مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری کے لیے سینیٹ اجلاس کی کارروائی ساڑھے3 بجےتک ملتوی کردی گئی۔
حکومت کو ترمیم کی منظوری کیلئے 64 ووٹ درکار ہیں۔ سینیٹرز سے حکومتی اتحادی جماعتوں کے اکابرین کے مسلسل رابطے میں ہیں۔ اراکین کو فوری طور پر سینیٹ اجلاس میں پہنچنے کی ہدایت کردی گئی۔
قانون و انصاف کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے گزشتہ روز بنیادی مسودے کی منظوری دی تھی۔ سینیٹر فاروق ایچ نائک ترمیم سے متعلق قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کریں گے جبکہ وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ 27ویں آئینی ترمیمی بل منظور کے لیے پیش کریں گے۔
کمیٹی ارکان نے صدرمملکت کو عہدے پر رہتے ہوئے اور بعد میں بھی استثنیٰ دینے پر اصولی اتفاق کرلیا تاہم اس کا اطلاق کس حد تک ہوگا۔ یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
ترمیم کے مطابق صدر مملکت ہائیکورٹ کے جج کوجوڈیشل کمیشن کی سفارش پر ٹرانسفر کرنے کے مجاز ہوں گے، ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا تبادلہ نہیں کیا جا سکے گا، ٹرانسفر ہونے والا جج دوسری عدالت کے چیف جسٹس سے سینئر نہیں ہوگا۔ اتفاق کیا گیا کہ آئینی عدالتیں قائم ہوں گی، کوئی بھی کیس ایک سال تک پیروی نہ ہونے پر نمٹا ہوا تصور ہوگا۔
متفقہ نکات میں وزیراعظم کو7مشیر رکھنے کا اختیار شامل ہے، وزرائے اعلیٰ کے مشیروں کی تعداد بھی بڑھانے کی تجویزپرغور کیا گیا۔ مجوزہ ترمیم پرکمیٹی اپنی رپورٹ سینیٹ میں پیش کرے گی، جس کے بعد آئینی ترمیم منظور کروانے کے مراحل کا آغاز ہوگا۔
اجلاس میں ایم کیو ایم کی بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز سے متعلق ترمیم پر بھی مشاورت کی گئی تاہم پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم کی تجاویز پر اعتراض اٹھایا جبکہ دیگر اتحادی جماعتوں کی جانب سے مزید تین ترامیم پیش کی گئیں۔ خیبر پختونخوا سے نام خیبر ہٹا کر پختونخوا رکھنے کے تجویز پر بھی غور ہوا، بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافے پر بھی مشاورت ہوئی۔
خیال رہے کہ آئین میں ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں سے الگ الگ دو تہائی اکثریتی حمایت درکار ہو گی۔ اس وقت آئینی ترمیم کے لیے سینیٹ سے 64 اور قومی اسمبلی سے 224 ارکان کے ووٹ درکار ہوں گے۔ سینٹ میں اپوزیشن بینچز پر30 ارکان موجود ہیں جو ممکنہ طور پر آئینی ترمیم کی مخالفت کریں گے۔






















