سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت سے متعلق کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی ہے جبکہ دوران سماعت اہلیت سے متعلق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ’’ اگر یہ تمام شرائط پہلے ہوتی تو قائد اعظم بھی نااہل ہو جاتے ‘‘۔
منگل کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سات رکنی بینچ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
اٹارنی جنرل کی حمایت
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے نااہلی کی مدت الیکشن ایکٹ کے تحت 5 سال تک محدود کرنے کی حمایت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا 5 سال کرنے کی قانون سازی کو سپورٹ کر رہے ہیں، تاحیات نااہلی کی مدت کے فیصلے پر نظر ثانی ہونی چاہیئے۔
اٹارنی جنرل نے آئین کا آرٹیکل 62،63 اور رکن پارلیمنٹ بننے کے لیے اہلیت اور نااہلی کی تمام آئینی شرائط پڑھ کر عدالت میں سنائیں اور کہا کہ کاغذات نامزدگی کے وقت 62 اور 63 دونوں شرائط دیکھی جاتی ہیں، انٹری پوائنٹ پر دونوں آرٹیکل لاگو ہوتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کچھ شقیں تو حقائق سے متعلق ہیں وہ آسان ہیں، کچھ شقیں مشکل ہیں جیسے اچھے کردار والی شق، جواباً اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم کہہ سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اچھے کردار کے ہیں؟ جس پر عدالت میں قہقے لگ گئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اسلامی تعلیمات کا اچھا علم رکھنا بھی ایک شق ہے، پتہ نہیں کتنے لوگ یہ ٹیسٹ پاس کرسکیں گے، آئین یہ بھی نہیں کہتا تھا اپ کو رکن اسمبلی بننے کے لیے گریجویٹ ہونا لازم ہے، بعد میں ایک ایسا قانون شاید پرویز مشرف کے زمانے میں آیا تھا، سمیع اللہ بلوچ کیس میں سپریم کورٹ نے کہا چونکہ نااہلی کی مدت مقرر نہیں اس لیے تاحیات ہے۔
ایڈووکیٹ جنرلز کی اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ ممکن ہے ہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ٹچ کئے بغیر اس 5 سال نااہلی والے قانون کو بھی مان لیں ؟، انہوں نے سوال کیا کہ درخواست گزاروں میں سے کون کون تاحیات نااہلی کی حمایت کرتا ہے؟ جس پر درخواست گزار ثناء اللہ بلوچ، ایڈووکیٹ خرم رضا اور عثمان کریم نے تاحیات نااہلی کی حمایت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے پر ایڈوکیٹ جنرلز کا مؤقف بھی لے لیتے ہیں، آپ اٹارنی جنرل کے موقف کی حمایت کرینگے یا مخالفت؟ جس پر انہوں نے اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ایکٹ کی یہ ترمیم چیلنج نہیں ہوئی، جب ایک ترمیم موجود ہے تو ہم پرانے فیصلے کو چھیڑے بغیر اس کو مان لیتے ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تاثر ایسا جا سکتا ہے کہ ایک قانون سے سپریم کورٹ فیصلے کو اوور رائٹ کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تو کیا اب ہم سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو دوبارہ دیکھ سکتے ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں عدالت نے ایک نقطے کو نظر انداز کیا، عدالت نے کہا کرمنل کیس میں بندہ سزا کے بعد جیل بھی جاتا ہےس لیے نااہلی کم ہے، عدالت نے یہ نہیں دیکھا ڈیکلیریشن باسٹھ ون ایف اور کرمنل کیس دونوں میں ان فیلڈ رہتا ہے۔
کسی کے کردار کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کسی کے کردار کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے؟ ، اسلامی معیار کے مطابق تو کوئی بھی اعلی کردار کا مالک ٹھہرایا نہیں جا سکتا، ہم تو گنہگار ہیں اور اللہ سے معافی مانگتے ہیں، آرٹیکل 62 میں نااہلی کی مدت درج نہیں بلکہ یہ عدالت نے دی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک عدالتی فیصلے موجود ہیں تاحیات نااہلی کی ڈیکلریشن اپنی جگہ قائم ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ایکٹ بھی تو لاگو ہو چکا اور اس کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کہ کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں ردوبدل ممکن ہے؟۔
ہم ایک بنیادی اصول قائم کرنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک طرف لکھا ہے جھوٹ بول دیا تو پوری عمر کیلئے نااہل ہے، دوسری جانب قتل کر دیا ، غداری کر دی تو بھی کچھ عرصے بعد واپس آ جائے گا؟ جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم ایک بنیادی اصول قائم کرنا چاہتے ہیں ذاتیات میں نہیں جائیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کرنے کیلئے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی؟ ، کیا آئین میں جو لکھا ہے اسے قانون سازی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی معیاد کا ذکر نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا جب تک عدالتی فیصلہ موجود ہے نااہلی تاحیات رہے گی جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ قتل اور ملک سے غداری جیسے سنگین جرم میں آپ کچھ عرصے بعد انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔
معمولی وجوہات کی بنیاد پر تاحیات نااہلی غیر مناسب نہیں لگتی؟ جسٹس منصور
جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ معمولی وجوہات کی بنیاد پر تاحیات نااہلی غیر مناسب نہیں لگتی؟ عدالت کسی شخص کے خلاف ڈیکلریشن کیسے دے سکتی ہے؟ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا سپریم کورٹ نے ڈیکلریشن ازخود اختیار استعمال کر کے دی؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62 ون جی اور آرٹیکل 63 ون جی کی زبان ایک سی ہے، آرٹیکل 63 ون جی کے تحت ملکی سالمیت اور نظریے کی خلاف ورزی کرنے والے کی نااہلی پانچ سال کی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اگر ایک شخص کے خلاف مقدمہ ہو تو وہ 2سال سزا کاٹ کر واپس آ سکتا ہے، مگر ایک شخص کے خلاف مقدمہ نا ہو بلکہ ڈیکلریشن آ جائے تو وہ دوبارہ آ ہی نہیں سکتا۔
ڈیکلریشن کا مقصد آر او کے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق دینا تھا، اٹارنی جنرل
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کوئی شخص حلفیہ طور پر کہہ سکتا ہے وہ اچھے کردار کا مالک ہے؟ جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ اگر ایک شخص 20 سال بعد سدھر جاتا ہے اور عالم بن جاتا ہے تو کیا اس کا کردار اچھا ہو جائے گا؟، اگر آج سے پہلے کسی نے ملک مخالف تقریر کر دی تو وہ آج بھی انتخابات نہیں لڑ سکتا؟۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ اگر کوئی شخص توبہ کر کے عالم یا حافظ بن جاتا ہے تو بھی برے کردار پر تاحیات نااہل رہے گا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 18ویں آئینی ترمیم میں عدالت سے ڈیکلریشن دینے کا مقصد ریٹرننگ افسر کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینا تھا۔
مسلمان صادق و امین کے لفظ آخری نبیؐ کے سوا کسی کیلئے استعمال نہیں کر سکتا
چیف جسٹس کی ہدایت پر اٹارنی جنرل نے آرٹیکل 62 ون ڈی پڑھا کہ اگر کوئی شخص اچھے کردار کا مالک ہو اور اسلامی احکامات کی خلاف ورزی نہ کرے تو اہل ہے، جس پر چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ اچھا کردار کیا ہوتا ہے؟ اگر اچھے کردار والا اصراف نہیں کرسکتا تو پھر وضو کے وقت پانی ضائع کرنے والا بھی نااہل ہے، ایک مسلمان صادق اورامین کے لفظ آخری نبیؐ کے سوا کسی کے لیے استعمال کر ہی نہیں سکتا، اگر میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے جاؤں اور کوئی اعتراض کرے کہ یہ اچھے کردار کا نہیں تو مان لوں گا، ہم گنہگار ہیں تبھی کوئی مرتا ہے تو اس کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں، اگر یہ تمام شرائط پہلے ہوتی تو قائداعظم بھی نااہل ہو جاتے۔
جب غیر منتحب لوگ قوانین بنائیں گے تو ایسے ہی ہوگا، جسٹس جمال مندو خیل
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسسار کیا کہ ڈیکلریشن دینے کا کیا طریقہ کارہے جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 63 ون جی اور 62 ون ایف دونوں کی تعریف ایک جیسی ہی معلومات ہوتی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بغیر ایف آئی آر یا مقدمے کے بھی آرٹیکل62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا کوئی شخص حلف پر یہ بیان دے سکتا ہے کہ وہ اچھے کردار کا مالک ہے، اسلام میں بھی توبہ کی گنجائش ہے، اگر آپ وضو کرتے وقت زیادہ پانی ضائع کرتے ہیں تو یہ بھی حدیث کی نفی ہے، جو اہلیت کا سخت معیار پارلیمنٹرین کے لیے ہے وہ ہمارے لیے تو نہیں ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ جب غیر منتحب لوگ قوانین بنائیں گے تو ایسے ہی ہوگا۔
صدر سپریم کورٹ بار
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ فوجداری مقدمات میں عدالت کسی شخص کو جھوٹا قرار دے کہ اس نے عدالت کو گمراہ کیا تو اس پر آرٹیکل 62 ون ایف لگے گا؟ ، کل وہ شخص انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا کہ کوئی اعتراض کردے گا تمہیں عدالت نے جھوٹا قرار دیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت صاحب سول کیسز کے ماہر ہیں ان سے رائے لیتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ شہزاد شوکت صاحب آپ قانون کی حمایت کررہے ہیں یا مخالفت ؟۔
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ میں قانون کی حمایت کرتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وہ کون ہے جو قانون کی مخالفت کررہا ہے، ہم سننا چاہتے ہیں۔
وکیل درخواست گزار عثمان کریم
دوران سماعت وکیل درخواست گزار عثمان کریم روسٹرم پر آئے اور موقف اختیار کیا کہ جب تک سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ موجود ہے قانون نہیں آسکتا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ تاحیات نااہلی کے حق میں ہیں یا مخالفت میں ؟ جس پر عثمان کریم نے کہا کہ میں تاحیات نااہلی کے تب تک حق میں ہوں جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔
چیف جسٹس نے وکلاء سے استفسار کیا کہ اور کون اس قانون کی مخالفت کرتا ہے جس پر سمیع اللہ بلوچ کے بھائی ثنااللہ بلوچ روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میں متاثرہ فریق ہوں میں عدالتی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسی باتیں مت کریں، یہ عدالتی بالادستی کیا ہوتی ہے، میں نے آئینی بالادستی کا تو سنا تھا۔
ثناء اللہ بلوچ نے کہا کہ آرٹیکل ب62 اور تریسٹھ 50 سال سے آئین میں موجود ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کہ آئین میں لکھا ہے جھوٹ کی بنیاد پر تاحیات نااہلی ہوگی، قتل اور غداری جیسے کیسز میں کچھ عرصہ کی نااہلی کے بعد انتخابات میں حصہ لیا جاسکتا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے وکیل ثنا اللہ کو ہدایت کی کیس کو چھوڑیں ، آپ اپنی رائے بتائیں جس پر انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی انتخابی عمل کے انٹری پوائنٹ پر ہی جھوٹ بولے ہیں تو اس پر تاحیات نااہلی ہوگی۔
جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 24 سالہ شخص انتخابات لڑنے کیلئے اپنی عمر 25 سال بتائے تو تاحیات نااہلی ہوگی؟
1985 میں آئین روندنے والے آمر نے آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین میں شامل کیا، چیف جسٹس
استحکام پاکستان پارٹی ( آئی پی پی ) کے پیٹرن انچیف جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی نے دلائل دیئے کہ آرٹیکل62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت 5 سال کرنے کے حق میں ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 1985 میں آئین کو روندنے والے فوجی آمر نے آرٹیکل 62اور 63 کو آئین میں شامل کیا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ بھی ہے کہ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 62اور 63 پر مہر لگائی گئی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کیسے آئین میں اہلیت کا معیار مقرر کرسکتا ہے؟ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ صرف صوبوں کے مابین تنازعات پر ڈیکلریشن دے سکتی ہے۔
ثناء اللہ بلوچ نے موقف اختیار کیا کہ 50 سال سے قانون میں اراکین کی اہلیت کا معیار طے ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پھر اس سے پہلے کوئی 62 ون ایف کے تحت نا اہل کیوں نہ ہوا؟ جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ جھوٹ بولنے پر سزا تاحیات ہے، قتل یا غداری پر سزا محدود ہے اور وہ الیکشن بھی لڑسکتا ہے، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
کیا ضیاالحق کا اپنا کردار اچھا تھا؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ایک شخص کو ایک بار سزا مل گئی تو بات ختم کیوں نہیں ہو جاتی؟ ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ سزا کاٹ لینے کے بعد بھی کبھی انتخابات نہ لڑ سکے؟ آئین میں ہر سزا کی مدت ہے تو نااہلی تاحیات کیسے ہو گئی؟۔
مخدوم علی خان
جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آئے جس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ آرٹیکل 62 میں یہ شقیں کب شامل کی گئیں؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ آرٹیکل 62 آئین پاکستان 1973 میں سادہ تھا، آرٹیکل 62 میں اضافی شقیں صدارتی آرڈر 1985 سے شامل ہوئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یعنی ضیاء نے یہ کردار سے متعلق شقیں شامل کرائیں، کیا ضیاالحق کا اپنا کردار اچھا تھا؟، ستم ظریفی ہے کہ آئین کے تحفظ کی قسم کھا کر آنے والے خود آئین توڑ دیں اور پھر یہ ترامیم کریں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 62 اور 63 پر مہر لگائی گئی۔
مخدوم خان نے دلائل دیئے کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 اور 63 کو الگ الگ دیکھ کر غلط کیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کے فیصلے میں سقم ہے؟ اب قانون کا اطلاق ہوگا۔
چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ آپ کیوں نااہل ہوئے؟ جس پر مخدوم خان نے جواب دیا کہ مس ڈیکلریشن کی بنیاد پر میرے مؤکل کی نااہلی ہوئی، سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا پہلے مرحلے میں ایک فیصلہ دیا، دوسرے مرحلے میں اس فیصلے کو بغیر وجہ بتائے تبدیل کر دیا گیا، ایک جج نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت تاحیات مقرر کی، ان جج صاحب نے فیصل واوڈا کیس میں اپنی رائے تبدیل کرلی۔
آج کی سماعت کا حکنامہ
چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوایا کہ تاحیات نااہلی کی حمایت میں کوئی بھی بات کرنا چاہے ہم سنیں گے، آئندہ سماعت پر کیس ختم کرنے کا پلان رکھتے ہیں، سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ نہ ہوتا تو ہم کیس کا معاملہ طے کرتے تو کیا ہوتا؟ ہم آج کہہ سکتے تھے کہ آرٹیکل 62 ون ایف میں مدت کا تعین نہیں، تو ہم باقی شقوں کی طرح اس کی بھی 5 سال مدت رکھ دیتے۔
چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے مکالمہ کیا کہ مخدوم صاحب کوئی نظیر بتائیں جب نیا قانون بننے سے پرانا فیصلہ غیرمؤثر ہوا ہو؟ جس پر انہوں نے کہا کہ عدالت مجھے اجازت دے تو میں مزید دستاویزات کے بنڈل فائل کردیتا ہوں۔
ہم اہلیت اور نااہلی تک ہی محدود رہیں گے، چیف جسٹس
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم نے آپ کو نیب کیس میں بھی کہا تھا کہ اپنا آئی پیڈ ہی دے دیں۔
ثاقب جیلانی نے سوال اٹھایا کہ عدالت یہ معاملہ بھی دیکھ لے کہ سزا معطلی سے نااہلی ختم ہوتی ہے یا نہیں؟ جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ نہیں ، ہم زیر التوا کیسز میں نہیں جائیں گے، ہم اہلیت اور نااہلی تک ہی محدود رہیں گے، ہم میڈیا یا سوشل میڈیا کو کنٹرول نہیں کر سکتے، موجودہ کیس سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ عدالت کسی مخصوص جماعت کی حمایت کر رہی ہے، ایک آئینی مسئلہ ہے جس کو ایک ہی بار حل کرنے جا رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کوشش ہوگی کہ 4 جنوری کو کیس کی سماعت مکمل کریں، مشاورت کے بعد عدالتی معاون بھی مقرر کر سکتے ہیں۔