26ویں آئینی ترمیم کے متعلق کابینہ کی منظوری کے بعد سینیٹ میں پیش کئے گئے مسودے کے نکات سامنے آگئے ہیں۔
چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کی صدارت ایوان بالا کا اجلاس ہوا، جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیمی بل سینٹ میں پیش کیا 26 ویں آئینی ترمیمی بل ضمنی ایجنڈے کے طور پر سینیٹ میں لایا گیا۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیمی بل پیش کیا۔
26ویں آئینی ترمیم کے متعلق سینیٹ میں پیش کئے گئے مسودے کے نکات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری 12رکنی پارلیمانی کمیٹی کرےگی، کمیٹی میں قومی اسمبلی کے 8 ،سینیٹ کے 4 ارکان شامل ہوں گے، تمام جماعتوں کو پارلیمنٹ میں ان کی تعداد کے تناسب سے کمیٹی میں نمائندگی ملے گی قومی اسمبلی تحلیل ہو تو سینیٹ کے 4 ارکان تقرری کے مجاز ہوں گے، کمیٹی سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ترین ججز میں سے کسی ایک کو کثرت رائے سے چیف جسٹس مقرر کرے گی۔
چیف جسٹس کی تقرری قبول نہ کرنے پر ان کے بعد کے سینئر جج کا نام زیر غور لایا جائے گا، کمیٹی کا اجلاس بند کمرے میں ہوگا، اس کی کارروائی ریکارڈ کی جائے گی، کمیٹی اور جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا، آرٹیکل 179 میں ترمیم، چیف جسٹس کی مدت زیادہ سے زیادہ 3 سال ہوگی، 3سال گزرنے پر چیف جسٹس کی عمر 65 برس سے کم بھی ہوگی تو ریٹائرڈ کر دیا جائے گا۔
Draft of the 26th Constitutional Amendment by Farhan Malik on Scribd
نیا آرٹیکل 191 اے میں سپریم کورٹ میں“آئینی بینچ”کا قیام، ججز کی تعداد جوڈیشیل کمیشن مقرر کرے گا، آئینی بینچ کے ججز میں ممکنہ حدتک تمام صوبوں کو برابر کی نمائندگی دی جائے گی، آئینی بینچ کے علاوہ سپریم کورٹ کا کوئی جج اوریجنل جوریسڈکشن، سوموٹو مقدمات، آئینی اپیلیں یا صدارتی ریفرنس کی سماعت کا مجاز نہیں ہوگا سوموٹو، اوریجنل جوریسڈکشن درخواستوں اور صدارتی ریفرنسز کی سماعت اور فیصلہ“آئینی بینچ” کا 5 رکنی بینچ کرے گا۔
آئینی اپیلوں کی سماعت اور فیصلہ بھی 5 رکنی آئینی بینچ کرے گا، آئینی بینچ کے 3 سینئر ترین جج سماعت کا بینچ تشکیل دیں گے، سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کے دائرہ اختیارمیں آنے والی “زیرالتوا” کیسز اور نظرثانی درخواستیں آئینی بینچ کو منتقل ہوجائیں گی، ہائیکورٹ کو سوموٹو نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہوگا، آرٹیکل 175 اے، جوڈیشل کمیشن کے موجودہ ارکان برقرار، 4 ارکان پارلیمنٹ شامل کئے جائیں گے۔
سینیٹ کارکن منتخب ہونے کی مجاز خاتون یا اقلیتی شہری بھی رکن ہوگا، تقرری اسپیکر دو سال کیلئے کرے گا، کمیشن کے ایک تہائی ارکان چیئر پرسن کو تحریری طور پر اجلاس بلانے کی استدعا کر سکتے ہیں، چیئر پرسن 15روز میں اجلاس بلانے کاپابند ہوگا، نہ بلانے پر سیکرٹری کو 7 روز میں اجلاس بلانے کا اختیار ہوگا، نیا آرٹیکل 9 اے متعارف، صحت مندانہ پائیدار ماحول بنیادی حق قرار جائے گا،آرٹیکل 48 میں سے وزیر اور وزیر مملکت کے الفاظ حذف کئے جائیں۔
صرف کابینہ یا وزیراعظم کی صدر کو بھجوائی گئی سمری کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکےگا، آرٹیکل 81 میں ترمیم، سپریم جوڈیشیل کونسل اور انتخابات کیلئے فنڈز لازمی اخراجات میں شامل ہوں گے آرٹیکل 111 میں ترمیم، صوبائی مشیروں کو بھی اسمبلی میں خطاب کا حق دیا جائے گا، 184(3) کے تحت سو موٹو یا ابتدائی سماعت کے مقدمات میں سپریم کورٹ صرف درخواست میں کی گئی استدعا کی حد تک فیصلہ جاری کر سکے گی۔
سپریم کورٹ اب 50ہزار کے بجائے 10 لاکھ روپے تک کی اپیلیں براہ راست سماعت کی مجاز ہوگی، آرٹیکل 186 اے میں ترمیم سپریم کورٹ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے زیر سماعت مقدمہ اپیل یا دیگر کارروائی کسی اور ہائیکورٹ کو منتقل کرنے کے علاوہ خود کو بھی منتقل کرنے کی بھی مجاز ہو گی ،آرٹیکل 187کے تحت مکمل انصاف کے لئے کوئی بھی حکم جاری کرنے کا اختیار محدود کرنے کی تجویز حکم صرف اپنے آئینی دائرہ اختیار کے اندر ہی جاری کیا جا سکے گا۔
آرٹیکل 209 میں ترمیم چیف جسٹس آف پاکستان کیخلاف ریفرنس ہو تو ان سے نیچے کا سینئر ترین جج سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ بنایا جا سکے گا،ججز کو ہٹانے کی وجوہات میں ناقص کارکردگی کو بھی شامل کر دیا گیا، اس کے لئے ججز کی کارکردگی پر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کو بنیاد بنایا جائےگا سپریم جوڈیشل کونسل کا اپنا سیکریٹریٹ قائم کرنے اور ایک سیکریٹری کی سربراہی میں اسٹاف کے تقرر کی تجویز، ہر کام کونسل کے وائد کی روشنی میں عمل میں آئے گا۔
چیف الیکشن کمشنر اور ارکانِ الیکشن کمیشن مدت مکمل ہونے کے باوجود نئے کمشنر یا ارکان کی تقرری تک کام کرتے رہیں گے، کوئی آئینی عہدیدار کسی دوسرے آئینی عہدیدار سے حلف لینے سے انکار کرے تو چیف جسٹس آف پاکستان یا چیف جسٹس ہائیکورٹ حلف لینے کیلئے کسی کو نامزد کر سکتے ہیں ،وفاقی شرعی عدالت کاجج بھی شریعت کورٹ کاچیف جسٹس بن سکے گا، وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ اپیل کی صورت میں صرف ایک سال معطل رہ سکے گا شریعت ایپلٹ بینچ کے فیصلہ نہ کر سکنے کی صورت میں ایک سال بعد شرعی عدالت کا فیصلہ بحال ہو جائے۔
سینیٹ نے26ویں آئینی ترمیمی بل دوتہائی اکثریت سےمنظورکرلیا
- سپریم کورٹ کاآئینی بینچ تشکیل دیاجائیگا،بل
- جوڈیشل کمیشن آئینی بینچزاورججزکی تعدادکاتقررکرےگا۔
- آئینی بینچزمیں جتناممکن ہوتمام صوبوں سےمساوی ججزتعینات کیے جائیں گے۔
- آرٹیکل184کےتحت ازخودنوٹس کااختیارآئینی بینچزکےپاس ہوگا۔
- آرٹیکل185کےتحت آئین کی تشریح سےمتعلق کیسزآئینی بینچزکےدائرہ اختیارمیں آئیں گے۔
- آئینی بینچ کم سےکم پانچ ججزپرمشتمل ہوگا۔
- آئینی بینچزکےججزکاتقرر3سینیئرترین ججزکی کمیٹی کریگی۔
- چیف جسٹس کا تقررخصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پرکیاجائےگا۔
- پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے3سینیئرترین ججزمیں سےچیف جسٹس کاتقررکرےگی۔
- کمیٹی کی سفارش پرچیف جسٹس کانام وزیراعظم صدرمملکت کو بھجوائیں گے۔
- پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی تعیناتی دوتہائی اکثریت سےکریگی۔
- کسی جج کےانکارکی صورت میں اگلےسینیئرترین جج کانام زیرغورلایا جائےگا۔
- چیف جسٹس کےتقررکےلئے12رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائےگی۔
- پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔
- پارلیمانی کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی چار ارکان سینٹ ہوں گے۔
- چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت3سال ہوگی۔
- چیف جسٹس کےلیےعمرکی بالائی حد65سال مقرر۔
- آرٹیکل184تین کےتحت سپریم کورٹ کوئی ہدایت یاڈیکلریشن نہیں دے سکتی۔
- آرٹیکل186اےکےتحت سپریم کورٹ ہائیکورٹ کےکسی بھی کیس کومنتقل کرسکتی ہے۔
- ججزتقرری کمیشن ہائیکورٹ کےججزکی سالانہ کارکردگی کاجائزہ لے گا۔
- سپریم کورٹ کےججزکاتقررجوڈیشل کمیشن کرےگا۔
- چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں4سینیئرترین ججزشامل ہوں گے۔
- وفاقی وزیرقانون اٹارنی جنرل بھی کمیشن کےارکان ہوں گے۔
- کم سے کم 15 سال تجربےکاحامل پاکستان بارکونسل کانامزدکردہ وکیل2سال کےلیےکمیشن کا رکن ہوگا۔
- 2ارکان قومی اسمبلی اور2ارکان سینٹ کمیشن کاحصہ ہوں گے۔
- سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ خاتون رکن یاغیرمسلم رکن کو بھی2سال کےلیے کمیشن کارکن بنایاجائے گا۔
- آرٹیکل38میں ترمیم کےتحت جس حدتک ممکن ہوسکے1جنوری2028 تک سودکاخاتمہ کیاجائےگا۔
- آرٹیکل48میں ترمیم منظور۔
- وزیراعظم یاکابینہ کی جانب سےصدرمملکت کوبھجوائی گئی ایڈوائس پر کوئی عدالت،ٹریبیونل یااتھارٹی سوال نہیں اٹھاسکتی۔
- شریعت کورٹ میں سپریم کورٹ جج لگایا جاسکے گا۔