بلوچستان میں اکثر خواتین ووٹ کاسٹ کرنے سے محروم رہ جاتی ہیں، المیہ یہ ہے کہ اس دور جدید میں بھی لوگ پرائمری تعلیم، صحت، بجلی، موبائل نیٹ ورک اور سڑک جیسی بنیادی ضروریات و سہولیات سے محروم ہیں۔
سوراب کے علاقے مغلی کی رہائشی خاتون نے قبائلی روایات کی وجہ سے شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ میری عمر 32 سال ہے لیکن اب تک شناختی کارڈ سے محروم ہوں، شادی سے قبل بھائی اور والد کے ہمراہ تقریباً 4 گھنٹے کا سفر طے کرکے شہر میں واقع نادرا دفتر شناختی کارڈ بنوانے جاتی تو کبھی ٹوکن کا وقت ختم، تو کبھی نادرا اسٹاف کی جانب سے کوئی غیرضروری جواز آڑے آجاتا تھا، دو دفعہ کارروائی مکمل بھی ہوئی لیکن گزیٹڈ آفیسر کے دستخط نہ ہونے کی وجہ سے دونوں فارم آج بھی میرے گھر میں پڑے ہیں۔
خاتون کے مطابق شادی کے بعد شوہر کے ہمراہ مغلی سے سوراب تک کا سفر کر کے نادرا گئی لیکن کسی بھی طرح شناختی کارڈ بنوانے میں کامیاب نہ ہو سکی اور مجبوراً اپنے ضلع سوراب سے میلوں دور خضدار نادرا سینٹر کا رخ کیا لیکن وہاں بھی کوئی پرسان حال نہیں۔
ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں تقریباً 8 لاکھ خواتین شناختی کارڈ سے محروم ہیں اور اس کی وجہ دیہی علاقوں تک نادرا کی اور دیہی خواتین کی نادرا دفاتر تک عدم رسائی ہے۔
محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق کل آبادی میں 47 فیصد یعنی 30 لاکھ سے زائد خواتین میں سے صرف 23 لاکھ خواتین الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہیں، باقی 7 لاکھ سے زائد خواتین شناختی کارڈ سے محروم ہیں، بہ الفاظ دیگر، اتنی بڑی تعداد میں خواتین حق رائے دہی سے محروم رہ جاتی ہیں۔
اس حوالے سے بلوچستان کے مختلف علاقوں کی خواتین سے بات کر کے معلوم ہوا کہ ان میں سے اکثر کو شہر جانے کی اجازت ہی نہیں، شناختی کارڈ کے پیچیدہ طریقۂ کار کی وجہ سے مرد حضرات نہ انہیں نادرا جانے کی اجازت دیتے ہیں اور نہ ہی خود ان کے ساتھ جاتے ہیں۔
غربت: دوسری اہم وجہ
اس کے علاوہ خواتین کے شناختی کارڈ بنوانے کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ غربت ہے، بلوچستان میں خواتین کو ہر جگہ عزت و احترام تو حاصل ہے لیکن انہیں بنیادی حقوق سے محروم بھی رکھا جاتا ہے، پہاڑ سے لکڑی لانے سے لے کر گھر میں پانی، کھانا بنانا، کھیتوں میں کام کرنا اور مویشیوں کیلئے خوراک کا انتظام بھی خواتین کی ذمہ داریوں میں شامل ہے لیکن دوسری جانب تعلیم، لباس اور مناسب خوراک جیسے بنیادی حقوق سے محروم بھی ہیں۔
پاپولیشن کونسل نامی ایک نیم سرکاری ادارے کے مطابق صوبے میں ایک ہزار بچوں میں سےے 47 بچے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل وفات پا جاتے ہیں اور 27 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔
المیہ یہ بھی ہے کہ غربت کا شکار اور بنیادی وسائل سے محروم بلوچستان کے اکثریتی عوام شناختی کارڈ، ووٹ، سڑک اور تعلیم جیسی زندگی کی دیگر بنیادی ضروریات و سہولیات سے لاتعلق بھی ہیں۔
پاکستان میں انتخابات کے دوران خضدار کے پولنگ اسٹیشنز کا رزلٹ سب سے آخر میں آتا ہے، 2018ء میں 4 دن بعد بھی خضدار کے ایک پولنگ اسٹیشن کا رزلٹ نہیں آیا تو ریٹرننگ آفیسر نے اس کے بغیر نتائج کا اعلان کردیا۔
خضدار رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا ضلع ہے لیکن رابطہ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے بعض علاقوں کے لوگوں کو دو دو دن سفر کرنا پڑتا ہے، جہاں تعلیم اور صحت سمیت بنیادی سہولیات کا نام و نشان تک نہیں ہے، لوگ مریضوں کو لاٹھیوں پر باندھ کر میلوں پیدل سفر کرکے ڈاکٹر تک پہنچاتے ہیں۔
بچیوں کی تعلیم
صوبے میں مجموعی طور پر 12 ہزار اسکول ہیں، جن میں سے 6 ہزار اسکولوں میں صرف ایک ٹیچر ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 58 فیصد لڑکیاں اور 38 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں، دیہی علاقوں کی 100 میں سے 6 بچیاں مڈل اسکول پاس کرتی ہیں۔
خواتین بنیادی حقوق سے محروم
بے نظیر بھٹو ویمن سینٹر خضدار کی منیجر روبینہ کریم شاہوانی نے بتایا کہ بہت سی خواتین اپنے کیسز لے کر ہمارے پاس آتی ہیں، ان کے جائیداد، بچوں اور دیگر بنیادی حقوق کے مسائل ہوتے ہیں، عدالت ان کے حق میں فیصلہ بھی دے دیتی ہے لیکن اکثر خواتین شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بنیادی حقوق سے پھر بھی محروم رہ جاتی ہیں۔
سماجی کارکن صباء زہری نے بتایا کہ جب تک خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہوگا، ان کے بنیادی حقوق نظر انداز ہوتے رہیں گے کیونکہ شناختی کارڈ ناصرف ایک شناخت بلکہ بنیادی حقوق رکھنے کی ایک دستاویز بھی ہے۔
سن 2018ء کے عام انتخابات میں بلوچستان میں خواتین کا زیادہ سے زیادہ ٹرن آؤٹ 56 فیصد اور کم سے کم ٹرن آؤٹ کوئٹہ میں 24 فیصد ریکارڈ کیا گیا جبکہ این اے 271 کیچ وہ واحد حلقہ تھا جہاں خواتین ووٹرز کی تعداد زیادہ ریکارڈ کی گئی اور یہی وجہ ہے کہ یہاں سے خاتون امیدوار ہی الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئی۔
اس حوالے سے سابق ایم پی اے یاسمین لہڑی کا کہنا تھا کہ خواتین کو صرف ووٹ کیلئے شناختی کارڈ کی ضرورت نہیں بلکہ صوبے میں پسماندگی ختم کرکے انہیں تمام بنیادی حقوق فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔