تاحیات نااہلی پر سپریم کورٹ کے فیصلے اور الیکشن ایکٹ میں تضاد کے معاملے میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر قومی اخبارات میں اشتہار بھی شائع کر دیا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ عدالتی فیصلے کا اثر آئندہ عام انتخابات میں امیدواروں پر بھی ہو سکتا ہے۔
اشتہار کے متن کے مطابق آرٹیکل 62 ون ایف اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 232 کے تحت نااہلی کی مدت کا سوال اٹھا، عدالتی فیصلے کا اثر آئندہ عام انتخابات میں امیدواروں پر بھی ہو سکتا ہے، خواہشمند امیدوار چاہیں تو سپریم کورٹ میں جامع تحریری جواب جمع کرا سکتے ہیں۔ مذکورہ اپیلوں اور دیگر مقدمات کی سماعت 2 جنوری 2024ء کو 7 رکنی بینچ کرے گا۔
یاد رہے کہ 11 دسمبر کو سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کردیے، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟ بعد ازاں سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کے معاملے کو لارجز بنچ کے سامنے مقرر کرنے کیلئے ججز کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے میر بادشاہ قیصرانی کی جعلی ڈگری میں تاحیات نااہلی کیس میں نوٹس لیا، جس کی سماعت قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ درخواست گزار نے کہا کہ جھوٹے بیان حلفی پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے کو نااہل ہی ہونا چاہیے، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح پر پانامہ کیس میں فیصلہ دے دیا تھا۔ جس پر جسٹس جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آرا ہیں، تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے؟ تاحیات نااہلی بارے سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں سے کسی ایک کو برقرار رکھنا ہوگا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سنگین غداری جیسے جرم پر نااہلی پانچ سال ہے تو نماز نہ پڑھنے والے یا جھوٹ بولنے والے کی تاحیات نااہلی کیوں؟ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بننے کے بعد اس آئینی تشریح پرکم سے کم پانچ ججز کا بنچ بننا چاہیے، آپ کو توسط سے یہ کنفیوژن دور ہوجائے گی۔