اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے جس میں ووٹنگ کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
سردار ایاز صادق کی زیر صدارت تاخیر سے شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے ایوان کی معمول کی کارروائی معطل کرنے کی تحریک پیش کی جسے ایوان کی جانب سے منظور کرلیا گیا۔
تحریک منظور ہونے کے بعد 20 اور 21 اکتوبر کو معمول کی کارروائی معطل کردی گئی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیمی بل متعارف کرانے کی تحریک ایوان میں پیش کی۔
وزیر قانون کا خطاب
اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیمی بل کے خدو خال بیان کئے اور بتایا کہ آج ایک تاریخ سازدن ہے، 18 ویں ترمیم میں ججز تقرری کےعمل میں بنیادی تبدیلی کی گئی تھی، 19 ویں ترمیم بازو دبا کر اس ایوان سےمنظور کرائی گئی، ہماری عدلیہ کا رینکنگ میں جو نمبر ہے وہ بتانے کے لائق نہیں، میثاق جمہوریت میں سب سے اہم ایجنڈا آئینی عدالت کا تھا، میثاق جمہوریت پر بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کیے، میثاق جمہوریت کے بہت سے نکات پر عملدرآمد ہوگیا۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ آج 26 ویں آئینی ترمیم سینیٹ نے 2 تہائی اکثریت سے منظور کی، چیف جسٹس کی مدت 3 سال مقرر کی گئی، 6 اور 7 سال والے چیف جسٹس آئے تو سب نے دیکھا کیا ہوا، مانگنے کچھ جاتے ہیں ، دے کر کچھ بھیج دیا جاتا ہے ، یہ کئی بار ہوچکا، اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کیلئے سب کی مشاورت سے فیصلہ کریں گے، ہائیکورٹس کیلئے بھی آئینی بینچز متعارف کرائے گئے ہیں۔
اعظم نذیرتارڑ کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے مسودے پر اتفاق رائے کیلئے کردار ادا کیا، آئینی ترمیم کیلئے بلاول بھٹو نے بھی بہت محنت کی، جوڈیشل کمیشن کی سربراہی چیف جسٹس کریں گے، سپریم کورٹ کے 3سینئر ترین ججز جوڈیشل کمیشن میں شامل ہوں گے، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے بھی جوڈیشل کمیشن میں شامل ہوں گے۔
وزیر قانون کے خطاب کے بعد اجلاس کچھ دیر کے لئے ملتوی کیا اور بعد ازاں دوبارہ شروع کیا ۔
اجلاس دوبارہ شروع ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، وزیر دفاع خواجہ آصف ، مولانا فضل الرحمان ، فاروق ستار اور بیرسٹر گوہر نے خطاب کیا۔
اراکین کے خطاب کے بعد اسپیکر کی جانب سے وزی رقانون کو تحریک پیش کرنےکی ہدایت کی گئی جس پر انہوں نے تحریک پیش کی۔
اراکین اپنی نشستوں پر کھڑے ہوئے اور گنتی کا عمل شروع کیا گیا۔
دو تہائی اکثریت
ترمیم پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 225 ارکان نے ووٹ دیے جبکہ 12 ارکان اسمبلی نے ترمیم پیش کرنے کی مخالفت کی جس کے بعد حکومت سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی دوتہائی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی۔