پاکستان بھر میں عام انتخابات 8 فروری 2024 کو ہونے جارہے ہیں جس کیلئے الیکشن کمیشن نے اپنی تمام تر تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا عمل بھی شروع کر دیا گیاہے ۔
نئی حلقہ بندیوں کے بعد قومی اسمبلی کے حلقوں کے نقشے کافی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں لیکن سیاستدان وہی ہیں جن کا نام ہم اکثر اوقات اخبارات اور ٹی وی چینلز پر سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں ۔
2024
لاہور کے حلقہ این اے 122 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار خواجہ سعد رفیق ایک مرتبہ پھر سے میدان میں اتر نے جارہےہیں اور اسی حلقہ سے وہ گزشتہ تین مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں تاہم 2018 کے انتخابات میں اس حلقے کا نمبر 131 تھا اور اس سے قبل لاہور کا یہ حلقہ این اے 125 کہلاتا تھا ۔
2024 فروری میں ہونے والے انتخاب میں این اے 122 سے تین مرتبہ کامیاب ہونے والے سعد رفیق کے مقابلے میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سردار لطیف کھوسہ اترنے جارہے ہیں جبکہ ان دو بڑے سیاستدانوں کے مقابلے میں جماعت اسلامی کی امیدوار ڈاکٹر زیبا وقار ہیں ۔
حلقہ این اے 122 میں خواجہ سعد رفیق بھر پور طریقے سے اپنی انتخابی مہم کاآغاز کر چکے ہیں اور کارنر میٹنگز کا سلسلہ بھی جاری ہے تاہم ابھی جلسہ عام کا انعقاد نہیں کیا گیا ، اس حوالے سے اطلاعات ہیں جلد ہی مریم نواز اور نوازشریف اس حلقے کا دورہ کریں گے جہاں پر والٹن روڈ کی تعمیر کا کام بھی زور شور سے جاری ہے ۔
حلقہ این اے 122 میں ٹوٹل ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 45 ہزار 763 ہے جس میں ایک لاکھ 97 ہزار 264 مرد جبکہ ایک لاکھ 48 ہزار 499 خواتین ووٹرز ہیں ۔ اس حلقے کی کل آبادی 9 لاکھ 53 ہزار 104 ہے ۔اس حلقے میں لاہور کے پوش علاقے ڈیفنس کا کچھ حصہ اور کینٹ کا علاقہ شامل ہے ۔
2018
2018 کے عام انتخابات میں یہ حلقہ این اے 131 کے نام سے جانا تھا اور اس وقت خواجہ سعد رفیق کے مقابلے میں بانی تحریک انصاف عمران خان خود میدان میں اترے ، انہوں نے ن لیگ کے امیدوار سعد رفیق کو 84 ہزار 313 ووٹ لے کر شکست دی جبکہ خواجہ سعد رفیق 83 ہزار 633 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے ، عمران خان کی جیت کا مارجن کافی کم تھا لیکن انہوں نے یہ نشست چھوڑ دی اور میانوالی کی نشست کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ۔انتہائی دلچسپ امر یہ کہ اس حلقے سے تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار سید مرتضیٰ حسن 9 ہزار 780 ووٹ حاصل کرنے میں کامیا ب ہوئے جبکہ پیپلز پارٹی کے عاصم محمود 6 ہزار 746 ووٹ حاصل کر سکے ۔
عمران خان کی جانب سے نشست چھوڑنے کے بعد اس حلقے میں اکتوبر 2018 میں ضمنی انتخاب ہوا جس میں بانی پی ٹی آئی نے اپنے امیدوار ہمایوں اختر خان کو نامزد کیا لیکن ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کو سعد رفیق کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا، سعد رفیق 60 ہزار 476 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ ہمایوں 50 ہزار 445 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے ۔
2013
عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن نے بھاری اکثریت سے الیکشن جیتا اور حکومت بنائی ، لاہور کا یہ حلقہ اس وقت این اے 125 کہلاتا تھا جہاں سے ن لیگ کے امیدوار سعد رفیق نے ایک لاکھ 23 ہزار 94 ووٹ حاصل کرتے ہوئے تحریک انصاف کے حامد خان کو شکست دی اور وہ 83 ہزار 190 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے ۔
2013 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی جانب سے مبینہ دھاندلی کے سنگین الزامات لگائے گئے اور طویل ترین 126 روز کا دھرنا بھی دیا گیا تاہم 14 دسمبر 2014 کو نادرا نے حلقے میں ووٹنگ کا جائزہ لیا اور اس دوران 20 فیصد ووٹ ایسے تھے جن کی تصدیق نہ ہو سکی ، ان ووٹوں میں شناختی کارڈ کا نمبر یا پھر انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی جس پر الیکشن کمیشن نے اس حلقے میں دوبارہ الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا جسے سعد رفیق کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا بعدازاں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے سعد رفیق کو بحال کر دیا ۔
2008
مشرف کی آمریت کا دور اختتام پذیر ہونے کے بعد 2008 میں عام انتخابات ہوئے اور پیپلز پارٹی نے اتحاد کے ذریعے حکومت بنائی لیکن اس حلقے سے سعد رفیق 8 فروری 2008 کو 70 ہزار 752 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ، ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے محمد نوید چوہدری 24 ہزار 592 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے جبکہ ہمایوں اختر خان نے اس وقت پاکستان مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور 13 ہزار 702 ووٹ ہی حاصل کر سکے ۔
2002
سنہ 2002 میں ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی زیر نگرانی انتخابات کا انعقاد کروایا گیا اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پر شدید پابندیاں عائد تھیں ،بینظیر بھٹو شہید اور نوازشریف جلا وطنی کاٹ رہے تھے اور پیپلز پارٹی نے امین فہیم کی قیادت میں الیکشن میں حصہ لیا جبکہ مسلم لیگ ن نے جاوید ہاشمی کی قیادت میں انتخاب لڑا ۔اس وقت مسلم لیگ ق بھی میاں محمد اظہر کی قیادت میں وجود میں آ چکی تھی اور ملک میں 2 پارٹی سسٹم بھی اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا ۔2002 میں مشرف کی حمایت یافتہ جماعت مسلم لیگ ق نے بھاری اکثریت سے حکومت بنائی اور ملک ایک نئے دور میں داخل ہوا۔
ان انتخابات میں حمایوں اختر خان نے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر 22 ہزار 405 ووٹ لے کر انتخاب جیتا اور این اے 125 سے قومی اسبملی کے رکن منتخب ہوئے ۔