سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کیخلاف درخواست پر دو ایک سے فیصلہ سناتے ہوئے نیب ایکٹ کی متعدد ترامیم کالعدم قرار دے دیں،جبکہ بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں درخواست کو مسترد کر دیا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بنچ میں شامل تھے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ترامیم کیخلاف درخواست پر58 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جسٹس سپریم کورٹ عمرعطاء بندیال نے تحریر کیا ہے، جس میں 2 صفحات پرجسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔
عدالت عظمیٰ کے جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ اکثریتی فیصلہ میری عاجزانہ رائےمیں آئینی اصول کیخلاف ہے،آئین کےمطابق ریاست اپنی طاقت اوراختیارعوام کےمنتخب نمائندوں کےذریعےاستعمال کرےگی،اکثریتی فیصلہ اختیارات کے "ٹرائیکوٹومی" کے اصول کو تسلیم کرنے میں ناکام رہا ہے، فیصلہ سیاسی بحث کوسپریم کورٹ منتقل کرنےکےرکن پارلیمنٹ کےغیرآئینی مقصدکاشکارہوا۔
اختلافی نوٹ کے مطابق نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست مستردکرتاہوں،پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے،پارلیمنٹ ہی بنائےہوئے قوانین میں ترمیم یا تبدیلی کرسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:۔ نیب ترمیم سے فائدہ اٹھانے والے سیاستدانوں کے نام سامنے آگئے
جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ کیس میں سوال غیر قانونی ترامیم کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا تھا،گزشتہ رات مجھےاکثریتی فیصلےسے متعلق آگاہ کیا گیا،وقت کی کمی کےباعث فی الحال تفصیلی وجوہات بیان نہیں کررہا۔
قبل ازیں دوران سماعت سپریم کورٹ نے چیرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابل سماعت قرار دیدیا۔عوامی عہدے رکھنے والے سیاستدانوں کے خلاف ریفرنسز بحال ہوگئے۔
فیصلے کے مطابق سروس آف پاکستان سے متعلق نیب شق بحال کردیا گیا۔سپریم کورٹ نے چیرمین پی ٹی آئی کی درخواستیں جزوی طور منظور کر لی۔
عدالتی فیصلے میں کہاگیا ہےکہ ، 500 ملین کی حد تک کے ریفرنس نیب دائرہ کار سے خارج قرار دینے کی شق کالعدم قرار دی جاتی ہے تاہم سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شقیں برقرار رکھی جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں :۔ نیب ایکٹ کالعدم: پی پی رہنماؤں کے درجنوں کیسز دوبارہ کھل گئے
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں، عوامی عہدوں کے ریفرنس ختم ہونے سے متعلق نیب ترامیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں، نیب ترامیم کے سیکشن 10 اور سیکشن14 کی پہلی ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ترامیم کے تحت دیئے گئے احتساب عدالتوں کے ریلیف کالعدم قرار دے دئیے گئے۔کم سے کم 50کروڑ کی شرط والی شق کالعدم قرار دئیے گئے۔جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے سے اختلاف کیا۔فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنایا گیا
عدالتی فیصلے کے مطابق آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں کرپشن کا بار ثبوت استغاثہ پر منتقل کرنے کی شق بھی کالعدم قراردیدی۔بے نامی کی نئی تعریف سے متعلق نیب ترمیم بھی کالعدم قرار دیدیا۔
فیصلے سے اسحاق ڈار کا کیس بھی دوبارہ کھلنے کا امکان ہے۔شاہد خاقان عباسی کا کیس واپس احتساب عدالت کو منتقل ہوگا۔نواز شریف، زرداری اور یوسف رضا گیلانی کا توشہ خانہ کیس واپس احتساب عدالت کو منتقل ہوگا۔
سپریم کورٹ نے سات دن میں مقدمات کا ریکارڈ واپس عدالتوں کو منتقل کرنے کا حکم دیدیا۔نیب ترامیم کالعدم ہونے سے نوازشریف کیخلاف توشہ خانہ کیس بحال ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیں :۔نیب ترامیم کیس کا فیصلہ متنازعہ ہے اور متنازعہ بینچ کا فیصلہ ہے، رانا ثنااللہ
آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کیخلاف بھی توشہ خانہ کیس بحال ہوگا۔اس کے علاوہ آصف زرداری کیخلاف پنک ریزیڈنسی ریفرنس بھی بحال ہوگیا۔راجہ پرویز اشرف، عبدالغنی مجید اور انور مجید کے مقدمات بھی بحال ہوگئے۔
نیب ترامیم 2022 کو چئیرمین پی ٹی آئی نے چیلنج کیا تھا۔نیب ترامیم کیس پر 55 سماعتیں ہوئیں۔سپریم کورٹ نے 5 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی نمائندگی خواجہ حارث نے کی تھی۔حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے درخواست کی مخالفت کی تھی۔ اٹارنی جنرل نے بھی درخواست کی مخالفت کی تھی۔