پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ جے یو آئی کی رباع ، سود ، اسلامی نظریاتی کونسل سے متعلق تجویز مانی گئی، پارلیمان ، آئین اور جمہوریت کیلئے کالا سانپ سابق چیف جسٹس پاکستان افتخارچوہدری والی عدالت ہے۔
قومی اسمبلی سیشن میں خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہم نے ججز کو عادت لگوائی تھی کہ چیف تیرے جاں نثار بے شمار بےشمار، پاکستان کےعدالتی نظام کا دنیا میں مذاق بن گیا، عدلیہ وزیر خارجہ طے کر سکتی ہے ، ڈیم بنا سکتی ہے، پکوڑے اور ٹماٹر کی قیمت بھی عدلیہ طے کرے گی، یہ کام عدلیہ نے کرنے ہیں تو وزیراعظم، وزیرخارجہ اور وزیر خزانہ نے کیا کرنا ہے؟ کسی نہ کسی وقت ہم نے یہ دروازہ بند کرنا تھا ، وہ ہم بند کرنے جا رہے تھے۔
پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ جج جج کو لگائے اور جج جج کو ہٹائے، کہتے ہیں سیاستدان کون ہوتے ہیں ، ہم منتخب نمائندےہیں، یہ سمجھتے ہیں ہم نے ان کا اختیار چھینا یہ ہم سے اختیار چھین رہے ہیں، کسی نے ضیاالحق کو نہیں روکا کہ آپ کون ہوتے ہو جج لگانے والے، جج لگانے کا اختیار وزیراعظم سے چھین کر چیف جسٹس کو دیا گیا، خوف تھا خاتون وزیراعظم بینظیر بھٹو جج تعینات کرے گی تو نظام تباہ ہو جائے گا، جب ایک آمر جج لگا رہا تھا تو کیا کسی نے اس کا راستہ روکا؟۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے چیمپئن افتخار چوہدری نے کہا 18 ویں ترمیم باہر پھینک دوں گا، افتخارچوہدری کی دھمکی میں آکر 19 ویں ترمیم کی گئی، آئینی عدالت پر تنقید ہوئی تو اب ہم آئینی بینچ بنانے جا رہےہیں، آئینی عدالت ہو یا آئینی بینچ ، عوام کا کام ہونے جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قائداعظم نے گول میز کانفرنس میں آئینی عدالت کی تجویز دی، قائد اعظم کو ملک کو آئین دینے کا موقع نہیں ملا، قائداعظم نے آئینی عدالت کی سوچ رکھی، اےپی ڈی ایم میں بھی میثاق جمہوریت پیش ہوا تھا ، تمام ارکان نے حمایت کی۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ اپنا اختیار وزرائے اعظم کو فارغ کرنے پر استعمال کرتی ہے، مشرف کویونیفارم میں الیکشن لڑنےکی اجازت عدالت نےدی، ہم آمر کو بھگاتے ہیں تو عدلیہ کو آئین اور جمہوریت یاد آتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن کے دوست کالے سانپ کی بات کر رہے ہیں، پارلیمان ، آئین اور جمہوریت کیلئے کالا سانپ سابق چیف جسٹس پاکستان افتخارچوہدری والی عدالت ہے، اس آئین میں کچھ ترامیم سو فی صد اتفاق رائے سے منظور کی گئی ہیں، پی ٹی آئی سے کہوں گا کہ کم از کم مولانا فضل الرحمان کی ترامیم کو متفقہ طور پر منظور کریں۔