خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے دوتہائی اکثریت سے چیف جسٹس پاکستان نامزد کردیا گیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل ہیں۔
28 جون 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج بننے والے جسٹس یحیٰی آفریدی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ کا حصہ رہے جبکہ مخصوص نشستوں کے کیس میں اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا ۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا کیریئر
23 جنوری 1965 کو ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہونے والے یحیٰی آفریدی نے ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی، گورنمٹ کالج لاہور سے گریجویشن جبکہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے معاشایات کی ڈگری لی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کامن ویلتھ اسکالرشپ پر جیسس کالج کیمبرج یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے 1990 میں بطور وکیل پشاور ہائیکورٹ پریکٹس شروع کی، 2004میں سپریم کورٹ کے وکیل کے طورپر وکالت کا آغاز کیا، خیبر پختونخوا کے لیے بطور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی خدمات بھی سرانجام دے چکے ہیں۔
2010 میں پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج مقرر ہوئے اور 15مارچ 2012 کو مستقل جج کا منصب سنبھال لیا۔
30 دسمبر 2016 کو جسٹس یحییٰ آفریدی نے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا۔
جسٹس یحیٰی آفریدی 28 جون 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے اور مختلف مقدمات کی سماعت کی۔
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں لارجر بنچ کا حصہ رہے، اس کیس سے متعلق فیصلے میں اپنا اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا ۔
جسٹس یحییٰ آفریدی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کیلئے بننے والے سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ میں بھی شامل تھے۔