اچھی اور بری خبریں ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ قدرت مہربان ہو تو اچھی خبروں کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے، اور ستارے گردش میں ہوں تو ہر تدبیر الٹ ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ جانچنا مشکل ہوتا ہے کہ پلڑا کس کا بھاری ہے، خوشخبریوں کا یا پھر اُن خبروں کا جنہیں نہ آپ سننا چاہتے ہیں اور نہ ہی وہ منظرنامہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
حکمرانوں کو ہمیشہ خوشخبری کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے، اور حکمرانوں کے بدخواہوں کو ہر چیز میں کیڑے۔ سو فیصد کوئی بھی درست نہیں ہوتا۔ عوام خوشخبریاں سن کر وقتی طور پر دل بہلا لیتے ہیں اور ڈراؤنی باتوں پر "الامان الحفیظ" کی صدائیں لگاتے نظر آتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں ہمارے نصیب میں تو یہی ہے، اور کچھ "لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے" دھیمی سر میں گنگناتے نظر آتے ہیں۔
برسوں سے یہ سلسلہ یوں ہی چلتا آ رہا ہے، اور آئندہ بھی اسی سلسلے کی کڑی دور تک نظر آ رہی ہے۔ اس کڑی سے کڑا وقت اسی طرح جڑا ہوا ہے جیسے روح کے ساتھ جسم۔ بزرگ کہتے ہیں کہ عذاب روح پر ہے، جسم پر نہیں۔ بے جان جسم تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں، اور معاشرتی عذاب روحوں یعنی عوام کا مقدر بن جاتا ہے، جو ان کی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔
آج ہم بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، سمت درست ہے یا نہیں، فیصلہ تاریخ کرے گی۔ حکمران معاشی، عسکری اور خارجی محاذوں پر جھنڈے گاڑنے کے دعوے کر رہے ہیں، بتا رہے ہیں کہ تاریخ بدل رہی ہے، ہم غیر اہم سے اہم ترین بن گئے ہیں۔ دنیا ہماری معترف ہے، کوئی کانفرنس، کوئی تقریب، کوئی بیٹھک ایسی نہیں جہاں ہمارا ذکر نہ ہو۔
دنیا کا طاقتور ترین صدر سوتے جاگتے ہمارے نام کی مالا جپتا ہے۔ دشمن پر ہماری عسکری دھاک بیٹھ چکی ہے اور وہ اپنے بل میں گھس گیا ہے۔ آئی ایم ایف بھی خوش ہے، چین بھی مٹھی میں ہے، اور بہت سے ایسے ہیں جن کی مٹھی ہم نے گرم کر دی ہے۔ حرمین شریفین کی حفاظت کی سعادت بھی ہمیں نصیب ہوئی ہے اور عنقریب ہم غزہ میں فلسطینی بھائیوں کی مدد میں بھی مصروف ہوں گے۔
کاش سب کچھ ایسا ہی ہو، اور ایسا ہی رہے جیسے بتایا اور دکھایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف یہ آوازیں ہیں کہ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کشیدگی اچھی بات نہیں۔ ایک طرف بھارت، اور اب دوسری طرف افغانستان، کیا دونوں محاذ گرم کرنا کوئی دانشمندی ہے؟
امریکہ کے ساتھ تعلقات کو دیرپا تناظر میں یا صرف صدر ٹرمپ کے بیانات کی روشنی میں دیکھا اور پرکھا جانا چاہیے۔ عالمی طاقتوں نے ماضی میں ہمیشہ ہمیں استعمال کیا، اور ہم خوب استعمال ہوئے۔ بعد میں ہم انہیں صرف کوستے رہ گئے۔ اب بھی اسی راہ پر گامزن تو نہیں؟
معاشی اشاریوں میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہیں۔ کیا وہ ہم گھنٹیاں سن رہے ہیں؟ کیا خارجی سطح پر ہمارے مخالفین کا اکٹھ ہمیں نظر آ رہا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر ملک، بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال، اسلام آباد میں سیاسی عدم استحکام کی فضا کس حد تک ہمارے پیش نظر ہے؟
قیادت کرنے والوں کو بہت سے کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں کیونکہ ذات، انا، زعم کامیابی کو ناکامی میں بدل دیتے ہیں۔ تدبر، عروج اور انتقام کی آگ زوال کی طرف لے جاتی ہے۔ افراد کے غلط فیصلے اقوام کو بھگتنے پڑتے ہیں، اور افراد کا تدبر کسی قوم کو ممتاز کر دیتا ہے۔
کاش ہم بھی۔۔۔ اور خدانخواستہ ہم بھی۔۔۔
طارق محمود 30 سال سے زائد عرصے سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان دنوں سماء ٹیلی وژن میں ڈائریکٹر نیوز کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔





















