وزیراعظم شہبازشریف نے بنوں میں فیلڈمارشل آرمی چیف عاصم منیر کے ساتھ اہم ترین سیکیورٹی اجلاس میں افغانستان کو دوٹوک پیغام دیاکہ افغانستان، فتنہ الخوارج یا پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔ پاکستان متعدد مرتبہ بڑے عالمی فورمز پراورافغانستان کی قیادت کو یہ بتا چکا ہےکہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے جس سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا جس میں سیکیورٹی فورسز پر حملےاور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی وارداتیں شامل ہیں۔ پاکستان کے ان تمام تحفظات کوافغان قیادت نے یکسرنظرانداز کردیا جس کے بعد اب پاکستان نے انتہائی سخت موقف اپنایا ہے۔ کیونکہ افغانستان دہشت گردی کا مرکز بنا ہواہے اوروہاں سے اٹھنے والے خطرات کو
مدنظررکھتے ہوئے پاکستان کا حق دفاع برقرار ہے ، پاکستان کی سلامتی کی ضروریات بھی ہماری اولین ترجیح اور ریڈلائن ہے جس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔
تاریخ پر نظرڈالیں تو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ابتدا سےہی تنازعات اور اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ برادر اسلامی ممالک کے تعلقات جغرافیائی قربت،مذہبی اورثقافتی رشتے،تاریخی راوبط ہونے کے باوجود ہمیشہ اعتماد کے فقدان، سلامتی کے خدشات اور سیاسی اختلافات سے بھرے ہوئے ہیں۔افغانستان روز اول سے ہی ڈیورنڈ لائن تنازع کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ اعتماد کا رشتہ برقرار رکھنے میں ناکام رہاہے۔ سوویت افغان جنگ میں پاکستان نے امریکی آشیرباد اور تعاون کے ساتھ مشترکہ طورپر افغان جنگ کی حمایت کی جس کے بعد لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان آئے اور پاکستان آج بھی ان افغان مہاجرین کا حق میزبانی بخوبی نبھارہاہے مگر یہ پاکستان کی اکانومی پر ایک بڑا بوجھ ہے۔حالیہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ و غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد تقریباً 3.5 سے 4 ملین کے قریب ہے۔ افغان مہاجرین میں سے بعض دہشت گرد نیٹ ورکس، منشیات اور اسمگلنگ میں ملوث پائے جاتے ہیں اور اس کے ٹھوس شواہد بھی سامنے آچکے ہیں پاکستان یہ معاملہ کئی مرتبہ اٹھاچکاہے مگر انسانی حقوق کے مسائل اور عالمی دباؤکے باعث یہ معاملہ حل نہیں ہورہا۔
اسطرح اگرافغانستان میں طالبان رجیم کا 1996-2001 کا جائزہ لیں توپاکستان ان چند ممالک میں شامل تھا جس نے طالبان کی حکومت تسلیم کی مگراس کےبعد 9/11 رونما ہوا جس نے پوری دنیا کی سیاست میں یکسرتبدیلی بپا کی اور پاکستان بھی امریکی دباؤکا شکار ہوا اور اظہارلاتعلقی کرنا پڑی۔ڈیورنڈ لائن سے بارڈر کراسنگ، اسمگلنگ اور غیر قانونی نقل و حرکت سے پاکستان کو سلامتی اور معیشت دونوں پہلوؤں پر انتہائی سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ دوہزار سترہ سے پاکستان نے ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانا شروع کی تھی جس میں اہم پیش رفت ہوچکی ہے
پاکستان عالمی برادری اور افغانستان کو یہ باور کراچکا ہے کہ افغان سرزمین سے فتنہ الخوارج(ٹی ٹی پی،کالعدم تحریک طالبان پاکستان)اور دیگر دہشتگرد گروہ پاکستان پرحملے کرتے ہیں اور وہاں پر بھارتی آشیرباد سے پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہےاور یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت ان دہشت گرد گروہوں کو نہ صرف روکنے میں ناکام ہے بلکہ اس حوالے سے نرم رویہ بھی اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے اورذہن نشین کرلی جائے کہ طالبان حکومت کے اندر مختلف دھڑے ہیں، کچھ سخت گیر گروہ ہیں جو پاکستان مخالف بیانیے کو ہوا دیتے ہیں۔
2021 میں طالبان کی واپسی اور حکومتی سیٹ اپ میں آنے کے بعد پاکستان کو اس بات پر مکمل یقین تھا کہ اب سرحدی مسائل اور دہشت گردی کے واقعات ختم ہوں گےمگر حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ فتنہ الخوارج اور کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ہوا۔بارڈ کراسنگ پر جھڑپیں ہوئیں اور سرحدبند کرنے کے کئی واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔ پاکستان نے سفارتی سطح اور سیاسی پلیٹ فارم اور حکومتی لیول پر افغانستان سے یہ معاملات اٹھائے مذاکرات کیے مگر نتیجہ صفر۔ افغانستان میں پراکسیزاور بھارتی اثرورسوخ ہمیشہ پاکستان کے لیے تشویش کا باعث رہا ہے۔ اسلام آباد کے پاس ٹھوس شواہد ہیں اور یہ کئی مرتبہ عالمی سطح پربتایا گیا ہے اورکابل کو شواہد بھی دکھائے گئےکہ بھارت افغان سرزمین استعمال کرکے پاکستان میں دہشت گردی کرارہاہےاور پاکستان میں امن کے درپے ہے۔ پاکستان یہ معاملہ بارہا اقوام متحدہ، او آئی سی اور شنگھائی تعاون تنظیم ایس سی او جیسے فورمز پر یہ مسئلہ اٹھا چکا ہے، اور عالمی برادری سے مؤثر اقدامات کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اعتماد کے بحران میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے تحفظات زیادہ تر سلامتی اور سرحدی معاملات سے جڑے ہیں، افغان حکومت کو پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات، باہمی تعاون، اعتماد سازی اور مشترکہ مفادات کے فروغ کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ورنہ پورے خطے کا امن اور ترقی متاثرہوگی۔ افغان سرزمین سے دہشتگردی کے واقعات سے خیبرپختونخوا اور قبائلی اضلاع میں عام شہری دہشت گردی کا نشانہ بنے،پاکستان افغانستان کے ساتھ تعلقات توڑنے کا خواہاں نہیں، لیکن اگر دہشت گرد گروہ روکے نہ گئے تو پاکستان یکطرفہ اقدامات پر مجبور ہوگا
پاکستان کے لیے سب سے بہتر حکمتِ عملی یہ ہے کہ اس معاملے سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک تین نکات پر مشتمل ایک حکمت عملی ترتیب دے اور تینوں آپشنز کو ایک ترتیب کے ساتھ استعمال کرے۔ پہلے مرحلے پر کابل پر سفارتی دباؤ بڑھایا جائے اور عالمی برادری کو اعتماد میں لیا جائے۔ دوسری حکمت عملی کے تحت سرحدی چیک پوائنٹس اور باڑ کے نظام کو مزید مضبوط بنایا جائے۔ اگر یہ دونوں اقدامات دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہیں تو پھر پاکستان اپنی سرزمین کے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے، پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ اسلام آباد امن چاہتا ہے لیکن اپنی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا
پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل اکاون (Right of Self Defense) کے تحت اپنے دفاع کے لیے کارروائی کا حق بھی رکھتا ہے کیونکہ پاکستان نے اب کلئیرکردیا ہے کہ افغانستان فیصلہ کرے فتنہ الخوارج یا پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلے افغانستان اسے اسلام آباد کا حتمی فیصلہ سمجھے۔
حسنین خواجہ شعبہ صحافت سے گزشتہ 25 سال سے وابستہ ہیں جو مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات میں کام کرچکے ہیں اور ان دنوں سما ٹی وی میں بطور کنٹرولر نیوز اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔






















