ہوا کے ساتھ نۃ چلو ہوا کا رُخ بدل ڈالو، مستقل مزاج رہو اور آزمائش کی راکھ سے گزر کر کندن بن جاؤ۔ سچے خوابوں کو حقیقت بنا دو، لوگوں کی ہنسی اور تمسخر کو کمزوری کے بجائے اپنی قوت میں تبدیل کر دو۔ گلیوں میں پیدا ہونے والی آہٹ زمانے کی گرج بن جائے۔ بے اعتنائی برتنے والے انتظار کی قطار میں لگ جائیں، نظر انداز کرنے والوں کی نظریں ہٹنے کا نام نہ لیں۔ ہر ایک کو لگے وہ ہمارا ہے، ہم میں سے ہے اور ہماری بات کر رہا ہے، اور نظام کی خوبصورتی اور طاقت یہ کہ طاقتوروں کی مخالفت اور رکاوٹ بھی کامیابی کی راہ میں حائل نہ ہو۔ کیا یہ ممکن ہے؟ ہاں، نہ صرف ممکن ہے بلکہ زہران ممدانی نے اسے ممکن کر دکھایا ہے۔ وہ جب چلا تو شہر میں کوئی اس کے ساتھ نہ تھا۔ اس کی باتوں کو ہنسی میں اُڑایا گیا، اس کے خیالات کو خواب سمجھا گیا۔ وہ لوگوں کو روکتا تو لوگ رکنے کو تیار نہ تھے، اس کی بات سننے کو تیار نہ تھے۔ مگر چشمِ فلک نے تمسخر اُڑانے والوں کو تالیاں بجاتے، نظر انداز کرنے والوں کو قطار میں لگ کر انتظار کرتے، اس کے خیالات کو اپنا خواب سمجھتے اور دوسروں کو بتاتے ہوئے دیکھا۔ مذہب اس کے لیے دیوار نہیں، دروازہ بنا۔ اسلاموفوبیا کی بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی، پہلے لوگ سہم گئے پھر ان کے دلوں سے آواز آئی کہ شکر ہے کوئی تو بولا۔ مسجد میں اذان دینے والے، چرچ اور مندروں کی گھنٹیاں بجانے والے اور یہودی عبادت گاہوں کے مقلد بھی اس کے ہمنوا بن گئے۔ وہ بولا، خوب بولا، ڈٹ کر بولا، گرج کر بولا۔ مودی کے خلاف، نیتن یاہو کے خلاف اور سب سے بڑھ کر اپنے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے ساتھی طبقۂ اشرافیہ کے خلاف۔ زہران نوجوانوں کی آواز بن گیا، نہ صرف آواز بلکہ ان کے دلوں کی دھڑکن۔ اس نے ان کی دلی خواہشات کو زبان دے دی۔ انہیں زہران میں اپنا عکس نظر آنے لگا۔ نیویارک کے پرانے باسی بھی نئی امید کے ساتھ اس کے ہم سفر بن گئے۔ اس نے کہا کہ شہر عمارتوں کا نام نہیں بلکہ انہیں عمارتوں میں اینٹیں لگانے اور اُٹھانے والوں کا نام ہے۔ مشینری اس شہر کی پہچان نہیں، مشین چلانے والے ہی اصل ہیرو ہیں۔ اس نے کہا کہ فیصلہ امیروں نے نہیں، اس شہر کے غریبوں اور اسٹیک ہولڈرز نے کرنا ہے۔ اور پھر فیصلہ ہو گیا۔ نظام اور جمہوریت کی خوبصورتی دیکھیے کہ نہ محکمۂ زراعت کو کام کرنا پڑا، نہ ڈیگو ڈالے والوں کو زحمت اُٹھانا پڑی، نہ قومی مفاد آڑے آیا اور نہ نظریۂ ضرورت۔ نہ فارم 45 کی آواز آئی، نہ 47 کی بازگشت۔ ممدانی کے سینے پر غداری کا تمغہ بھی نہیں سجا۔ نہ کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے، نہ ایف آئی آر درج ہوئی۔ پیکا ایکٹ بھی استعمال نہیں کرنا پڑا اور یوں ممدانی جیت گیا۔ زمانے کے لیے ایک نئی روشنی، ایک نئی امید کہ طویل سکوت ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ حوصلے، یقین اور مستقل مزاجی کے ساتھ۔۔۔
طارق محمود 30 سال سے زائد عرصے سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان دنوں سماء ٹیلی وژن میں ڈائریکٹر نیوز کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔





















