پارلیمانی کمیٹی وزارت قانون سے سینئر ترین ججز کے لئے 3 رکنی پینل طلب کرے گی،پارلیمانی کمیٹی 3 سینئر ججز میں سے ایک کا نام چیف جسٹس کیلئے نامزد کرے گی۔
پارلیمانی کمیٹی کا تجویز کردہ نام وزیراعظم منظوری کے لئے صدر کو بھجوائیں گے۔
سینیٹ نے 26 واں آئینی ترمیمی بل دوتہائی اکثریت سے منظور کرلیا
ایوان بالا میں 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی۔
سینیٹ میں آئینی ترامیم کے حق میں حکومت کے 58، جمعیت علمائے اسلام کے 5 اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے 2 ووٹ آئے۔
چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کی صدارت ایوان بالا کا اجلاس ہوا جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے 26 ویں آئینی ترمیمی بل پیش کیا گیا۔
26 ویں آئینی ترمیمی بل ضمنی ایجنڈے کے طور پر سینیٹ میں لایا گیا۔
اجلاس تاخیر سے شروع ہونے کے بعد سینیٹر اسحاق ڈار نے وقفہ سوالات معطل کرنے کی تحریک پیش کی جسے اکثریتی رائے سے منظور کر لیا گیا۔
بعدازاں مختلف جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز نے اظہار خیال کیا جس کے بعد وزیرقانون نے آئینی ترامیم پر ووٹنگ کیلئے تحریک پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
حکومت کی دو تہائی اکثریت ثابت
آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کیلئے سینیٹ کے ایوان کے دروازے بند کردیے گئے۔
ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبیلو ایم کے ارکان ایوان سے چلے گئے۔
آئینی ترمیمی بل کی شق 1 اور 2 ایوان سے 65 ووٹوں کے ساتھ منظور ہوئی جبکہ اپوزیشن کے 4 ارکان نے ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دیا جس کے بعد حکومت کی دو تہائی اکثریت ثابت ہوگئی۔
شق نمبر 3، 4، 5 اتفاق رائے سے منظور ہوئیں۔
آئینی ترمیمی بل کی شق نمبر 6 کی حمایت میں 65 ووٹ آئے جبکہ مخالفت میں کسی نے ووٹ نہ دیا جس کے بعد شق 6 اتفاق رائے سے منظور ہوئی۔
بل کی شق 7 اور 8 کی حمایت میں بھی 65 ووٹ آئے جبکہ مخالفت میں کسی نے ووٹ نہ دیا جس کے بعد شق 7 اور 8 اتفاق رائے سے منظور ہوگئی۔
آئینی ترمیمی بل کی شق 9 ، 10، 11، 12 اور 13 بھی ایوان سے منظور ہوئی اور پانچوں شقوں کی حمایت میں 65 ووٹ آئے جبکہ مخالفت میں کسی نے ووٹ نہ دیا۔
شق 15 ، شق 16 ، شق 17 بھی اتفاق رائے سے منظور ہوئیں اور مخالفت میں کوئی ووٹ نہ آیا۔
شق 18 اور 19 کی مخالفت میں بھی کوئی ووٹ سامنے نہ آیا جس کے بعد 65 ارکان کی حمایت سے متفقہ طور پر منظور کرلی گئیں۔
تمام 22 شقوں کی مرحلہ وار منظوری کے بعد ترمیم کی مجموعی منظوری ہاؤس میں ڈویژن کے عمل سے ہوئی اور چیئرمین سینیٹ نے لابیز لاک کرنے اور بیل بجانے کا حکم دیا۔
اس کے بعد ارکان لابیز میں چلے گئے اور گنتی کی گئی جس کا اعلان چیئرمین سینیٹ نے کیا۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھاکہ سینیٹ نے 26 ویں آئینی ترامیم منظور کرلیں اور ترامیم کے حق میں 65 ووٹ آئے۔
بعد ازاں ، سینیٹ کا اجلاس منگل 22 اکتوبر کی شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
26 ویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کیلئے قومی اسمبلی میں ووٹنگ شروع
اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے جس میں ووٹنگ کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
سردار ایاز صادق کی زیر صدارت تاخیر سے شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے ایوان کی معمول کی کارروائی معطل کرنے کی تحریک پیش کی جسے ایوان کی جانب سے منظور کرلیا گیا۔
تحریک منظور ہونے کے بعد 20 اور 21 اکتوبر کو معمول کی کارروائی معطل کردی گئی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیمی بل متعارف کرانے کی تحریک ایوان میں پیش کی۔
وزیر قانون کا خطاب
اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیمی بل کے خدو خال بیان کئے اور بتایا کہ آج ایک تاریخ سازدن ہے، 18 ویں ترمیم میں ججز تقرری کےعمل میں بنیادی تبدیلی کی گئی تھی، 19 ویں ترمیم بازو دبا کر اس ایوان سےمنظور کرائی گئی، ہماری عدلیہ کا رینکنگ میں جو نمبر ہے وہ بتانے کے لائق نہیں، میثاق جمہوریت میں سب سے اہم ایجنڈا آئینی عدالت کا تھا، میثاق جمہوریت پر بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کیے، میثاق جمہوریت کے بہت سے نکات پر عملدرآمد ہوگیا۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ آج 26 ویں آئینی ترمیم سینیٹ نے 2 تہائی اکثریت سے منظور کی، چیف جسٹس کی مدت 3 سال مقرر کی گئی، 6 اور 7 سال والے چیف جسٹس آئے تو سب نے دیکھا کیا ہوا، مانگنے کچھ جاتے ہیں ، دے کر کچھ بھیج دیا جاتا ہے ، یہ کئی بار ہوچکا، اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کیلئے سب کی مشاورت سے فیصلہ کریں گے، ہائیکورٹس کیلئے بھی آئینی بینچز متعارف کرائے گئے ہیں۔
اعظم نذیرتارڑ کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے مسودے پر اتفاق رائے کیلئے کردار ادا کیا، آئینی ترمیم کیلئے بلاول بھٹو نے بھی بہت محنت کی، جوڈیشل کمیشن کی سربراہی چیف جسٹس کریں گے، سپریم کورٹ کے 3سینئر ترین ججز جوڈیشل کمیشن میں شامل ہوں گے، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے بھی جوڈیشل کمیشن میں شامل ہوں گے۔
وزیر قانون کے خطاب کے بعد اجلاس کچھ دیر کے لئے ملتوی کیا اور بعد ازاں دوبارہ شروع کیا ۔
اجلاس دوبارہ شروع ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، وزیر دفاع خواجہ آصف ، مولانا فضل الرحمان ، فاروق ستار اور بیرسٹر گوہر نے خطاب کیا۔
اراکین کے خطاب کے بعد اسپیکر کی جانب سے وزی رقانون کو تحریک پیش کرنےکی ہدایت کی گئی جس پر انہوں نے تحریک پیش کی۔
اراکین اپنی نشستوں پر کھڑے ہوئے اور گنتی کا عمل شروع کیا گیا۔
دو تہائی اکثریت
ترمیم پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 225 ارکان نے ووٹ دیے جبکہ 12 ارکان اسمبلی نے ترمیم پیش کرنے کی مخالفت کی جس کے بعد حکومت سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی دوتہائی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
کس کس سینیٹرز نے 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیئے
سینیٹ سے منطور ہونے والی26 ویں آئینی ترمیم میں کس کس سینیٹرز نے ووٹ دیئے۔
چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کی صدارت ایوان بالا کا اجلاس ہوا جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے 26 ویں آئینی ترمیمی بل پیش کیا گیا 26 ویں آئینی ترمیمی بل ضمنی ایجنڈے کے طور پر سینیٹ میں لایا گیا
سینیٹ میں26ویں آئینی ترامیم کے حق میں حکومتی ارکان مین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کے علاوہ 23 سینیٹرز نے 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیئے ہیں، پاکستان مسلم لیگ ن(پی ایم ایل این) کے19 ارکان نے 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیئے ہیں۔
حکومتی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے 3 سینیٹرز، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے 2 ارکان اور پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کے ایک رکن نے اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے 3 سینیٹرز نے اور 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیئے ہیں۔
سینیٹ میں 4 آزاد ارکان نے حکومت کی ترمیم میں اپنا رائے حق دیا، ان چار ارکان میں سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، وزیر داخلہ محسن نقوی ،فیصل واوڈا اور عبدالقادر نے 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیئے ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 سینیٹر ز نے ووٹ دیئے جبکہ جمعیت علمائے اسلام(جے یو آئی) کے 5 سینیٹرز نے اور نیشنل پارٹی سینیٹر جان محمد نے بھی حکومتی 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 4سینیٹرز سینیٹ میں موجود تھے جس میں سینیٹر عون عباس بپی،سینیٹر علی ظفر، سینیٹر حامد خان اور سینیٹر علامہ ناصر عباس نقوی موجود تھے۔
سینیٹ کی ٹوٹل 96 ارکان کی تعداد میں سے آج سینیٹ میں 70 لوگ حاضر ہوئے، 2 سینیٹرز چھٹی پر تھے، 13 سینیٹر غیر حاضر رہے، خالی 11 سینیٹر ز ہیں۔
Today's appearance in the Senate by Farhan Malik on Scribd
قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے بھی 4 ارکان پہنچ گئے، زین قریشی لابی میں موجود
قومی اسمبلی کے ایوان میں اپوزیشن کے بھی 4 ارکان پہنچ گئے۔
26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے جس میں اپوزیشن کے بھی 4 ارکان پہنچ گئے ہیں۔
اپوزیشن ممبرز ایوان میں حکومتی بینچوں پر براجمان ہیں جن میں عثمان علی ، مبارک زیب، ظہور قریشی اور اورنگزیب کھچی شامل ہیں۔
مسلم لیگ ق کے رکن چوہدری الیاس بھی ایوان میں پہنچ گئے ہیں۔
اپوزیشن کے مزید 4 ارکان حکومتی لابی میں بھی موجود ہیں جو ایوان میں نہیں آئے۔
ارکان میں پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی، ریاض فتیانہ ، مقداد حسین اور اسلم گھمن شامل ہیں۔
پارلیمان ، آئین اور جمہوریت کیلئے کالا سانپ افتخار چوہدری والی عدالت ہے، بلاول بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ جے یو آئی کی رباع ، سود ، اسلامی نظریاتی کونسل سے متعلق تجویز مانی گئی، پارلیمان ، آئین اور جمہوریت کیلئے کالا سانپ سابق چیف جسٹس پاکستان افتخارچوہدری والی عدالت ہے۔
قومی اسمبلی سیشن میں خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہم نے ججز کو عادت لگوائی تھی کہ چیف تیرے جاں نثار بے شمار بےشمار، پاکستان کےعدالتی نظام کا دنیا میں مذاق بن گیا، عدلیہ وزیر خارجہ طے کر سکتی ہے ، ڈیم بنا سکتی ہے، پکوڑے اور ٹماٹر کی قیمت بھی عدلیہ طے کرے گی، یہ کام عدلیہ نے کرنے ہیں تو وزیراعظم، وزیرخارجہ اور وزیر خزانہ نے کیا کرنا ہے؟ کسی نہ کسی وقت ہم نے یہ دروازہ بند کرنا تھا ، وہ ہم بند کرنے جا رہے تھے۔
پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ جج جج کو لگائے اور جج جج کو ہٹائے، کہتے ہیں سیاستدان کون ہوتے ہیں ، ہم منتخب نمائندےہیں، یہ سمجھتے ہیں ہم نے ان کا اختیار چھینا یہ ہم سے اختیار چھین رہے ہیں، کسی نے ضیاالحق کو نہیں روکا کہ آپ کون ہوتے ہو جج لگانے والے، جج لگانے کا اختیار وزیراعظم سے چھین کر چیف جسٹس کو دیا گیا، خوف تھا خاتون وزیراعظم بینظیر بھٹو جج تعینات کرے گی تو نظام تباہ ہو جائے گا، جب ایک آمر جج لگا رہا تھا تو کیا کسی نے اس کا راستہ روکا؟۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے چیمپئن افتخار چوہدری نے کہا 18 ویں ترمیم باہر پھینک دوں گا، افتخارچوہدری کی دھمکی میں آکر 19 ویں ترمیم کی گئی، آئینی عدالت پر تنقید ہوئی تو اب ہم آئینی بینچ بنانے جا رہےہیں، آئینی عدالت ہو یا آئینی بینچ ، عوام کا کام ہونے جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قائداعظم نے گول میز کانفرنس میں آئینی عدالت کی تجویز دی، قائد اعظم کو ملک کو آئین دینے کا موقع نہیں ملا، قائداعظم نے آئینی عدالت کی سوچ رکھی، اےپی ڈی ایم میں بھی میثاق جمہوریت پیش ہوا تھا ، تمام ارکان نے حمایت کی۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ اپنا اختیار وزرائے اعظم کو فارغ کرنے پر استعمال کرتی ہے، مشرف کویونیفارم میں الیکشن لڑنےکی اجازت عدالت نےدی، ہم آمر کو بھگاتے ہیں تو عدلیہ کو آئین اور جمہوریت یاد آتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن کے دوست کالے سانپ کی بات کر رہے ہیں، پارلیمان ، آئین اور جمہوریت کیلئے کالا سانپ سابق چیف جسٹس پاکستان افتخارچوہدری والی عدالت ہے، اس آئین میں کچھ ترامیم سو فی صد اتفاق رائے سے منظور کی گئی ہیں، پی ٹی آئی سے کہوں گا کہ کم از کم مولانا فضل الرحمان کی ترامیم کو متفقہ طور پر منظور کریں۔
26 ویں آئینی ترمیم آزاد عدلیہ کا گلا گھوٹنے کا عمل ہے، عمر ایوب
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم آزاد عدلیہ کا گلا گھوٹنے کا عمل ہے۔
</p>
قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کا مسودہ اسٹینڈنگ کمیٹی لا اینڈ جسٹس میں جانا چاہیے تھا، آئینی ترمیم 31 اکتوبر کو پاس کیوں نہیں کرائی جاسکتی تھی؟۔
اپوزیشن لیڈر نے سوال اٹھائے کہ ترمیم بعد میں منظور ہوتی تو کیا ملک بند ہوجاتا؟، آئینی ترامیم منظورکرانے کی اتنی جلدی کیا ہے؟، وزیرقانون کو بھی پتہ نہیں ہوتا تھا کہ مسودہ کہاں ہے، مسودہ وزیر قانون نے بنانا تھا کیا کسی مستری نے بھیجنا تھا؟۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ان کےعزائم تھے کہ عدلیہ کو ختم کیا جائے۔
’’ جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں جینا ہوگا ‘‘، نواز شریف نے عدلیہ کے د کھ میں شعر سنادیا
مسلم لیگ ( ن ) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں عدلیہ کے دکھ میں شعر سنادیا۔
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی شرکت کی۔
نواز شریف اجلاس میں شرکت کے لئے لاہور سے خصوصی طور پر اسلام آباد پہنچے جہاں وزیر اعظم شہباز شریف نے ان کا استقبال کیا۔
اسمبلی سیشن کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف کا خطاب ختم ہونے پر سابق وزیر اعظم اپنی نشست سے اٹھے اور سپیکر سے مکالمہ کیا۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ خواجہ آصف اپنے خطاب کے آخر پر ایک شعر پڑھیں جو میں نے پرچی پر تحریر کیا تھا تاہم، وہ نہ پڑھ سکیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ میں پڑھ دوں۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے کردار پر شعر کسی نے لکھا ہے کہ
’’ نازو انداز سے کہتے ہیں کہ جینا ہوگا
زہر بھی دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہوگا
جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرنا نہیں
اور جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں جینا ہوگا ‘‘۔
نواز شریف کے شعر سنانے پر ایوان میں موجود حکومتی اراکین کی جانب سے ڈیسک بجا کر جذبات کا اظہار کیا گیا۔
مولانا فضل الرحمان نے تصیح کی
سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے مسکراتے ہوئے نواز شریف کی جانب سے پیش کیے گئے شعر میں غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بروقت شعر سنایا لیکن وزن سے متعلق احتیاط کرنی چاہیے۔
مولانا فضل الرحمان نے شعر میں غلطی کی نشاندہی اور درستگی کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے مصرع میں ’زہر بھی دیتے ہیں تو پینا ہوگا‘ نہیں ہوگا بلکہ درست اس طرح ہے کہ’ زہر دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہوگا‘۔
آئینی ترامیم پر صدر مملکت آصف علی زرداری آج دستخط کریں گے
پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد 26 ویں آئینی ترامیم پر صدر مملکت آصف علی زرداری آج دستخط کریں گے۔
26 ویں آئینی ترمیم پر دستخط کیلئے ایوان صدر میں تقریب منعقد ہوگی، تقریب میں پارلیمنٹرینز بھی شریک ہوں گے، تقریب کے وقت کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
آئینی ترمیم پر صدر مملکت آصف علی زرداری کے دستخط کی تقریب صبح ساڑھے 6 بجے منعقد ہونی تھی تاہم اب اسے ملتوی کردیا گیا ہے۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی نے 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی
سینیٹ اور قومی اسمبلی نے26 واں آئینی ترمیمی بل دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا، وفاقی حکومت ایوان بالا میں 65 جبکہ قومی اسمبلی میں 225 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی جبکہ مخالفت میں 12 ووٹ آئے اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے اراکین نے بعد میں ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس
اتوار کی رات گئے سپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت تاخیر سے شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے ایوان کی معمول کی کارروائی معطل کرنے کی تحریک پیش کی جسے ایوان کی جانب سے منظور کرلیا گیا۔
تحریک منظور ہونے کے بعد 20 اور 21 اکتوبر کو معمول کی کارروائی معطل کردی گئی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیمی بل متعارف کرانے کی تحریک ایوان میں پیش کی اور ترامیمی بل کے خدوخال بیان کئے۔
اراکین کے خطاب کے بعد اسپیکر کی جانب سے وزی رقانون کو تحریک پیش کرنےکی ہدایت کی گئی جس پر انہوں نے تحریک پیش کی۔
اراکین اپنی نشستوں پر کھڑے ہوئے اور گنتی کا عمل شروع کیا گیا۔
اپوزیشن کے 4 ارکان
قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے بھی 4 ارکان پہنچے۔
اپوزیشن ممبرز ایوان میں حکومتی بینچوں پر براجمان تھے جن میں عثمان علی ، مبارک زیب، ظہور قریشی اور اورنگزیب کھچی شامل تھے۔
مسلم لیگ ق کے رکن چوہدری الیاس بھی ایوان میں پہنچے۔
اپوزیشن کے مزید 4 ارکان حکومتی لابی میں بھی موجود رہے جو ایوان میں نہیں آئے۔
ارکان میں پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی، ریاض فتیانہ ، مقداد حسین اور اسلم گھمن شامل تھے۔
دو تہائی اکثریت
ترمیم پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 225 ارکان نے ووٹ دیے جبکہ 12 ارکان اسمبلی نے ترمیم پیش کرنے کی مخالفت کی جس کے بعد حکومت سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی دوتہائی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
شق وار منظوری
آئینی ترمیمی بل کی شق وار منظوری لی گئی اور 225 اراکین کی جانب سے تمام 27 شقوں کی حمایت میں ووٹ دیا گیا جبکہ شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی اور اتحادی جماعت کا کوئی رکن اسمبلی ہال میں موجود نہیں تھا۔
شق وار منظوری کے بعد وزیر قانون نے ترمیم باضابطہ منظوری کیلئے پیش کی جس کے بعد ڈویژن کے ذریعے آئینی ترمیم کی منظوری لی گئی۔
شق وار منظوری کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلئےڈویژن کےذریعے ووٹنگ کی گئی، نوازشریف نےڈویژن کے ذریعے ووٹنگ کے عمل میں سب سے پہلے ووٹ دیا۔
بعدازاں، سپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس منگل کی شام 5 بجے تک ملتوی کردیا۔
سینیٹ اجلاس
اس سے قبل ایوان بالا میں 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کی گئی۔
سینیٹ میں آئینی ترامیم کے حق میں حکومت کے 58، جمعیت علمائے اسلام کے 5 اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے 2 ووٹ آئے۔
چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کی صدارت ہونے والے ایوان بالا کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے 26 ویں آئینی ترمیمی بل پیش کیا گیا۔
26 ویں آئینی ترمیمی بل ضمنی ایجنڈے کے طور پر سینیٹ میں لایا گیا۔
اجلاس تاخیر سے شروع ہونے کے بعد سینیٹر اسحاق ڈار نے وقفہ سوالات معطل کرنے کی تحریک پیش کی جسے اکثریتی رائے سے منظور کر لیا گیا۔
بعدازاں مختلف جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز نے اظہار خیال کیا جس کے بعد وزیرقانون نے آئینی ترامیم پر ووٹنگ کیلئے تحریک پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبیلو ایم کے ارکان ایوان سے چلے گئے۔
تمام 22 شقوں کی مرحلہ وار منظوری کے بعد ترمیم کی مجموعی منظوری ہاؤس میں ڈویژن کے عمل سے ہوئی اور چیئرمین سینیٹ نے لابیز لاک کرنے اور بیل بجانے کا حکم دیا۔
اس کے بعد ارکان لابیز میں چلے گئے اور گنتی کی گئی جس کا اعلان چیئرمین سینیٹ نے کیا۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھاکہ سینیٹ نے 26 ویں آئینی ترامیم منظور کرلیں اور ترامیم کے حق میں 65 ووٹ آئے۔
بعد ازاں ، سینیٹ کا اجلاس منگل 22 اکتوبر کی شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
آئینی ترمیم کے اہم نکات
26 ویں آئینی ترمیم کے متعلق سینیٹ میں پیش کئے گئے مسودے کے نکات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری 12رکنی پارلیمانی کمیٹی کرےگی، کمیٹی میں قومی اسمبلی کے 8 ،سینیٹ کے 4 ارکان شامل ہوں گے، تمام جماعتوں کو پارلیمنٹ میں ان کی تعداد کے تناسب سے کمیٹی میں نمائندگی ملے گی قومی اسمبلی تحلیل ہو تو سینیٹ کے 4 ارکان تقرری کے مجاز ہوں گے، کمیٹی سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ترین ججز میں سے کسی ایک کو کثرت رائے سے چیف جسٹس مقرر کرے گی۔
Drafting of the 26th Constitutional Amendment by Farhan Malik on Scribd
چیف جسٹس کی تقرری قبول نہ کرنے پر ان کے بعد کے سینئر جج کا نام زیر غور لایا جائے گا، کمیٹی کا اجلاس بند کمرے میں ہوگا، اس کی کارروائی ریکارڈ کی جائے گی، کمیٹی اور جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا، آرٹیکل 179 میں ترمیم، چیف جسٹس کی مدت زیادہ سے زیادہ 3 سال ہوگی، 3سال گزرنے پر چیف جسٹس کی عمر 65 برس سے کم بھی ہوگی تو ریٹائرڈ کر دیا جائے گا۔
نیا آرٹیکل 191 اے میں سپریم کورٹ میں“آئینی بینچ”کا قیام، ججز کی تعداد جوڈیشیل کمیشن مقرر کرے گا، آئینی بینچ کے ججز میں ممکنہ حدتک تمام صوبوں کو برابر کی نمائندگی دی جائے گی، آئینی بینچ کے علاوہ سپریم کورٹ کا کوئی جج اوریجنل جوریسڈکشن، سوموٹو مقدمات، آئینی اپیلیں یا صدارتی ریفرنس کی سماعت کا مجاز نہیں ہوگا سوموٹو، اوریجنل جوریسڈکشن درخواستوں اور صدارتی ریفرنسز کی سماعت اور فیصلہ“آئینی بینچ” کا 5 رکنی بینچ کرے گا۔
آئینی اپیلوں کی سماعت اور فیصلہ بھی 5 رکنی آئینی بینچ کرے گا، آئینی بینچ کے 3 سینئر ترین جج سماعت کا بینچ تشکیل دیں گے، سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کے دائرہ اختیارمیں آنے والی “زیرالتوا” کیسز اور نظرثانی درخواستیں آئینی بینچ کو منتقل ہوجائیں گی، ہائیکورٹ کو سوموٹو نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہوگا، آرٹیکل 175 اے، جوڈیشل کمیشن کے موجودہ ارکان برقرار، 4 ارکان پارلیمنٹ شامل کئے جائیں گے۔
سینیٹ کارکن منتخب ہونے کی مجاز خاتون یا اقلیتی شہری بھی رکن ہوگا، تقرری اسپیکر دو سال کیلئے کرے گا، کمیشن کے ایک تہائی ارکان چیئر پرسن کو تحریری طور پر اجلاس بلانے کی استدعا کر سکتے ہیں، چیئر پرسن 15روز میں اجلاس بلانے کاپابند ہوگا، نہ بلانے پر سیکرٹری کو 7 روز میں اجلاس بلانے کا اختیار ہوگا، نیا آرٹیکل 9 اے متعارف، صحت مندانہ پائیدار ماحول بنیادی حق قرار جائے گا،آرٹیکل 48 میں سے وزیر اور وزیر مملکت کے الفاظ حذف کئے جائیں۔
صرف کابینہ یا وزیراعظم کی صدر کو بھجوائی گئی سمری کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکےگا، آرٹیکل 81 میں ترمیم، سپریم جوڈیشیل کونسل اور انتخابات کیلئے فنڈز لازمی اخراجات میں شامل ہوں گے آرٹیکل 111 میں ترمیم، صوبائی مشیروں کو بھی اسمبلی میں خطاب کا حق دیا جائے گا، 184(3) کے تحت سو موٹو یا ابتدائی سماعت کے مقدمات میں سپریم کورٹ صرف درخواست میں کی گئی استدعا کی حد تک فیصلہ جاری کر سکے گی۔
سپریم کورٹ اب 50ہزار کے بجائے 10 لاکھ روپے تک کی اپیلیں براہ راست سماعت کی مجاز ہوگی، آرٹیکل 186 اے میں ترمیم سپریم کورٹ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے زیر سماعت مقدمہ اپیل یا دیگر کارروائی کسی اور ہائیکورٹ کو منتقل کرنے کے علاوہ خود کو بھی منتقل کرنے کی بھی مجاز ہو گی ،آرٹیکل 187کے تحت مکمل انصاف کے لئے کوئی بھی حکم جاری کرنے کا اختیار محدود کرنے کی تجویز حکم صرف اپنے آئینی دائرہ اختیار کے اندر ہی جاری کیا جا سکے گا۔
آرٹیکل 209 میں ترمیم چیف جسٹس آف پاکستان کیخلاف ریفرنس ہو تو ان سے نیچے کا سینئر ترین جج سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ بنایا جا سکے گا،ججز کو ہٹانے کی وجوہات میں ناقص کارکردگی کو بھی شامل کر دیا گیا، اس کے لئے ججز کی کارکردگی پر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کو بنیاد بنایا جائےگا سپریم جوڈیشل کونسل کا اپنا سیکریٹریٹ قائم کرنے اور ایک سیکریٹری کی سربراہی میں اسٹاف کے تقرر کی تجویز، ہر کام کونسل کے وائد کی روشنی میں عمل میں آئے گا۔
چیف الیکشن کمشنر اور ارکانِ الیکشن کمیشن مدت مکمل ہونے کے باوجود نئے کمشنر یا ارکان کی تقرری تک کام کرتے رہیں گے، کوئی آئینی عہدیدار کسی دوسرے آئینی عہدیدار سے حلف لینے سے انکار کرے تو چیف جسٹس آف پاکستان یا چیف جسٹس ہائیکورٹ حلف لینے کیلئے کسی کو نامزد کر سکتے ہیں ،وفاقی شرعی عدالت کاجج بھی شریعت کورٹ کاچیف جسٹس بن سکے گا، وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ اپیل کی صورت میں صرف ایک سال معطل رہ سکے گا شریعت ایپلٹ بینچ کے فیصلہ نہ کر سکنے کی صورت میں ایک سال بعد شرعی عدالت کا فیصلہ بحال ہو جائے۔
وزیر اعظم نے 26 ویں آئینی ترمیم کے منظور کردہ بل پر دستخط کر دیئے
وزیر اعظم شہباز شریف نے 26 ویں آئینی ترمیم کے منظور کردہ بل پر دستخط کر دیئے۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی نے26 واں آئینی ترمیمی بل دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا تھا، وفاقی حکومت ایوان بالا میں 65 جبکہ قومی اسمبلی میں 225 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی جبکہ مخالفت میں 12 ووٹ آئے اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے اراکین نے بعد میں ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد اسمبلی سیکریٹریٹ نے سمری وزیراعظم ہاﺅس بھجوائی۔
سمری وزارت پارلیمانی امور کے ذریعے وزیراعظم ہاﺅس بھیجی گئی اور وزیر اعظم بھی پارلیمنٹ اجلاس میں شرکت کے بعد وزیر اعظم ہاؤس پہنچے۔
سمری وزیر اعظم آفس پہنچنے کے بعد شہباز شریف کی جانب سے اس پر دستخط کر دیئے گئے۔
اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ بھی وزیر اعظم آفس میں موجود تھے۔
وزیر اعظم کے دستخط کے بعد سمری کو ایوان صدر بھیج دیا گیا۔
ایوان صدر میں ہونے والی تقریب کا وقت ایک بار پھر تبدیل،حتمی وقت ابھی نہیں دیا گیا
ایوان صدر میں 26 ویں آئینی ترمیم پر دستخط کی تقریب ملتوی کردی گئی، تقریب آج دن میں ہوگی۔
آئینی ترمیم پر دستخط کی تقریب صبح ساڑھے 6 بجے رکھی گئی تھی تاہم تاخیر کی وجہ سے تقریب اب دن میں کسی بھی وقت منعقد کی جائے گی۔
آئینی ترمیم پر دستخط کی تقریب میں پارلیمنٹرینز بھی شریک ہوں گے۔
واضح رہے کہ سینیٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی نے بھی ترمیم کی شق وار منظوری دی تھی۔
"جمہوریت زندہ باد، پارلیمان پائندہ باد "،وزیراعلی پنجاب مریم نواز
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے26 ویں آئینی ترمیم پاس ہونے پر قوم کو مبارکباد پیش کی ہے۔
وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے اپنےپیغام میں کہا "26 ویں آئینی ترمیم عوام کی آواز بلند ہونےکا واضح پیغام ہے،پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے26 ویں آئینی ترمیم ناگزیر تھی،26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سےپارلیمنٹ کو وقار واپس ملا ہے،ترمیم سےبروقت انصاف ہوگااورہوتانظربھی آئیگا۔
وزیراعلی نےمزیدکہا 26 ویں ترمیم پاکستان کودنیاکی مثالی جمہوریت کی صف میں کھڑاکریگی،آئینی ترمیم سےعدالتی نظام میں مثبت اصلاحات کاباب کھل گیا،سودکےخاتمےکی شق کاخیرمقدم کرتی ہوں، عدلیہ کوخودمختاراورمزید مستحکم کیاگیا ہے،انصاف تک عوامی رسائی کو یقینی بنایا گیا۔
اب ہر روز یہ سوال اٹھے گا کہ کیس عام بینچ سنے گا یا آئینی بینچ؟ جسٹس منصور علی شاہ
مسابقتی کمیشن سے متعلق کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس اب آئینی بنیچ میں جائے گا یا ہم بھی سن سکتے ہیں؟ لگتا ہے یہ سوال اب ہر روز اٹھے گا کہ کیس عام بینچ سنے گا یا آئینی بینچ؟۔
تفصیلات کے مطابق مسابقتی کمیشن سے متعلق کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل درخواسگزار سے استفسار کیا کہ یہ کیس اب آئینی بنیچ میں جائے گا یا ہم بھی سن سکتے ہیں؟ وکیل بیرسٹرفروع نسیم نے جواب دیا کہ سیاسی کیسز اب آئینی کیسز بن چکے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ چلیں اب آپ جانیں اور آپ کے آئینی بنچ جانیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ نئی ترمیم پڑھ لیں، آرٹیکل 199 والا کیس یہاں نہیں سن سکتے، جسٹس منصور کے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہمیں خود سمجھنے میں ذرا وقت لگے گا۔
دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کیس میں جسٹس منصور کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے دلچسپ مکالمہ ہوا ہے، جسٹس منصور کا استفسار کیا کہ کیا موسمیاتی تبدیلی کےچیئرمین کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل جواب دیا کہ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا،اٹارنی جنرل رات بھر مصروف رہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اب تو ساری مصروفیت ختم ہو چکی ہوگی، 3 ہفتے تک صورتحال واضح ہوجائے گی۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 2 ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔
صدرمملکت نے 26 ویں آئینی ترمیم کی توثیق کردی، گزٹ نوٹیفکیشن جاری
صدر مملکت آصف علی زرداری نے وزیر اعظم شہباز شریف کے سفارش پر 26 ویں آئینی ترمیم کی توثیق کردی۔
تفصیلات کے مطابق صدرمملکت نے 26 ویں آئینی ترمیم کی توثیق کردی، آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم باضابطہ آئین کا حصہ بن گیا۔
خیال رہے کہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کی حتمی منظوری کےلیے وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے 26 ویں آئینی ترمیم کی توثیق کیلئے دستخط کرنے کے بعد اپنی ایڈوائس صدر پاکستان آصف علی زرداری کو بھجوائی تھی۔
آئینی ترمیم کے نکات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری 12رکنی پارلیمانی کمیٹی کرےگی، کمیٹی میں قومی اسمبلی کے 8 ،سینیٹ کے 4 ارکان شامل ہوں گے، تمام جماعتوں کو پارلیمنٹ میں ان کی تعداد کے تناسب سے کمیٹی میں نمائندگی ملے گی قومی اسمبلی تحلیل ہو تو سینیٹ کے 4 ارکان تقرری کے مجاز ہوں گے، کمیٹی سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ترین ججز میں سے کسی ایک کو کثرت رائے سے چیف جسٹس مقرر کرے گی۔
چیف جسٹس کی تقرری قبول نہ کرنے پر ان کے بعد کے سینئر جج کا نام زیر غور لایا جائے گا، کمیٹی کا اجلاس بند کمرے میں ہوگا، اس کی کارروائی ریکارڈ کی جائے گی، کمیٹی اور جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا، آرٹیکل 179 میں ترمیم، چیف جسٹس کی مدت زیادہ سے زیادہ 3 سال ہوگی، 3سال گزرنے پر چیف جسٹس کی عمر 65 برس سے کم بھی ہوگی تو ریٹائرڈ کر دیا جائے گا۔
نیا آرٹیکل 191 اے میں سپریم کورٹ میں“آئینی بینچ”کا قیام، ججز کی تعداد جوڈیشیل کمیشن مقرر کرے گا، آئینی بینچ کے ججز میں ممکنہ حدتک تمام صوبوں کو برابر کی نمائندگی دی جائے گی، آئینی بینچ کے علاوہ سپریم کورٹ کا کوئی جج اوریجنل جوریسڈکشن، سوموٹو مقدمات، آئینی اپیلیں یا صدارتی ریفرنس کی سماعت کا مجاز نہیں ہوگا سوموٹو، اوریجنل جوریسڈکشن درخواستوں اور صدارتی ریفرنسز کی سماعت اور فیصلہ“آئینی بینچ” کا 5 رکنی بینچ کرے گا۔
آئینی اپیلوں کی سماعت اور فیصلہ بھی 5 رکنی آئینی بینچ کرے گا، آئینی بینچ کے 3 سینئر ترین جج سماعت کا بینچ تشکیل دیں گے، سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کے دائرہ اختیارمیں آنے والی “زیرالتوا” کیسز اور نظرثانی درخواستیں آئینی بینچ کو منتقل ہوجائیں گی، ہائیکورٹ کو سوموٹو نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہوگا، آرٹیکل 175 اے، جوڈیشل کمیشن کے موجودہ ارکان برقرار، 4 ارکان پارلیمنٹ شامل کئے جائیں گے۔
سینیٹ کارکن منتخب ہونے کی مجاز خاتون یا اقلیتی شہری بھی رکن ہوگا، تقرری اسپیکر دو سال کیلئے کرے گا، کمیشن کے ایک تہائی ارکان چیئر پرسن کو تحریری طور پر اجلاس بلانے کی استدعا کر سکتے ہیں، چیئر پرسن 15روز میں اجلاس بلانے کاپابند ہوگا، نہ بلانے پر سیکرٹری کو 7 روز میں اجلاس بلانے کا اختیار ہوگا، نیا آرٹیکل 9 اے متعارف، صحت مندانہ پائیدار ماحول بنیادی حق قرار جائے گا،آرٹیکل 48 میں سے وزیر اور وزیر مملکت کے الفاظ حذف کئے جائیں۔
چیف جسٹس کی تعیناتی کیلئے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا عمل شروع
چیف جسٹس کی تعیناتی کیلئے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا عمل شروع کردیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے چیف جسٹس کی تعیناتی کیلئے پارلیمانی لیڈرز سے کمیٹی ارکان کے نام مانگ لئے۔
ذرائع کے مطابق پارلیمانی کمیٹی بنتے ہی وزارت قانون سے3 سینئر ترین ججز کا پینل طلب کیا جائے گا، کمیٹی ججز کے 3رکنی پینل میں سے نئے چیف جسٹس کا انتخاب کرے گی۔
واضح رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس کی تعیناتی کیلئے 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جانی ہے، کمیٹی کیلئے 8ارکان قومی اسمبلی اور 4ارکان سینیٹ سے لئے جانے ہیں۔ تمام جماعتوں کو پارلیمنٹ میں ان کی تعداد کے تناسب سے کمیٹی میں نمائندگی ملے گی قومی اسمبلی تحلیل ہو تو سینیٹ کے 4 ارکان تقرری کے مجاز ہوں گے، کمیٹی سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ترین ججز میں سے کسی ایک کو کثرت رائے سے چیف جسٹس مقرر کرے گی۔
چیف جسٹس کی تقرری قبول نہ کرنے پر ان کے بعد کے سینئر جج کا نام زیر غور لایا جائے گا، کمیٹی کا اجلاس بند کمرے میں ہوگا، اس کی کارروائی ریکارڈ کی جائے گی، کمیٹی اور جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا، آرٹیکل 179 میں ترمیم، چیف جسٹس کی مدت زیادہ سے زیادہ 3 سال ہوگی، 3سال گزرنے پر چیف جسٹس کی عمر 65 برس سے کم بھی ہوگی تو ریٹائرڈ کر دیا جائے گا۔
نئے چیف جسٹس کی تعیناتی، سپیکر اسمبلی کا چیئرمین سینیٹ کو خط
سپیکر قومی اسمبلی نے نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کیلئے پارلیمانی کمیٹی کو تشکیل دینے کیلئے چیئرمین سینیٹ کو خط لکھتے ہوئے اراکین کے نام مانگ لیئے ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق خط کے متن میں کہا گیاہے کہ میرا اعزاز ہےکہ آرٹیکل175Aکی طرف آپکی توجہ مبذول کروا رہا ہوں،آئین کےتحت خصوصی پارلیمانی کمیٹی 3 سینئر ترین ججز سے چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کریگی،آئین کے آرٹیکل 175A کی شق (3A) کےتحت کمیٹی چیف جسٹس کا تقررکرےگی، خصوصی پارلیمانی کمیٹی 12 ارکان پرمشتمل ہوگی،خصوصی پارلیمانی کمیٹی قومی اسمبلی کے8اورسینیٹ کے4ارکان پرمشتمل ہوگی
چیف جسٹس کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی میں 4سینیٹرز کی نامزدگی
چیف جسٹس کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی میں 4سینیٹرز کی نامزدگی کیلئے پارلیمانی لیڈروں کو خط لکھ دیا۔
چیف جسٹس کی تقرری کے لئے پارلیمانی کمیٹی میں سینیٹ سے جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کو نمائندگی ملے گی، چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے ایوان میں موجود چار بڑی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کو خط لکھ کر آج ہی نام مانگ لیئے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے خط میں لکھا کہ تمام پارلیمانی رہنماء آج ہی کمیٹی کے لیے ایک ایک سینیٹر کا نام تجویز کریں، چیئرمین سینیٹ نے پاکستان پیپلزپارٹی(پی پی پی)، پاکستان مسلم لیگ ن(پی ایم ایل این)، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی) کو خطوط لکھ دیئے ہیں۔
Chairman Senator Letter Parliamentary Leader by Farhan Malik on Scribd
چیف جسٹس کی تقرری کیلئے سینیٹ سے نمائندگی کیلئے پی ٹی آئی کا امیدوار کون ہوگا؟
چیف جسٹس کی تقرری کیلئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کیلئے سینیٹ سے نمائندگی کیلئے پی ٹی آئی کا امیدوار کون ہوگا؟
ذرائع کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) نےسینیٹرعلی ظفرکو12رکنی پارلیمانی کمیٹی کیلئےنامزد کرنےکافیصلہ کر لیا ہے، پی ٹی آئی کمیٹی کیلئے نام آج ہی چیئرمین سینیٹ کو بھجوائے گی،علی ظفرسینیٹ میں پی ٹی آئی کےپارلیمانی لیڈربھی ہیں۔
ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کمیٹی کےلیےقومی اسمبلی سےبھی2نام بھجوائےگی،تاہم ابھی تک ناموں کو زیر غور لایا جا رہا ہے حتمی نام سامنے نہیں آیا۔
واضح رہے کہ آج چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے تمام بڑی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈر کو خط لکھا اور تمام جماعتوں سے آج ہی کمیٹی کے رکن سے نام منگوائے ہیں۔
نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کیلئے وقت کم، پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی کوششیں تیز
حکومت کے پاس نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے لیے 30 گھنٹے سے بھی کم وقت باقی رہ گیاہے جس کیلئے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل آخری مراحل میں داخل ہو گئی ہے ۔
تفصیلات کے مطابق اتحادی حکومت کے پاس پاکستان کے نئے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے 30 گھنٹے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، کیونکہ حال ہی میں نافذ کی گئی 26ویں آئینی ترمیم کے مطابق نئے چیف جسٹس کی تقرری موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے تین دن قبل کی جانی ضروری ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر 2024 کو ریٹائر ہو رہے ہیں،اس لیئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 22 اکتوبر کی رات 12 بجے تک تین نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجنے کے پابند ہیں ۔
وقت کم ہونے کے باعث ناموں پر غور اور پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے، جو نئے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے نامزدگی کرے گی۔ اس کمیٹی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین شامل ہوں گے، اور کسی بھی فیصلے کے لیے دو تہائی اکثریت ضروری ہو گی۔
پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل
سینیٹ کے اراکین:
پی ٹی آئی: سینیٹر علی ظفر
جے یو آئی: کامران مرتضیٰ
ن لیگ: اعظم نذیر تارڑ
پیپلز پارٹی: فاروق ایچ نائیک
قومی اسمبلی کے اراکین:
ایم کیو ایم: رعنا انصار
پی ٹی آئی : بیرسٹر گوہر
سنی اتحاد کونسل: صاحبزاد حامد رضا
پیپلز پارٹی : راجہ پرویز اشرف ، نوید قمر
ن لیگ : خواجہ آصف ، احسن اقبال
26ویں آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس کا عہدہ اب تین سال کر دی گئی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال کر دی گئی ہے ۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی تجویز پر صدر آصف علی زرداری نے پیر کے روز 26 ویں آئینی ترمیم پر دستخط کر کے اسے قانون کا حصہ بنایا۔
اہم بات یہ ہے کہ اب چیف جسٹس کی تقرری کے لیے سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک پول تیار کیا جائے گا، جبکہ پہلے صرف سینیارٹی کو بنیاد بنایا جاتا تھا۔
موجودہ سینیارٹی لسٹ کے مطابق جسٹس سید منصور علی شاہ سب سے سینئر ہیں، ان کے بعد جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی بھی جج عہدہ قبول کرنے سے انکار کرتا ہے تو اگلا سینئر جج اس منصب کے لیے غور کیا جائے گا۔
چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے امیدوار:
جسٹس منصور علی شاہ: سب سے سینئر جج ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔
جسٹس منیب اختر: 2018 میں سپریم کورٹ میں شامل ہوئے اور قابل غور امیدوار ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی: وہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں اور 2018 میں سپریم کورٹ کا حصہ بنے۔
پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل تیزی سے متوقع ہے تاکہ نئے چیف جسٹس کی تقرری مقررہ وقت سے قبل ممکن ہو سکے۔
چیف جسٹس کی تقرری، پارلیمانی کمیٹی کے اراکین کے نام منظر عام پر
چھبیس ویں آئینی ترمیم کے تحت نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کیلئے 12رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل پر کام کا آغاز ہوگیا ہے۔
26ویں آئینی ترمیم کےتحت نئےچیف جسٹس کی تقرری کیلئے12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کیلئے قومی اسمبلی سے 8 اور سینیٹ سے4 ارکان شامل ہوں گے، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ نے پارلیمانی جماعتوں سے نام مانگے تھے،تمام جماعتوں نے نام تجویز بھی کر دیئے ہیں۔
سینیٹ سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کیلئے 4نام سامنے آگئے ن لیگ کی جانب سے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیرتارڑ ہوں گے اور پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سےفاروق ایچ نائیک کا نام تجویز کیا گیا ہے، پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی کیطرف بیرسٹر علی ظفر اور جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے کامران مرتضٰی شامل ہیں ۔
پارلیمانی کمیٹی کیلئے قومی اسمبلی ارکان میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کیجانب سے راجہ پرویز اشرف اور نوید قمر کو نامزد کردیا گیا ہے، پاکستان مسلم لیگ ن(پی ایم ایل این) کی طرف سےوفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال، وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور شائشتہ پرویز ملک کے نام تجویز کئے گئے ہیں۔
سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی)کی طرف سےصاحبزادہ حامد رضا اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سےچیئر میں پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان ہوں گے،متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم )سے پارلیمانی کمیٹی میں رعنا انصا نمائندگی کریں گے۔
قومی اسمبلی اجلاس کل شام 5 بجے دوبارہ ہوگا،قومی اسمبلی اجلاس میں3نئےبل پیش کیےجائیں گےآغارفیع اللہ پاکستان نرسنگ کونسل ترمیمی بل پیش کریں گےشفقت عباس اورایم کیوایم کیجانب سےبھی2آئینی ترمیمی بل پیش ہوں گےقومی اسمبلی اجلاس کےدوران مختلف قراردادیں بھی پیش کی جائیں گی،مختلف معاملات پربحث کی تحاریک،توجہ دلاؤنوٹس بھی ایجنڈےمیں شامل ہے۔
نئے چیف جسٹس کی تقرری کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل مکمل ، نوٹیفیکیشن جاری
نئے چیف جسٹس کی تقرری کیلئےپارلیمانی کمیٹی 12 ارکان پر مشتمل قائم ہوگئی ہے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری کئے گئے نوٹیفیکیشن کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این)پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی ) ، قومی متحدہ موومنٹ ( ایم کیو ایم) ،سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی )اور جمعیت علماء اسلام( جے یو آئی) کے ارکان12 پارلیمانی کمیٹی کے رکن ہوں گے۔
Notification of Member of Parliamentary Committee by Farhan Malik on Scribd
پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این) کی نمائندگی وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف،وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال، شائستہ پرویز ملک اور سینیٹر و وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑکریں گے، پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) سے سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف، فاروق ایچ نائیک اور سید نوید قمر کمیٹی کے رکن ہوں گے۔
سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) سے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر علی خان ، سینیٹربیرسٹر علی ظفر اور صاحبزادہ حامد رضا شامل ہوں گے، قومی متحدہ موومنٹ ( ایم کیو ایم)کی جانب سے رعنا انصار کو پارلیمانی کمیٹی کا رکن مقرر کیا گیا ہے، جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی ) کی طرف سے سینیٹر کامران مرتضی رکن ہوں گے۔
ذرائع کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کے مطابق نئے چیف جسٹس کی تقرری کیلئے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس کل شام 4 بجے ہو گا۔
پی ٹی آئی کا خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
پاکستان تحریک انصاف نے نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کےلیے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
اسلام آباد میں رات گئے پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کااجلاس ہوا۔ پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے آج پارلیمانی خصوصی کمیٹی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
پی ٹی آئی رہنماشیخ وقاص اکرم کے مطابق پی ٹی آئی کا کوئی بھی رکن خصوصی کمیٹی میں شرکت نہیں کرے گا۔ اجلاس میں پی ٹی آئی نے خصوصی پارلیمانی کمیٹی اجلاس سے مکمل طور پر الگ رہنے کا اعلان کیا۔
اجلاس میں پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دینے والے اراکین کیخلاف سخت کارروائی کی منظوری اور ترمیم کوووٹ دینے والے اراکین کی رکنیت منسوخی سمیت تادیبی کارروائی پر اتفاق کیا گیا، اس کے ساتھ ساتھ پارٹی سے روابط منقطع کرنے والے دیگر اراکین کو شوکاز نوٹسز اجرا کی بھی منظوری اور روابط منقطع کرنے، حکومتی حلقوں سے روابط ودیگرمعاملات پرپوزیشن واضح کرنے کا کہا جائےگا۔
شوکاز نوٹس کے جوابات کی روشنی میں ان کے آئندہ کے مستقبل کا تعین کیاجائے گا جبکہ بیرسٹرگوہر نے بھی کہا کہ سیاسی کمیٹی نے پارلیمانی خصوصی کمیٹی اجلاس میں نہ جانے کا فیصلہ کیاہے اور ہم پارٹی کی سیاسی کمیٹی کے فیصلوں پرعمل کریں گے۔
چیف جسٹس کی تعیناتی، رجسٹرار سپریم کورٹ نے 3 ججز کے نام بھیج دیئے
رجسٹرار سپریم کورٹ نے نئے چیف جسٹس کی تعیناتی 3 ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیئے۔
ذرائع کے مطابق رجسٹرار کے ذریعے چیف جسٹس سے نام مانگے گئے تھے، رجسٹرار سپریم کورٹ نے 3 سینئر ترین ججز کے نام بھیج دیئے۔
ذرائع کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی کے نام شامل ہیں۔ سپریم کورٹ میں 3 سینئر ججز کی تفصیلات کمیٹی کو ارسال کردی گئیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کےلیے نئے چیف جسٹس کیلئے 3 سینئر ترین ججز کے ناموں پر غور آج ہوگا۔ خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی بیٹھک آج شام لگے گی۔ خواجہ آصف، احسن اقبال، بیرسٹر گوہر سمیت 12 ارکان نئے چیف جسٹس کیلئے نام فائنل کریں گے۔
کمیٹی میں ن لیگ کے 4، پیپلزپارٹی کے 3، پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے مشترکہ طور پر 3، جے یو آئی اور ایم کیوایم کا ایک ایک رکن شامل ہے۔ کمیٹی کو دو تہائی اکثریت سے نئے چیف جسٹس کی نامزدگی کا کام بھی آج ہی مکمل کرنا ہوگا۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کیلئے پی ٹی آئی کو منانے کی کوششیں ناکام
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کو نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کے حوالے سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں شرکت کیلئے منانے کی کوششیں ناکام ہوگئیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے لیے نئے چیف جسٹس کیلئے 3 سینئر ترین ججز کے ناموں پر غور کے لئے کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں ساڑھے 8 بجے تک کا وقفہ کیا گیا ۔
پاکستان تحریک انصاف نے نئی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ تھا جس کے بعد انہیں منانے کی کوشش کی گئی۔
تاہم، پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی۔
بیرسٹرگوہرعلی خان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اسپیکر ایازصادق کا پیغام ملا، اسپیکرسے ملاقات کیلئے آیا تو خصوصی کمیٹی کا وفد یہاں پر موجود تھا، خصوصی کمیٹی کے وفد نے ہمیں اجلاس میں شرکت کیلئے کہا جس پر کمیٹی کو بتایا اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔
جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بھی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پی ٹی آئی نہیں مانی اور وہ خصوصی کمیٹی اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس سپریم کورٹ نامزد کردیا گیا
خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس پاکستان نامزد کر دیا ہے۔
26 ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد پاکستان کے نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے نام فائنل کرنے کے حوالے سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں کمیٹی نے دو تہائی اکثریت سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس پاکستان نامزد کیا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جسٹس یحییٰ آفریدی کی نامزدگی کی تصدیق کی گئی اور بتایا کہ انہیں دو تہائی اکثریت سے نامزد کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں جسٹس یحییٰ آفریدی کی نامزدگی ایک کے مقابلے میں 8 ووٹوں سےہوئی۔
ذرائع نے بتایا کہ جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے جسٹس منصورعلی شاہ کے حق میں ووٹ دیا۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا تعارف
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل ہیں۔
28 جون 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج بننے والے جسٹس یحیٰی آفریدی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ کا حصہ رہے جبکہ مخصوص نشستوں کے کیس میں اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا ۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا کیریئر
23 جنوری 1965 کو ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہونے والے یحیٰی آفریدی نے ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی، گورنمٹ کالج لاہور سے گریجویشن جبکہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے معاشایات کی ڈگری لی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کامن ویلتھ اسکالرشپ پر جیسس کالج کیمبرج یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے 1990 میں بطور وکیل پشاور ہائیکورٹ پریکٹس شروع کی، 2004میں سپریم کورٹ کے وکیل کے طورپر وکالت کا آغاز کیا، خیبر پختونخوا کے لیے بطور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی خدمات بھی سرانجام دے چکے ہیں۔
2010 میں پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج مقرر ہوئے اور 15مارچ 2012 کو مستقل جج کا منصب سنبھال لیا۔
30 دسمبر 2016 کو جسٹس یحییٰ آفریدی نے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا۔
جسٹس یحیٰی آفریدی 28 جون 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے اور مختلف مقدمات کی سماعت کی۔
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں لارجر بنچ کا حصہ رہے، اس کیس سے متعلق فیصلے میں اپنا اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا ۔
جسٹس یحییٰ آفریدی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کیلئے بننے والے سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ میں بھی شامل تھے۔
نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے 3 ججز کے نام
اس سے قبل رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے 3 ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیئے گئے تھے جن میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحیٰ آفریدی کے نام شامل تھے۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں مسلم لیگ ن کے 4، پاکستان پیپلز پارٹی کے 3، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) اور سنی اتحاد کونسل کے مشترکہ طور پر 3، جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ) اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیوایم ) کا ایک ایک رکن شامل تھے اور کمیٹی کو دو تہائی اکثریت سے نئے چیف جسٹس کی نامزدگی کا کام بھی آج ہی مکمل کرنا تھا۔
پی ٹی آئی کو منانے کی کوششیں ناکام
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد حکومت کی جانب سے انہیں منانے کی کوشش کی گئی جو کہ ناکام رہی۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے چیمبر میں کمیٹی ارکان کی پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر کے ساتھ ملاقات بے نتیجہ رہی جبکہ سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے بھی اسد قیصر سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے اجلاس میں شرکت کی درخواست کی۔
رابطوں اور ملاقاتوں کے باوجود پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے کمیٹی اجلاس کا حصہ نہ بنے کا فیصلہ کیا۔
بیرسٹر گوہر کی گفتگو
پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی۔
بیرسٹرگوہرعلی خان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اسپیکر ایازصادق کا پیغام ملا، اسپیکرسے ملاقات کیلئے آیا تو خصوصی کمیٹی کا وفد یہاں پر موجود تھا، خصوصی کمیٹی کے وفد نے ہمیں اجلاس میں شرکت کیلئے کہا جس پر کمیٹی کو بتایا اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔
جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بھی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پی ٹی آئی نہیں مانی اور وہ خصوصی کمیٹی اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔
پارلیمانی کمیٹی کا پس منظر
چھبیسویں ترمیم کے بعد نئے چیف جسٹس کی تقرری کیلئے 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی تھی جس کا قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے نوٹیفکیشن جاری ہوا جس کے مطابق 8 ایم این ایز اور 4 سینیٹرز کمیٹی کے رکن ہیں۔
متناسب نمائندگی کے لحاظ سے ارکان نامزد کرنے کیلئے چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی نے بڑی پارلیمانی جماعتوں کو خطوط لکھے جس کے بعد مسلم لیگ ن کے سینیٹ سے اعظم نذیر تارڑ، قومی اسمبلی سے خواجہ آصف، احسن اقبال اور شائستہ پرویز ملک کو کمیٹی میں شامل کیا گیا۔
پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی سے راجا پرویز اشرف اور نوید قمر جبکہ سینیٹ سے فاروق ایچ نائیک کا نام دیا ۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر اور جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ بھی کمیٹی کے رکن بنے جبکہ قومی اسمبلی سے ایم کیو ایم کی رعنا انصار اور اپوزیشن سے بیرسٹر گوہر اور حامد رضا پارلیمانی کمیٹی ممبر بنے۔
نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے کیرئیر پر ایک نظر
خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے دوتہائی اکثریت سے چیف جسٹس پاکستان نامزد کردیا گیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل ہیں۔
28 جون 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج بننے والے جسٹس یحیٰی آفریدی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ کا حصہ رہے جبکہ مخصوص نشستوں کے کیس میں اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا ۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا کیریئر
23 جنوری 1965 کو ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہونے والے یحیٰی آفریدی نے ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی، گورنمٹ کالج لاہور سے گریجویشن جبکہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے معاشایات کی ڈگری لی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کامن ویلتھ اسکالرشپ پر جیسس کالج کیمبرج یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے 1990 میں بطور وکیل پشاور ہائیکورٹ پریکٹس شروع کی، 2004میں سپریم کورٹ کے وکیل کے طورپر وکالت کا آغاز کیا، خیبر پختونخوا کے لیے بطور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی خدمات بھی سرانجام دے چکے ہیں۔
2010 میں پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج مقرر ہوئے اور 15مارچ 2012 کو مستقل جج کا منصب سنبھال لیا۔
30 دسمبر 2016 کو جسٹس یحییٰ آفریدی نے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا۔
جسٹس یحیٰی آفریدی 28 جون 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے اور مختلف مقدمات کی سماعت کی۔
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں لارجر بنچ کا حصہ رہے، اس کیس سے متعلق فیصلے میں اپنا اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا ۔
جسٹس یحییٰ آفریدی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کیلئے بننے والے سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ میں بھی شامل تھے۔
سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف ایک اور درخواست دائر
26 آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر ہوگئی جس میں سماعت فل کورٹ میں کرنے کی استدعا بھی کی گئی ہے ۔
درخواستگزار افراسیاب خٹک کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں مسلم لیگ ( ن ) ، پاکستان پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو فریق بنایا گیا ہے ۔
درخواستگزار کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ترامیم کے لئے ارکان اسمبلی نے ووٹ رضا کارانہ طور پر دیا یا دباؤ کے تحت ڈالا؟ اس حوالے سے سپریم کورٹ خود یا جوڈیشل کمیشن کے ذریعے انکوائری کرے ۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ 26 ویں ترمیم درست طریقے سے منظور نہیں کی گئی، ججز کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ ، چیف جسٹس کی تعیناتی کے طریقہ کار میں تبدیلی اور آئینی بینچوں کا قیام عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے، اس ترمیم کے خلاف درخواست پر آئینی بینچز سماعت نہیں کر سکتے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم عدلیہ کی آزادی کے خلاف قرار دے کر خارج کی جائے ۔
وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ کی27ویں آئینی ترمیم لانے کی تردید
وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے 27 ویں ترمیم لانے سے متعلق چلنے والی تمام خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کوئی 27 ویں ترمیم لانے کی تیاری نہیں کی جارہی ہے ۔
اسلام آباد میں وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نزیر تارڑ نے سماء سے خصوصی گفتگو میں 27ویں آئینی ترمیم کی باتوں کو قیاس آرائیاں قرار دیتے ہوئے کہا کہ فی الحال کوئی نئی آئینی ترمیم نہیں آرہی، ایسی قیاس آرائیاں نہ کی جائیں۔
وفاقی وزیرقانون وانصاف اعظم نذیرتارڑکاکہنا تھاکہ 26ویں آئینی ترمیم پرعملدرآمدکیاجائےگاتوقوم کونتائج ملیں گے، 26ویں آئینی ترمیم ہوچکی ہے،اس پرعمل درآمدہوگا،27ویں آئینی ترمیم کاکوئی امکان نہیں ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ(ن)کےرکن قومی اسمبلی بیرسٹر دانیال چودھری نے میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم وقت کی ضرورت عوام کو بہترین جوڈیشل سسٹم دےرہےہیں،جب بھی 27 ویں ترمیم آئی، بھاری اکثریت سے منظور ہوگی۔
ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما مصطفیٰ کمال نے میڈیاسےگفتگو میں کہا کہ 27ویں ترمیم آئی توایم کیوایم سےکئے گئے وعدے پر آئے گی، ہماری پیش کردہ ترمیم لائی جائے گی، ہمارے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا ہوگا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل یہ خبر سامنے آئی تھی کہ مجوزہ 27 ویں ترامیم کیلئے پارلیمان کے استحکام اور ارکان کی تکریم کے لیے حکومت نے خصوصی پارلیمانی کمیٹی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کا کہناتھا کہ حکومت آئینی معاملات پر تما م جماعتوں کو اعتماد میں لینے کیلئے پر عزم ہے ، مجوزہ ترمیم کیلئے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں مشاورتی عمل جاری رکھنے پر اتفاق ہوا لیکن اب وزیر قانون نے ایسی کسی بھی مشاورت کی تردید کر دی ہے ۔
یہاں امر قابل ذکر ہے کہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے ہی 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر اتفاق رائے حاصل کیا تھا اور اس کے بعد مجوزہ مسودہ وفاقی کابینہ کو بھجوایا گیا تھا ۔
آپ کو یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ گزشتہ رات اپنے ایک انٹرویو میں رانا ثناء اللہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ نوازشریف اور شہبازشریف کے درمیان ہونے والی ملاقات میں 27 ویں ترمیم پر بات ضرور ہوئی لیکن اتفاق رائے جیسی کوئی بات نہیں ہوئی۔
وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا تھا کہ 26ویں ترمیم میں جن چیزوں پر اتفاق نہیں ہوسکا تھا 27 ویں ترمیم میں ان پر دوبارہ بات ہوسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم میں جو کچھ بھی ہوگا وہ متفقہ طور پر ہوگا، انفرادی طور پر کچھ نہیں ہوگا۔
فواد چوہدری کے پارٹی میں واپس آنے کے حق میں نہیں ہوں،شیرافضل مروت
رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ فوادچوہدری نے پی ٹی آئی کا مذاق اڑایا ہے،ان کے واپس آنے کے حق میں نہیں ہوں۔
اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی ) کے رکن اسمبلی شیر افضل مروت نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُمیدہےکہ فل کورٹ ریفرنس میں26ویں آئینی ترمیم کا جائزہ لیا جائے گا،سینیٹ مکمل ہے نہ قومی اسمبلی، پارلیمان ترمیم لانے کا مجاز ہی نہیں تھا۔
شیر افضل مروت کا کہنا تھا جمہوریت کی دعوے دار سیاسی جماعتیں کیوں کر ملٹری کورٹس کی بات کریں گی، کسی بھی جمہوری ملک میں ایسا نہیں ہوتا، پیپلز پارٹی اور ن لیگ ملکر نئی آئینی ترامیم لائیں تو اُن کے پاس لوگوں کو دکھانے کیلئے کوئی چہرہ نہیں ہوگا، یہ لوگ ترامیم کے نام پر مٹی پلیدکر رہے ہیں پارلیمان کی، اب سپریم کورٹ میں جو تبدیلی آئی ہے امید کرتے ہیں کہ ہمارے کیسز لگ جائیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی ) کے رہنما شیر افضل مروت نے سابق رہنما پی ٹی آئی فواد چودھر ی کے بارے میں کہا کہ فواد چوہدری کے پارٹی میں واپس آنے کے حق میں نہیں ہوں، فوادچوہدری نے پی ٹی آئی کا مذاق اڑایا ہے۔
مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی کےساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کررہی ہے، بلاول بھٹو
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی کےساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کررہی ہے،26ویں آئینی ترمیم میں مصروف تھا،حکومت نے پیٹھ پیچھے کینالز کی منظوری دی۔
پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری حکومت سے ناراض ہیں شکوؤں کے انبار لگادیئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ وفاق میں نہ عزت دی جاتی ہےنہ سیاست کی جاتی ہے، طے ہوا تھاکہ پی ایس ڈی پی مشاورت سے بنائی جائےگی، مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی کےساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کررہی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ26ویں آئینی ترمیم میں مصروف تھا،حکومت نے پیٹھ پیچھے کینالز کی منظوری دی،قانون سازی پر پوری طرح سے مشاورت ہونی چاہیے،جوڈیشل کمیشن سے احتجاجاً الگ ہوا ہوں،اگر جوڈیشل کمیشن میں ہوتا تو آئینی بینچ میں فرق پر بات کرتا،آئین سازی کے وقت حکومت اپنی باتوں سے پیچھے ہٹ گئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ دیہی سندھ سے سپریم کورٹ میں ججز ہوتے تو برابری کی بات کرتا،ہمیں انصاف کے سب سےبڑےادارے میں برابری کی نمائندگی چاہیے، ایک ملک میں دو نظام نہیں چل سکتے،وفاقی آئینی بینچ میں الگ اور سندھ کیلئے الگ طریقہ اختیار کیاگیا ہے ۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کامزید کہنا تھا کہ سندھ کے ساتھ بار بار تفریق اور الگ سلوک نظرآتاہے کچھ ججز کا طریقہ ہے کہ بینچ سے سیاست کریں،چیف جسٹس،آئینی بینچ کے سربراہ کو غیر متنازعہ ہوناچاہیے،وفاقی حکومت نے آئین سازی کے وقت برابری کی باتیں کی تھیں،جب تک لوئرکورٹس میں اصلاحات نہ ہوں مشن نامکمل ہے۔
پی ٹی آئی اپنا کوئی ایک منصوبہ دکھا دے جس پر وہ فخر ہو،عمران خان حکومت کی کارکردگی صفر ہے،نواز شریف
نوازشریف کا کہنا ہے کہ خداخداکرکےمعیشت کوشہبازشریف حکومت ٹھیک کررہی ہے، بانی پی ٹی آئی نےجنرل باجوہ اورفیض حمیدسےملکرہمارےخلاف کیاکچھ نہیں کیا ہے۔
لندن میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کےلیےلوگ کیوں نکلیں گے؟ قوم انکےکس کارنامےپرباہرنکلے،انکی کارکردگئی صفر ہے،میں3مرتبہ وزیراعظم رہا ہوں مجھےجیل میں اطلاع ملی کہ تمہاری بیوی فوت ہوگئی ہے، ہم نے بدترین ظلم برداشت کیے ہیں۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہم نے بدترین ظلم برداشت کئے ہیں، یہ کس بات کا طعنہ دیتے ہیں ،پی ٹی آئی اپنا کوئی ایک منصوبہ دکھا دے جس پر وہ فخر کر سکیں،عمران خان حکومت کی کارکردگی صفر ہے،عدلیہ سے ساز باز کر کہ ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹایا گیا ہےانہوں نے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔
انھوں نے کہا کہ خداخداکرکےمعیشت کوشہبازشریف حکومت ٹھیک کررہی ہے،معاشی اشاریےبہترہورہےہیں چھبیسویں آئینی ترمیم خوش آیند اور بہترین ہے،پارلیمنٹ نےپہلےبھی ایسی ترمیم کی جسےاس وقت کی عدلیہ نےختم کیا،پارلیمنٹ کوماضی میں بھی عدلیہ کےغلط فیصلےکےسامنےکھڑاہوناچاہیےتھااگر دوبارہ خلل نہ ڈالا گیا تو ہم حالات سنوار لیں گے۔