امریکہ اس وقت کھچڑی جیسی صورتحال کا شکار ہوچکا ہےامریکہ لبرل ورلڈ آرڈر بچانے کے چکر میں اپنی تھیوریز کو نہیں سنبھال پا رہا ہے وہ بیک وقت کئی پالیسز پر انحصار کر رہا ہےامریکہ جن پالیسیز پر انحصار کرنے کی کوشش کر رہا ہےو ہ امریکہ کو ایک لائن میں لگا کر رکھ دییں گی،اس وقت امریکہ دوچیزوں کو ایک ساتھ لیکر چلنا چاہ رہاہے اس تناظر میں ہم امریکہ و یورپ کو نئی دنیا میں دیکھ سکتے ہیں کہ وہ اگلے وقت میں کہاں ہوں گے کیا امریکہ New Isolationismیا Foreign Policy Realignmentجیسی پالیسیز اپناکر 100فیصد نتائج حاصل کرسکتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ فرسٹ کا نعرہ لگا کر امریکہ کو بہت سی چیزوں سے پیچھے ہٹا رہا ہے، سفارتی میشنز کوبھی کلوز کر رہے ہیں یعنی وہ دوبارہ New Isolationism کی جانب بڑھ رہا ہےامریکہ نےپہلی جنگ عظیم کے بعد 1919میں League of Nations میں شمولیت سے انکار کر علیحدگی اختیار کرلی تھی اور1920 اور1930 کےدرمیان آنے والے پیریڈ کو معاشی بحران (Great Depression) کہتے ہیں اس میں بھی امریکہ نے تجارتی اور عسکری مداخلت کو کم کیا تھا۔ امریکہ نے جیسے مداخلت کم کی اور خود کو Isolationism میں لیکر چلا گیا تو یورپ میں اٹلی کے موسولینی اور جرمنی کے ایڈولف ہٹلر مضبوط ہوگئے ہٹلر کو یورپ جکڑنے کا اردارہ رکھتا تھا تو وہ پھٹ پڑا، جرمنی پر پابندیوں اور جکڑنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ دنیا میں دوسری جنگ عظیم (WWII) شروع ہوگئی اور امریکہ کو بالآخر 1941 میں جنگ میں کودنا پڑا۔
یتنام جنگ میں شکست کے بعدامریکہ میں"No More Wars" کا نعرہ ابھرا اور امریکہ نے عالمی مداخلت کم کر دی تھی۔ پھر 2016میں ڈونلڈ ٹرمپ نے "America First" پالیسی اپنائی، نیٹو اور یورپی اتحادیوں سے فاصلے بڑھائے اور عالمی معاملات میں عدم دلچسپی ظاہر کی لیکن دوبارہ بائیڈن انتظامیہ نے اس پالیسی کیخلاف انتظامات کئے۔اب دوبارہ ٹرمپ کا دور آگیا ہے اور وہی نعرہ "America First" ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ نے اپنی پالیسی کو Realignment کیا اور لبرل ورلڈ آرڈر (Liberal World Order) کو لیڈ کرنے لگاپھر نیٹو، UN، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی ادارے وجود میں آئے جس سے امریکہ سپر پاور بن گیا 1972 میں صدر رچرڈ نکسن نے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر کے اپنی پالیسی کو ری الائن کیاپہلے امریکہ تائیوان کو سپورٹ کر رہا تھا لیکن بعد میں اس نے چین کو اقوام متحدہ میں تسلیم کیااور چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے۔اسی طرح نائن ایلون واقعہ میں بھی امریکہ نے اپنی پالیسی کو ری الائن کیا پھر بائیڈن نے چین کو اپنا سب سے بڑا حریف کہا اور اپنی پالیسی کو ایشیا پیسیفک پر تبدیل کیا۔
ان تمام تبدیلیوں میں امریکہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا اور ناکام بھی ہوتا رہا لیکن اس بار صورتحال قدر مختلف ہے اگر امریکہ مکمل طور پر Isolationist ہو جاتا ہے جیسی ٹرمپ کی پالیسی ہے اور وہ اس پر عمل کر رہا ہے تو لبرل ازم کا عالمی مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔کیونکہ لبرل کے بہت قریب سمجھے جانے اور سپورٹ کرنے والا یورپ اکیلا پڑ جائے گا اور فرانس میں میری لی پین، جرمنی اے ایف ڈی (Alternative for Germany) ، اٹلی میں جارجیا میلونی، ہنگری میں وکٹر اوربان، پولینڈاور دیگر یورپی ممالک میں دائیں بازو (Right-Wing) کی جماعتیں یورپ میں پہلے سے عروج پکڑ رہی ہیں جو یورپی یونین کا وجود ہی نہیں چاہتیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بار بار یہی کہہ رہا ہے کہ یورپ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا ور نیٹو امریکہ پر انحصار نہ کرے یوکرین وار میں جنگی امداد روک دی اگرامریکہ نیٹو سے پیچھے ہٹتا ہے تو یورپ کو اپنی سیکیورٹی اور دفاع خود سنبھالنا پڑے گااس کا نقصان پورے یورپ کو بہت زیادہ ہوگاٹرمپ کے اس اقدام سے یورپی ممالک میں قدامت پسند اور قوم پرست جماعتیں جو پہلے سے عروج پکڑ رہی ہیں وہ ٹرمپ کی طرح "یورپ فرسٹ" کا نعرہ لگائیں گی۔پھر یورپی یونین کو فوجی اخراجات بڑھانے پڑیں گےجس سے Welfare State ختم ہو جاے گی، ویلفئر سٹیٹ کے ختم ہوتے ہی قدامت پسند جماعتیں روس کے ساتھ بہتر تعلقات کی طرف چلی جائیں گی جیسا کہ ہنگری اور جرمنی میں ہوتا نظر آ رہا ہے۔
اگر امریکہ Isolationism کے باوجود معاشی اور سفارتی اثر و رسوخ برقرار رکھتا ہے تو وہ لبرل ورلڈ آرڈر کو کسی حد تک قائم رکھ سکتا ہے لیکن یہاں اصل چیلنج یہ ہوگا کہ امریکہ اپنا ذاتی مفاد اور عالمی لبرل ورلڈ آرڈر میں کیسے توازن برقرار رکھتا ہےاگر امریکہ لبرل ورلڈ آرڈر کی قیادت چھوڑ دیتا ہےتو چین اور روس اس خلاء کو پُر کردیں گے اور پھر لبرل ازم کو عالمی سطح پر زوال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شاید یہ سمجھ رہا ہے کہ دوبارہ امریکہ Isolationism اپنا کر خود کو بچا لے جیسے پہلے ہوتا آیا ہےتو یہ ان کی خام خیالی ہے پہلےوالی صورتوں میں اس کیخلاف چین یا روس جیسی پاور فل طاقتیں نہیں تھیں اس وقت امریکہ سپر پاور بھی نہیں تھا اور یورپ اتنا خستہ حال بھی نہیں تھا پھر وہاں قدامت پسند جماعتیں نفرت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں اب وہ عروج پکڑ رہی ہیں امریکہ اگر ری الائن میں روس کیساتھ جاتا ہے پھر بھی امریکہ کو قیادت چھوڑنی پڑے گی چین کیساتھ جنگ میں جاتا ہے پھر بھی قیادت چھوڑنی پڑے گی امریکہ اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایشیا پیسیفک میں آکر نئے الائنس بنا کر قیادت قائم رکھ سکتا ہے تو یہ بھی امریکہ کی خام خیالی ہے مستقبل میں امریکہ کے ہاتھوں قیادت رہنے کا کوئی امکا ن نہیں ہے امریکہ خود کو بھی لے ڈوبا ہے اور یورپ کا بھی ستیاناس کر دیا ہے۔
نوٹ: بلاگ مصنف کی ذاتی رائے ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔