عدلیہ سے متعلق قانون سازی کیلئے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس آج ہوں گے۔ آئینی ترمیم کا بل سپلیمنٹری ایجنڈے کے طور پر پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ حکومت کی جانب سے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
آئینی ترمیم کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے الگ الگ دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ دو تہائی اکثریت کے لیے قومی اسمبلی میں 224 اور سینیٹ میں 63 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں حکومتی نشستوں پر 215 ارکان جب کہ اپوزیشن بنچزپر 101 ارکان موجود ہیں، قومی اسمبلی میں 8 آزاد ارکان بھی ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی ووٹ نہیں کاسٹ کرسکیں گے، جے یوآئی کے8 ارکان ملانے کے بعد بھی مزید 4 ووٹ درکار ہوں گے۔
قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ ن کے 111، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے 70، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 22، استحکام پاکستان پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ق کے چار 4، پاکستان مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کا 1 ایک ایک رکن ہے۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کے 80، پی ٹی آئی حمایت یافتہ 8 آزاد ارکان ، جمیعت علماء اسلام کے 8، بلوچستان نیشنل پارٹی، مجلس وحدت المسلمین اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن ہے۔ آزاد حیثیت سے منتخب ہو کر مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کرنے والے ایک ایک رکن بھی اپوزیشن نشستوں پر ہیں۔
سینیٹ میں حکومتی بنچز پر پاکستان پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19،بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم کے 3 ارکان ہیں۔ حکومتی بنچز پر 2 آزاد سینیٹرز جب کہ 2 ارکان انڈیپنڈنٹ بنچز پر ہیں۔ یوں ایوان بالا میں ان کی مجموعی تعداد54 بنتی ہے، اس لیے آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو مزید 9 ووٹ درکار ہیں۔
سینیٹ میں اپوزیشن بنچز پر پی ٹی آئی کے 17، جے یو آئی کے 5، اے این پی کے 3، سنی اتحاد کونسل ، مجلس وحدت المسلمین ، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کا ایک ایک سینٹر ہے۔ اپوزیشن بنچز پر ایک آزاد سینیٹر بھی ہیں، اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن بنچز پر 31 سینیٹرز موجود ہیں۔