ویسے تو پاکستان کے ہر پسماندہ علاقے میں ہی غریب، بے بس اور بے کس عوام ظلم، زیادتی اور ناانصافی کا شکار نظر آتے ہیں لیکن سندھ کے شہر حیدرآباد میں صورتحال بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے، یہ شہر چوڑیوں، ربڑی، کیک، بریانی اور پلاؤ وغیرہ کے حوالے سے جانا، پہچانا جاتا ہے لیکن آج کل ڈینگی اور ملیریا کے حوالے سے بھی خوب شہرت پارہا ہے۔
حیدر آباد میں آئے دن مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ ڈینگی اور ملیریا جیسے امراض کے پھیلنے کی کیا وجوہات ہیں یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں لہٰذا اس پر بات کرنے سے اچھا ہے کہ "کرپشن" پر بات کرلی جائے۔ آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ ڈینگی اور ملیریا میں کرپشن کہاں سے آگئی؟۔ تو بھئی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں بیماریوں کا علاج اسپتالوں میں ہوتا ہے، مریض اسپتال جاتے ہیں، وہاں انہیں قابل ڈاکٹرز دیکھتے ہیں، اگر انہیں ایڈمٹ کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے تو پھر وہ مریض اسپتال میں ہی روک لئے جاتے ہیں، ورنہ ادویات لے کر اور ضروری ٹیسٹ کروا کر واپس آجاتے ہیں، اور یوں وہ بالآخر شفایاب ہو جایا کرتے ہیں۔
لیکن بھائی جان، ہمارے یہاں کے تو معاملات ہی کچھ الگ ہیں، اوّل تو غریب لوگ اسپتال جا ہی نہیں پاتے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں اُن کی کیا دُرگت بننی ہے!، پرائیوٹ اسپتالوں میں جانے کے پیسے ان کے پاس نہیں ہوتے لہٰذا ایسے غریب مریضوں کی بڑی تعداد پیروں، فقیروں، حکیموں اور دیسی ٹوٹکوں پر ہی انحصار کئے رکھتی ہے۔ پھر جو لوگ اسپتال چلے بھی جاتے ہیں وہ گھنٹوں لائنوں میں دھکے کھانے کے بعد جس ڈاکٹر کے پاس پہنچتے ہیں وہ ان سے سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتا، لیکن پھر بہرحال بات ہو ہی جاتی ہے اور معائنے کے بعد جب وہ ڈاکٹر انہیں دوائیاں اور ٹیسٹ لکھ کر دیتا ہے تو ساتھ یہ بھی بتا دیتا ہے کہ دوائیاں باہر سے ملیں گی اور ٹیسٹ بھی باہر سے ہی ہوں گے، یہ سننے کے بعد مریض اسپتال سے باہر نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
پھر دوسری جانب مریضوں کے اندر رہنے کی بھی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی کیونکہ اسپتال پہلے ہی کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں، نئے داخل ہونیوالے مریضوں کو "ہاؤس فُل" کا کہہ کر واپسی کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے۔ اب اگر آپ بغور ان تمام معاملات کا مشاہدہ کریں تو بالآخر سارے تانے، بانے کرپشن سے ہی ملتے نظر آئیں گے۔
کرپشن کے ساتھ ساتھ، اب واپس آجائیے حیدرآباد میں پھیلنے والے ڈینگی اور ملیریا پر، ان مخصوص امراض کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ درست میپنگ کا نہ ہونا بھی ہے۔ 34 لاکھ سے زائد آبادی والے شہر کے فقط 4 اسپتالوں میں ڈینگی وارڈز قائم کئے جانے کی اطلاعات ہیں، جبکہ حیدرآباد کے کئی گنجان آباد علاقے ایسے ہیں کہ جہاں یہ وارڈز قائم ہی نہیں کئے گئے اور وہاں متاثرہ لوگوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔
دوسری جانب اُن تمام گھروں میں کہ جہاں متاثرہ افراد موجود ہیں، جراثیم کش اسپرے نہیں ہورہا، ناصرف گھروں بلکہ شہر بھر میں اسپرے نہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔ حیدرآباد میں جہاں کہیں بھی گندہ، غلیظ پانی کھڑا ہے وہ وہیں کھڑا کا کھڑا ہی ہے، اسے ٹھکانے لگانے کی کسی کو کوئی فکر نہیں، متعدد کچرا کنڈیوں میں کچرا پڑے پڑے سڑ رہا ہے اور اُسے اُٹھائے جانے کی بھی کوئی خیر خبر نہیں ہے۔
یہاں یہ خبر بھی اہم ہے کہ حیدرآباد کے جن اسپتالوں میں ڈینگی وارڈز بنائے گئے ہیں ان میں بستروں کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ اب اگر روازنہ کی بنیاد پر 100 سے ڈیڑھ سو لوگ، 5 سے 10 بستروں والے ایک وارڈ میں آجاتے ہیں اور ان میں سے 50 مریضوں کو اگر داخل کرنا مقصود ہو اور وہ بھی اس صورتحال میں کہ جہاں تمام بیڈز پہلے ہی سے مریضوں سے بھرے ہوں، تو پھر کیا ہو؟، بھئی اس کا جواب تو حیدرآباد کی انتظامیہ ہی دے سکتی ہے لیکن یہاں ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ ڈینگی کا ٹیسٹ جو کہ حیدرآباد میں کم از کم 400 سے شروع ہے، غریب عوام کے پاس وہ پیسے بھی نہیں ہیں، ان کے پاس تو بس فری میں ملے ہوئے " پپیتے کے پتّے" ہی ہیں، جسے ڈاکٹر کھانے سے منع کرتے ہیں، اب ایسی صورتحال میں غریب جائیں تو جائیں کہاں؟۔ پھر دوسری جانب میڈیا نمائندگان جب محکمہ صحت کے دفتر جاتے ہیں تاکہ سندھ بھر میں ڈینگی اور ملیریا سے متعلق صحیح اور درست اعداد و شمار کا معلوم کرسکیں تو انہیں بس صرف یہ بتادیا جاتا ہے کہ "پچھلے سال کی نسبت کیس کم ہیں"۔ ارے بھئی یہ کیا جواب ہوا؟ یعنی اگر پچھلے سال کیسوں کی تعداد بالفرض 10 لاکھ تھی تو کیا اس سال 9 لاکھ نناوے ہزار نو سو ننانوے ہے؟ جو کہ 10 لاکھ سے واقعی کم ہے!۔
حقیقت یہ ہے کہ شعبہ صحت کو نجی اسپتالوں میں آنیوالے مریضوں کے اعداد وشمار کا تو کیا خیر ہی پتہ ہوگا ان کے پاس سرکاری اسپتالوں میں آنے والے مریضوں کا درست ریکارڈ بھی نہیں ہے۔
بہرحال، اب اگر ناصرف حیدرآباد بلکہ پورے سندھ کے غریب اور مفلوک الحال عوام کی صحت میں بہتری لانا مقصود ہو تو سب سے پہلے تو ایماندارانہ طرزِ عمل کو اپنائے جانے کی ضرورت ہے، اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ فرائض کی ادئیگی، کرپشن کا خاتمہ کر دے گی۔ پھر اس کے بعد ایک ایسی مؤثر حکمتِ عملی وضع کرنا ہوگی کہ جس سے ناصرف ملیریا اور ڈینگی بلکہ آج کل پھیلنے والے دیگر امراض جیسے کھانسی، گلے کی سوزش، نزلہ، سانس لینے میں دشواری، گھُٹن اور نیگلیریا وغیرہ پر قابو پایا جاسکے، بس پھر صحت بھی صحیح ہو جائے گی اور صحت کا شعبہ بھی!۔