آڈیٹر جنرل نے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) میں سات بھرتیوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان ملازمین کی خدمات ختم کر کے ان کو ادا کی گئی تنخواہوں کی وصولی کریں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (ACE) نے پہلے ہی اس پر انکوائری شروع کر دی ہے۔ ACE حکام نے کیس کا ریکارڈ پیش کرنے کے لیے ایک فوکل پرسن مقرر کرنے کے لیے وائس چانسلر UET کو خط لکھا ہے۔
یو ای ٹی کے اندرونی ذرائع نے ’سماء‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آڈیٹر جنرل کی جانب سے ظاہر کیے گئے خدشات کے بعد بھی یو ای ٹی انتظامیہ غیر متحرک ہے۔
یوای ٹی کےپروفیسرز، شعبوں کے سربراہان اور انتظامی افسران میں جن کی بھرتی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے ۔اور جن تنخواہوں کی وصولی کی سفارش کی گئی ہے ان میں کنوینر ایڈمیشن کمیٹی یو ای ٹی ڈاکٹر عاصم لون (ایسوسی ایٹ پروفیسر الیکٹریکل)، ڈین آف نیچرل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر شاہد رفیق، چیئر مین ڈاکٹر شاہد رفیق شامل ہیں۔ شعبہ ریاضی کے پروفیسر ڈاکٹر مشتاق، یو ای ٹی نارووال کیمپس کوآرڈینیٹر پروفیسر ڈاکٹر شہباز، پبلک ریلیشن آفیسر شاہد نذیر،ڈپٹی رجسٹرار عبد المہیمن فاروقی اوراسسٹنٹ رجسٹرار اقراء ثناء شامل ہیں۔
آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں غیر قانونی طور پر بھرتی کیے گئے ملازمین اور اساتذہ سے کروڑوں روپے کی فوری ریکوری اور انہیں نوکریوں سے فارغ کرنے کی سفارش کی۔ رپورٹ میں ان ملازمین کو خلاف قانون بھرتی کرنے والے وائس چانسلر کے خلاف بھی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔
یو ای ٹی کے ایک پروفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ آڈیٹر جنرل کی جانب سے وی سی یو ای ٹی کو متعدد خطوط اور یاد دہانیاں لکھی گئی ہیں کہ وہ غیر قانونی بھرتیوں کے خلاف کارروائی کریں اور ان سے تنخواہیں وصول کی جائیں جو کہ کروڑوں روپے بنتی ہیں لیکن آج تک یونیورسٹی انتظامیہ نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی کوئی کارروائی کی ہے۔
آڈیٹر کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ اساتذہ اور ملازمین کو بغیر اشتہار کے بھرتی کیا گیا، ڈگریوں کی تصدیق نہیں کی گئی اور مطلوبہ تجربہ اور قابلیت کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر منصور سرور کے خلاف اینٹی کرپشن میں غیر قانونی بھرتیوں کے الزام میں مقدمہ زیر سماعت ہے۔ یو ای ٹی کے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ غیر قانونی بھرتیوں کو بھی یو ای ٹی کے مالی بحران کی ایک وجہ قرار دیا گیا ہے۔