سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کالعدم قرار دیدی، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی ختم کردی گئی۔ عدالت نے جمعہ کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا۔ سپریم کورٹ نے چھ ایک کے تناسب سے فیصلہ سنایا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ سپریم کورٹ نے سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ ختم کردیا، چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی نہیں ہوگی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے 7 رکنی بینچ نے تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کی، جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھیں۔
باسٹھ ون ایف کے تحت ڈیکلیئریشن ختم ہوچکے،اٹارنی جنرل
سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعہ کو سماعت مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، کیس میں 25 سے زائد وکلاء اور معاونین نے دلائل دیئے تھے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ براہ راست سنایا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کو کالعدم قرار دیدیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہنا ہے کہ سیاستدانوں کی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی نہیں ہوگی۔
منافق کافر سے زیادہ خطرناک ، آمروں نے صادق و امین کی شرط اپنے لیے کیوں نہ رکھی ؟، چیف جسٹس
اکثریتی تحریری فیصلہ
سپریم کورٹ کا آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کا مختصر اکثریتی فیصلہ 7 آئینی و قانونی نکات کی بنیاد پر جاری کیا گیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف کوئی ازخود لاگو ہونے والی شق نہیں، یہ آرٹیکل نااہلی کے ڈیکلیریشن اور مدت کے تعین کا طریقہ نہیں بتاتا، 62 ون ایف کے تحت آرٹیکل 10 اے، شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے کرنے کا طریقۂ کار موجود نہیں۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی ختم کردی، الیکشن ایکٹ کا قانون فیلڈ میں ہے، الیکشن ایکٹ کے تحت نااہلی کی مدت 5 سال ہے جسے پرکھنے کی ضرورت نہیں، سمیع اللّٰہ بلوچ کا فیصلہ "اووررول" کیا جاتا ہے۔
ثاقب نثار نے نواز شریف کو سزا دینے کیلئےغیر آئینی فیصلہ دیا تھا ، مریم اورنگزیب
فیصلے میں کہا گیا کہ عدالتی ڈیکلریشن کے ذریعے 62 ون ایف کی تشریح دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے، عدالتی ڈیکلیریشن دینے کے حوالے سے کوئی قانونی طریقۂ کار موجود نہیں ہے۔
فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی قانون بھی نہیں ہے جو 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے ڈیکلریشن کی مجاز عدالت کا تعین کرے، 62 ون ایف کے تحت آرٹیکل 10 اے، شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے کرنے کا طریقہ کار موجود نہیں، 62 ون ایف کے تحت تاحیات کسی کی نااہلی والی تشریح اس آرٹیکل کے اسکوپ سے باہر ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایسی تشریح شہریوں کے انتخابات میں حصہ لینے اور پسند کے امیدوار کو ووٹ دینے کے بنیادی حق کو ختم کرتی ہے، ایسی تشریح آئین کے آرٹیکل 17 میں درج حقوق کے خلاف ہے، جب تک کوئی قانون 62 ون ایف کو قابل عمل بنانے نہیں آتا اس کی حیثیت 62 ون ڈی، ای اور جی جیسی ہی ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا، سپریم کورٹ نے 6 ایک کے تناسب سے فیصلہ سنایا۔
نااہلی کی مدت سے متعلق کیس، ’’ اگر یہ تمام شرائط پہلے ہوتیں تو قائد اعظم بھی نااہل ہو جاتے ‘‘ ، چیف جسٹس
جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا اور کہا کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات بھی نہیں ہے، نااہلی عدالتی فیصلہ موجود ہونے تک ہے، سمیع اللہ بلوچ فیصلہ درست تھا۔
تاحیات نااہلی کے قانون میں ترمیم کیخلاف سماعت کا تحریری حکم جاری
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور آئی پی پی کے سربراہ جہانگیر خان ترین انتخابات کیلئے اہل قرار دیدیا۔
عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر قومی اخبارات میں اشتہار بھی شائع
اٹانی جنرل
اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے کہا ہے باسٹھ ون ایف کے تحت ڈیکلیئریشن ختم ہوچکے،پانچ سالہ نااہلی کے قانون پراب عمل نہیں ہوگا
انہوں نے کہا کہ نااہلی کی مدت سے متعلق فیصلہ سپریم کورٹ مکمل قانون سامنے آنے پرکرے گی ۔
چیف جسٹس پاکستان کے کیس کے دوران ریمارکس
پورا پاکستان 5 سال نااہلی کے مدت کے قانون سے خوش ہے۔
پانچ جینٹلمین کی دانش 326 کی پارلیمان پر کیسے غالب آسکتی ہے، پارلیمنٹ کے فیصلے کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے، آئین میں کہاں لکھا ہے کہ نااہلی کی سزا تاحیات ہوگی۔
ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ جب موڈ میں ہوں تو تاحیات نااہل کردیں اور جب موڈ نہ ہو تو نااہلی ختم کر دیں۔
پارلیمنٹ نے مدت نہیں لکھی تو نااہلی تاحیات کیوں؟، تاحیات نااہل کرنا اسلام کیخلاف ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے تھے کہ منافق کافر سے زیادہ خطرناک ہے، سوال اٹھایا کہ آمروں نے صادق و امین کی شرط اپنے لیے کیوں نہ رکھی؟، اگر قانون سازوں نے کوئی خلاء چھوڑا ہے تو اسے کیسے پُر کیا جائے گا؟ 8 فروری کو الیکشن ہورہے ہیں کوئی کنفیوژن نہ پھیلائی جائے، کوشش ہے کہ تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ جلد کیا جائے۔