بلوچستان میں سیاست نظریات کے گرد کم اور مرکز میں حکومت بنانے والوں کے گرد زیادہ گردش کرتی ہے ۔ابھی سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ملک واپسی سے کچھ عرصہ قبل بلوچستان کی سیاست کا محور پیپلزپارٹی کو گردانا جا رہاتھا، شمولیتوں سے لیکر اتحادیوں کی بحث عام عوام کے درمیان زور شور سے جاری تھی ۔ پاکستان کے سیاست کا منظر نامہ اچانک میاں نواز شریف کی ملک واپسی کے بعد تبدیل ہونا شروع ہو گئے ۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کی سیاسی بنیادیں کمزور ہوتےہی عوامی حلقوں میں پیپلزپارٹی کا نام چل رہا تھا ۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک اعلامیہ میں عام انتخابات 8 فروری 2024 کو کروائے جانے کا اعلان کیا گیا جبکہ الیکشن شیڈول کا اعلان بھی کچھ دنوں کے بعد ہونے کے امکانات ہیں۔
ملکی سیاست میں ہلچل، ماضی کی طرح چھوٹے صوبے بلوچستان سے مسلم لیگ ن کے قائد کی کوئٹہ آمد سے شروع ہوئی ، 30 سے زائد الیکٹیبلز نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کی جن میں 2018 کے انتخابات کے دور میں بننے والی باپ پارٹی کے رہنما وں کی اکثریت تھی۔ یوں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے اس دورے سے بلوچستان عوامی پارٹی کے مستقبل پر سوالات کے ساتھ ساتھ صوبے کی حکمرانی پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
سیاسی سر گرمیوں کے پیش نظر پاکستان مسلم لیگ ن کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے پہلی دفعہ یوم ِتاسیس کے جلسے کا انعقاد کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں کیا ، جس میں آصف علی زارداری کے ساتھ بلاول بھٹو زارداری نے بھی شرکت کی ۔ اس دورے کے دوران بلوچستان کے کئی الیکٹیبلز نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور کوئٹہ کے جلسے کو عام انتخابات 2024 کے لئے پیپلز پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں کے آغاز کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے ۔
پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی نے بھی کوئٹہ ایوب اسٹیڈیم میں صمد خان اچکزئی کی 50 ویں برسی کے جلسہ کے انعقاد سے اپنی انتخابی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں ۔ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے چیئر مین اس سےقبل پانچ دن کا دورہ چمن بھی مکمل کر چکے ہیں، اس دورے میں محمود خان اچکزئی نے کئی سیاسی ملاقاتوں کےساتھ چمن میں جاری دھرنے میں شرکت کی۔
یاد رہے کچھ عرصہ قبل پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی میں اختلافات کی وجہ سے تقسیم پیدا ہوچکی تھی جس نے اب ایک نئی پارٹی پشتونخواہ نیشنل عوامی پارٹی کو جنم دیا ہے ۔
پاکستان مسلم لیگ (ن)، قوم پرست جماعت پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے کوئی خاص سیاسی سرگرمیاں نظر نہیں آ رہیں ۔ البتہ حتمی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری ہونے کے بعد سیاسی میدان میں گرما گرمی دیکھنے کوملی ہے ۔
بلوچستان سیاسی طاقت کا مظاہرہ کوئٹہ شہر سے ہوتا رہا ہے ،مسلم لیگ ن ، پی پی پی اور پشتونخوا ہ ملی عوامی پارٹی نے بلوچستان میں اپنا سیاسی عمل شروع کر دیا ہے۔ بلوچستان میں قومی اسمبلی کی کل 16 نشستیں ہیں جس میں اس صوبے کے درالحکومت کوئٹہ کی 3نشستیں ہیں ، اسی طرح صوبائی اسمبلی کی کل 51 میں سے 9 نشستیں کوئٹہ کی ہیں ۔
جمعیت علما ء اسلام ف کے ضلعی سیکرٹری اطلاعات کوئٹہ عزیز اللہ نے سماء سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن کے متعلق اب تک ہونے یا نا ہونے کے مفروضے چل رہے ہیں ۔ جمعیت علماء اسلام اس وقت انتخابات کے لئے رہنماوں کی نامزدگی کر رہی ہے جس کے لئے مرکزی کمیٹی ضلعی بنیادوں پر مشاورت کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی بنیادوں پر دیگر جماعتوں کی طرح سیاسی ملاقاتیں چل رہی ہیں ۔
عزیز اللہ نے مزید بتا یا ، کہ جمعیت علماء اسلام (ف) نےپچھلے تین مہینوں سے مقامی سطع پر شمولیتوں کی صورت میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں اور کئی شخصیات کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔ البتہ جمعیت علماء اسلام( ف) روایتی طور پر نامزدگی کے بعد پورے ملک میں اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کرتی ہے ۔آنے والے انتخابات میں اس بار مرکزی کمیٹی نے صوبائی کابینہ کو یہ اجازت دی ہوئی ہےکہ وہ مقامی سطح پر حلقہ میں اتحاد قائم کر سکے مگر اس دوران مرکزی کمیٹی نگرانی کرتی رہے گی۔
ہم نے کوئٹہ میں موجود پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماوں سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے ہمیں جواب موصول نہیں ہو سکا ۔
صحافی نور العافین کے مطابق کوئٹہ کی تین قومی اسمبلی کی نشستوں پر مقابلہ سخت ہوگا ، یہاں تینوں نشستوں پر ماضی میں مختلف پارٹیاں جیتتی آرہی ہیں۔ اہم مقابلہ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی ، بلوچستان نیشنل پارٹی ، جمعیت علماء اسلام ف ، پاکستان تحریک انصاف اورپاکستان پیپلز پارٹی میں ہوگا ۔ این اے 263 پر پشتونخواہ میپ کی جانب سے محمود خان کا نام متوقع ہے، اس کے علاوہ جمعیت علماء اسلام کی جانب سے حفیظ حمد اللہ ، پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قاسم سوری کا نام متوقع ہے ۔ یہاں نواب لشکری رئیسانی بھی ایک اہم رہنما ہیں تاہم اب تک ان کے بارے میں یہ واضح نہیں کہ وہ پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کریں گے یا آزاد حیثیت سے انتخاب لڑیں گے۔
بلوچستان میں الیکٹیبلز کا تو ماضی سے شوشہ لگا رہتا ہے کبھی ایک کے گھر تو کبھی دوسرے کے گھر ، یہ گھر بدری عموماًمرکز کی جانب حکومت بندی پہ ہوتی ہے جس کی پوزیشن مرکز میں حکومت کے بنانے کے لئے تھگڑی ہوتی ہے اور بلوچستان کے الیکٹیبلز ان کے ہاں ڈیرے ڈالنے کے لئے بے تاب ہوتے ہیں ۔
ماضی میں کوئٹہ کی قومی اسمبلی کی نشستوں پر کانٹے دار مقابلے ہوتے رہے ہیں2018 میں کوئٹہ کی تین قومی اسمبلی کی نشستوں کے ساتھ 9 صوبائی اسمبلی کی نشستیں تھیں۔ مزید یہ کہ نئی حلقہ بندیوں کی پہلی اور حتمی فہرست میں بھی نشستوں کی تعداد میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ۔
2018 میں کوئٹہ ون سے متحدہ مجلس عمل پاکستان کے ٹکٹ پر مولانا عصمت اللہ 14887 لیکر جیتے تھے جبکہ ان کے مد مقابل دوسری پوزیشن پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے ملک عبدالولی کاکڑ نے 10071 ووٹ لئے تھے ۔ کوئٹہ ٹو سے پاکستان تحریک انصاف کے قاسم سوری 25973 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے تھے جبکہ ان مدمقابل دوسرے نمبر پر لشکری رئیسانی نے 20339 ووٹ لئے ۔ کوئٹہ تھری سے آغا حسین بلوچ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر 20034 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے اور ان کے خلاف متحدہ مجلس عمل پاکستان کے رہنما حافظ حمد اللہ نے 11057 ووٹ لئے۔
2018 کے انتخابات سے قبل 2013 میں کوئٹہ کی دو قومی اسمبلی کی نشستیں جبکہ اس میں نوشکی اور چاغی کے ساتھ کوئٹہ کامشترکہ ایک حلقہ بھی شامل تھا ۔ 2013 میں کوئٹہ کی پہلی نشست سے پشتونخوا ہ ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی بڑی لیڈ سے جیتے اور دوسری نشست جو کوئٹہ کم چاغی کم نوشکی کم مستونگ پر مشتمل تھی یہاں سے پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے مرحوم رحیم مندوخیل کامیاب ہوئے ، البتہ ان کی وفات کے بعد ضمنی انتخابات میں یہاں سے انجنیئر عثمان بادینی کامیاب قرار پائے تھے ۔
شہر کوئٹہ کے 3 قومی اسمبلی کےحلقوں میں سیاسی اکائیاں یکسر مختلف ہیں، جہاں پورے بلوچستان میں الیکٹیبلز کا عروج رہتا ہے وہاں کوئٹہ کی قومی و صوبائی اسمبلی میں صورتحال قدرے مختلف ہوتی ہے۔ ماضی کی صورت حال کو زیر بحث لایا جائے تو اب تک کوئٹہ پر مکمل گرفت کسی بھی سیاسی پارٹی کی نہیں ہوئی ۔ اس شہر میں لوگ سیاسی طور پر دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ باشعور ہیں اور اسی بناء پر کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کے جیتنے کا تجزیہ فلحال نہیں کیا جا سکتا ۔