سینیٹ اور قومی اسمبلی نے26 واں آئینی ترمیمی بل دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا، وفاقی حکومت ایوان بالا میں 65 جبکہ قومی اسمبلی میں 225 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی جبکہ مخالفت میں 12 ووٹ آئے اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے اراکین نے بعد میں ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس
اتوار کی رات گئے سپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت تاخیر سے شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے ایوان کی معمول کی کارروائی معطل کرنے کی تحریک پیش کی جسے ایوان کی جانب سے منظور کرلیا گیا۔
تحریک منظور ہونے کے بعد 20 اور 21 اکتوبر کو معمول کی کارروائی معطل کردی گئی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیمی بل متعارف کرانے کی تحریک ایوان میں پیش کی اور ترامیمی بل کے خدوخال بیان کئے۔
اراکین کے خطاب کے بعد اسپیکر کی جانب سے وزی رقانون کو تحریک پیش کرنےکی ہدایت کی گئی جس پر انہوں نے تحریک پیش کی۔
اراکین اپنی نشستوں پر کھڑے ہوئے اور گنتی کا عمل شروع کیا گیا۔
اپوزیشن کے 4 ارکان
قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے بھی 4 ارکان پہنچے۔
اپوزیشن ممبرز ایوان میں حکومتی بینچوں پر براجمان تھے جن میں عثمان علی ، مبارک زیب، ظہور قریشی اور اورنگزیب کھچی شامل تھے۔
مسلم لیگ ق کے رکن چوہدری الیاس بھی ایوان میں پہنچے۔
اپوزیشن کے مزید 4 ارکان حکومتی لابی میں بھی موجود رہے جو ایوان میں نہیں آئے۔
ارکان میں پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی، ریاض فتیانہ ، مقداد حسین اور اسلم گھمن شامل تھے۔
دو تہائی اکثریت
ترمیم پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 225 ارکان نے ووٹ دیے جبکہ 12 ارکان اسمبلی نے ترمیم پیش کرنے کی مخالفت کی جس کے بعد حکومت سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی دوتہائی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
شق وار منظوری
آئینی ترمیمی بل کی شق وار منظوری لی گئی اور 225 اراکین کی جانب سے تمام 27 شقوں کی حمایت میں ووٹ دیا گیا جبکہ شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی اور اتحادی جماعت کا کوئی رکن اسمبلی ہال میں موجود نہیں تھا۔
شق وار منظوری کے بعد وزیر قانون نے ترمیم باضابطہ منظوری کیلئے پیش کی جس کے بعد ڈویژن کے ذریعے آئینی ترمیم کی منظوری لی گئی۔
شق وار منظوری کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلئےڈویژن کےذریعے ووٹنگ کی گئی، نوازشریف نےڈویژن کے ذریعے ووٹنگ کے عمل میں سب سے پہلے ووٹ دیا۔
بعدازاں، سپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس منگل کی شام 5 بجے تک ملتوی کردیا۔
سینیٹ اجلاس
اس سے قبل ایوان بالا میں 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کی گئی۔
سینیٹ میں آئینی ترامیم کے حق میں حکومت کے 58، جمعیت علمائے اسلام کے 5 اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے 2 ووٹ آئے۔
چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کی صدارت ہونے والے ایوان بالا کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے 26 ویں آئینی ترمیمی بل پیش کیا گیا۔
26 ویں آئینی ترمیمی بل ضمنی ایجنڈے کے طور پر سینیٹ میں لایا گیا۔
اجلاس تاخیر سے شروع ہونے کے بعد سینیٹر اسحاق ڈار نے وقفہ سوالات معطل کرنے کی تحریک پیش کی جسے اکثریتی رائے سے منظور کر لیا گیا۔
بعدازاں مختلف جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز نے اظہار خیال کیا جس کے بعد وزیرقانون نے آئینی ترامیم پر ووٹنگ کیلئے تحریک پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبیلو ایم کے ارکان ایوان سے چلے گئے۔
تمام 22 شقوں کی مرحلہ وار منظوری کے بعد ترمیم کی مجموعی منظوری ہاؤس میں ڈویژن کے عمل سے ہوئی اور چیئرمین سینیٹ نے لابیز لاک کرنے اور بیل بجانے کا حکم دیا۔
اس کے بعد ارکان لابیز میں چلے گئے اور گنتی کی گئی جس کا اعلان چیئرمین سینیٹ نے کیا۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھاکہ سینیٹ نے 26 ویں آئینی ترامیم منظور کرلیں اور ترامیم کے حق میں 65 ووٹ آئے۔
بعد ازاں ، سینیٹ کا اجلاس منگل 22 اکتوبر کی شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
آئینی ترمیم کے اہم نکات
26 ویں آئینی ترمیم کے متعلق سینیٹ میں پیش کئے گئے مسودے کے نکات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری 12رکنی پارلیمانی کمیٹی کرےگی، کمیٹی میں قومی اسمبلی کے 8 ،سینیٹ کے 4 ارکان شامل ہوں گے، تمام جماعتوں کو پارلیمنٹ میں ان کی تعداد کے تناسب سے کمیٹی میں نمائندگی ملے گی قومی اسمبلی تحلیل ہو تو سینیٹ کے 4 ارکان تقرری کے مجاز ہوں گے، کمیٹی سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ترین ججز میں سے کسی ایک کو کثرت رائے سے چیف جسٹس مقرر کرے گی۔
Drafting of the 26th Constitutional Amendment by Farhan Malik on Scribd
چیف جسٹس کی تقرری قبول نہ کرنے پر ان کے بعد کے سینئر جج کا نام زیر غور لایا جائے گا، کمیٹی کا اجلاس بند کمرے میں ہوگا، اس کی کارروائی ریکارڈ کی جائے گی، کمیٹی اور جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا، آرٹیکل 179 میں ترمیم، چیف جسٹس کی مدت زیادہ سے زیادہ 3 سال ہوگی، 3سال گزرنے پر چیف جسٹس کی عمر 65 برس سے کم بھی ہوگی تو ریٹائرڈ کر دیا جائے گا۔
نیا آرٹیکل 191 اے میں سپریم کورٹ میں“آئینی بینچ”کا قیام، ججز کی تعداد جوڈیشیل کمیشن مقرر کرے گا، آئینی بینچ کے ججز میں ممکنہ حدتک تمام صوبوں کو برابر کی نمائندگی دی جائے گی، آئینی بینچ کے علاوہ سپریم کورٹ کا کوئی جج اوریجنل جوریسڈکشن، سوموٹو مقدمات، آئینی اپیلیں یا صدارتی ریفرنس کی سماعت کا مجاز نہیں ہوگا سوموٹو، اوریجنل جوریسڈکشن درخواستوں اور صدارتی ریفرنسز کی سماعت اور فیصلہ“آئینی بینچ” کا 5 رکنی بینچ کرے گا۔
آئینی اپیلوں کی سماعت اور فیصلہ بھی 5 رکنی آئینی بینچ کرے گا، آئینی بینچ کے 3 سینئر ترین جج سماعت کا بینچ تشکیل دیں گے، سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کے دائرہ اختیارمیں آنے والی “زیرالتوا” کیسز اور نظرثانی درخواستیں آئینی بینچ کو منتقل ہوجائیں گی، ہائیکورٹ کو سوموٹو نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہوگا، آرٹیکل 175 اے، جوڈیشل کمیشن کے موجودہ ارکان برقرار، 4 ارکان پارلیمنٹ شامل کئے جائیں گے۔
سینیٹ کارکن منتخب ہونے کی مجاز خاتون یا اقلیتی شہری بھی رکن ہوگا، تقرری اسپیکر دو سال کیلئے کرے گا، کمیشن کے ایک تہائی ارکان چیئر پرسن کو تحریری طور پر اجلاس بلانے کی استدعا کر سکتے ہیں، چیئر پرسن 15روز میں اجلاس بلانے کاپابند ہوگا، نہ بلانے پر سیکرٹری کو 7 روز میں اجلاس بلانے کا اختیار ہوگا، نیا آرٹیکل 9 اے متعارف، صحت مندانہ پائیدار ماحول بنیادی حق قرار جائے گا،آرٹیکل 48 میں سے وزیر اور وزیر مملکت کے الفاظ حذف کئے جائیں۔
صرف کابینہ یا وزیراعظم کی صدر کو بھجوائی گئی سمری کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکےگا، آرٹیکل 81 میں ترمیم، سپریم جوڈیشیل کونسل اور انتخابات کیلئے فنڈز لازمی اخراجات میں شامل ہوں گے آرٹیکل 111 میں ترمیم، صوبائی مشیروں کو بھی اسمبلی میں خطاب کا حق دیا جائے گا، 184(3) کے تحت سو موٹو یا ابتدائی سماعت کے مقدمات میں سپریم کورٹ صرف درخواست میں کی گئی استدعا کی حد تک فیصلہ جاری کر سکے گی۔
سپریم کورٹ اب 50ہزار کے بجائے 10 لاکھ روپے تک کی اپیلیں براہ راست سماعت کی مجاز ہوگی، آرٹیکل 186 اے میں ترمیم سپریم کورٹ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے زیر سماعت مقدمہ اپیل یا دیگر کارروائی کسی اور ہائیکورٹ کو منتقل کرنے کے علاوہ خود کو بھی منتقل کرنے کی بھی مجاز ہو گی ،آرٹیکل 187کے تحت مکمل انصاف کے لئے کوئی بھی حکم جاری کرنے کا اختیار محدود کرنے کی تجویز حکم صرف اپنے آئینی دائرہ اختیار کے اندر ہی جاری کیا جا سکے گا۔
آرٹیکل 209 میں ترمیم چیف جسٹس آف پاکستان کیخلاف ریفرنس ہو تو ان سے نیچے کا سینئر ترین جج سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ بنایا جا سکے گا،ججز کو ہٹانے کی وجوہات میں ناقص کارکردگی کو بھی شامل کر دیا گیا، اس کے لئے ججز کی کارکردگی پر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کو بنیاد بنایا جائےگا سپریم جوڈیشل کونسل کا اپنا سیکریٹریٹ قائم کرنے اور ایک سیکریٹری کی سربراہی میں اسٹاف کے تقرر کی تجویز، ہر کام کونسل کے وائد کی روشنی میں عمل میں آئے گا۔
چیف الیکشن کمشنر اور ارکانِ الیکشن کمیشن مدت مکمل ہونے کے باوجود نئے کمشنر یا ارکان کی تقرری تک کام کرتے رہیں گے، کوئی آئینی عہدیدار کسی دوسرے آئینی عہدیدار سے حلف لینے سے انکار کرے تو چیف جسٹس آف پاکستان یا چیف جسٹس ہائیکورٹ حلف لینے کیلئے کسی کو نامزد کر سکتے ہیں ،وفاقی شرعی عدالت کاجج بھی شریعت کورٹ کاچیف جسٹس بن سکے گا، وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ اپیل کی صورت میں صرف ایک سال معطل رہ سکے گا شریعت ایپلٹ بینچ کے فیصلہ نہ کر سکنے کی صورت میں ایک سال بعد شرعی عدالت کا فیصلہ بحال ہو جائے۔