بوڑھے باپ کے کاندھوں پر جوان بیٹے کا جنازہ اُٹھنے کو ہے، تڑپتی سسکتی ماں کو دلاسہ دینے والوں کا تانتا سا بندھا ہے، دوستوں کی آنکھوں میں آئے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے، وہ اپنے ارسل کو یاد کررہے ہیں جو نیگلیریا سے جاں بحق ہوگیا ہے۔
جی ہاں! کراچی کے 22 سالہ ارسل بیگ کا انتقال ہوچکا ہے، وہ 27 اکتوبر سے شہر قائد کے نجی اسپتال میں زیرِعلاج تھا، جس کی موت کی وجہ نیگلیریا بتائی جا رہی ہے لیکن دل بار بار یہی کہہ رہا ہے کہ ارسل نیگلیریا سے جاں بحق نہیں ہوا ہے بلکہ اس گلے سڑے نظام کی بھینٹ چڑھا ہے، جہاں لوگ زہر آلود پانی پینے پر مجبور ہیں، جہاں سیوریج کا پانی، پینے کے پانی میں شامل ہے، جہاں خوب دھڑلے سے پانی کے نام پر اربوں کی کرپشن ہو رہی ہے اور کوئی پوچھنے گچھنے والا نہیں۔
آج ارسل اللہ کو پیارا ہوا ہے کل کوئی اور بچہ اپنی جان سے جائے گا اور پھر پتہ ہے کیا ہوگا؟، پھر جناب عالی تعزیتی پیغام آئیں گے، احتیاطی تدبیریں بتائی جائیں گی، خوب اچھا بننے کی کوششیں کی جائیں گی اور دوسری جانب ناانصافی، لوٹ مار اور کرپشن کا بازار بھی خوب گرم رہے گا۔
اس سے پہلے کہ دردناک عذاب ’’خونِ ناحق‘‘ پر متعلقہ عہدیداروں اور شخصیات کو اپنی لپیٹ میں لے لے، خدارا کراچی کے اور بچوں کو مرنے سے بچایا جائے، پانی سے متعلق تمام تر معاملات کو ٹھیک کیا جانا انتہائی ضروری ہے۔
عوام کو صاف ستھرا پانی مہیا کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے، میری وزیرِاعلیٰ سندھ مقبول باقر سے اپیل ہے کہ وہ معاملے کا نوٹس لیں۔