سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے سابق جج مظاہر علی اکبر نقوی کومس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے صدر مملکت کو انہیں عہدے سے ہٹانے کی سفارش کر دی۔
اعلامیہ کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز پر الزامات لگا کر ان کی تشہیرکی گئی ،کئی ججز نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر تشویش کا اظہار کیا۔ججز کا مؤقف ہےکہ بے بنیاد الزامات پر جواب سے ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی شق 5 کی خلاف ورزی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں:۔مستعفی جج مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی مکمل
جاری اعلامیہ کے مطابق کونسل مشاورت کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ بےبنیاد الزامات کا جواب دینے سے شق 5 کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، ججز کی تشویش کے باعث ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی شق 5 میں ترمیم کی گئی ہے۔جس کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کے جج کو کسی الزام تراشی کا جواب دینے کی اجازت دیدی ہے۔ججزوضاحت کریں تواسےشہرت حاصل کرنے کیلئے اقدام قرارنہیں دیاجائےگا۔
اعلامیہ میں بتایا گیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے بلوچستان ہائیکورٹ کے ایک جج کو نوٹس جاری کردیا ہےاورکونسل میں دائر شکایت پر جواب طلب کر لیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں :۔سپریم کورٹ کے جج مظاہر نقوی نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا
اعلامیہ کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے ججز کے خلاف 6 مختلف شکایات کا جائزہ لیا، 6 میں سے 5 شکایات میں ایسا کوئی مواد نہیں تھا جس پرکونسل کارروائی کرے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے مطابق آئین کےآرٹیکل 206 کی شق (6) کے تحت مظاہر نقوی کے خلاف 9 شکایات کا جائزہ لیا گیا، مظاہر علی اکبرنقوی ان شکایات میں مس کنڈکٹ کےمرتکب پائےگئے، مظاہر نقوی کو جج کے عہدے سے ہٹا دینا چاہیے تھا۔
یہ بھی پڑھیں:۔سپریم جوڈیشل کونسل کی جسٹس مظاہرکوشوکازکا جواب دینے کیلئے یکم جنوری تک کی مہلت
واضح رہے کہ 2020 میں سپریم کورٹ کے جج کا عہدہ سنبھالنے والے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا نام ایک مبینہ آڈیو لیک میں سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں پاکستان بار کونسل سمیت دیگر کی جانب سے مس کنڈکٹ کے الزام پر متعدد درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے لائرز فورم پنجاب کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر ججوں کے ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔اور لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل میاں داؤد نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے ان کے اثاثوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:۔جسٹس مظاہرعلی کودوسرے شوکازنوٹس پرجسٹس اعجازالاحسن کااختلافی نوٹ
وکیل میاں داؤد کی جانب سےریفرنس میں کہا گیا تھا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے بچوں کی بیرون ملک تعلیم اور ایک تاجر زاہد رفیق سے ’مالی فائدہ‘ حاصل کرنے کیلئے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا، جج پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کھلے عام ظاہر کرتے ہیں، وہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف خطرناک ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔
جس کے بعد قومی اسمبلی نے آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات پر جسٹس مظاہر علی نقوی کا کیس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔ جبکہ سپریم کورٹ میں شکایات جمع ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل کے اس وقت کے سربراہ اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے جسٹس سردار طارق مسعود سے رائے طلب کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:۔جسٹس مظاہر نقوی کا جوڈیشل کونسل کی کارروائی اوپن کرنے کا مطالبہ
یاد رہے کہ جسٹس مظاہر علی نقوی نے اس سے قبل سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط میں اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی مہم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ میرے خلاف غیر سنجیدہ شکایات درج کی گئی ہیں جو عدلیہ کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم کا حصہ ہیں۔سپریم کورٹ کے جج نے لکھا تھا کہ الزام لگایا گیا ہے کہ جائیداد ریونیو ریکارڈ اور انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کی گئی قیمت کے مقابلے میں قیمت سے زیادہ ہے۔
جس پر جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا تھا کہ دنیا کی عدالتیں صدیوں سے اس بنیادی اصول پر کام کر رہی ہیں کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ مجھے میرے معاملے میں ایسا نظر نہیں آتا۔