غزہ میں جنگ بندی کا وقت شروع ہونے کے باوجود اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملے جاری ہیں، تازہ حملے میں مزید 3 فلسطینی شہید ہوگئے۔ اسرائیل فورس نے حماس کی جانب سے اسرائیلی قیدیوں کی فہرست فراہم نہ کرنے کا بہانہ بنا کر کارروائی کی۔ میڈیا کے مطابق جنگ بندی کا بالآخر تقریباً تین گھنٹے بعد آغاز ہوگیا۔ صہیونی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ فہرستیں ملنے تک حملے جاری رہیں گے۔ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 42 دنوں پر محیط ہوگا، 33 اسرائیلی اور 737 فلسطینی قیدی مرحلہ وار رہا ہونگے، اسرائیلی فوج شہری علاقوں سے نکل جائے گی۔ نیتن یاہو نے جنگ دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی دیدی، کہا کہ نئی جنگ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ شروع کرینگے، اسرائیلی فوج جنگ بندی کے دوران فیلاڈیلفیا کوریڈور میں رہے گی۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق غزہ میں جنگ بندی پر عملدرآمد کا آغاز ہوگیا، مقامی وقت کے مطابق سوا گیارہ بجے جنگ بندی شروع ہوئی۔
عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ہٹ دھرمی کے باعث جنگ بندی میں 3 گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان سوا سالہ سے جاری جنگ روکنے کا معاہدہ ہوگیا، جنگ بندی پر عملدرآمد کا باضابطہ آغاز مقامی وقت کے مطابق ساڑھے 8 بجے ہونا تھا تاہم اسرائیلی فوج کی جانب سے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فورسز نے جنگ بندی کا وقت شروع ہونے کے بعد بھی غزہ پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، جس میں مزید 3 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔
صہیونی وزیراعظم اور اسرائیلی فورسز کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے اسرائیلی قیدیوں کی فہرست فراہم کئے جانے تک حملے جاری رہیں گے۔
فلسطینی تنظیم حماس کے حامی میڈیا نے کہا ہے کہ اسرائیلی افواج نے جنگ بندی کے معاہدے کے آغاز سے قبل غزہ کے علاقے رفح سے مصر اور غزہ کی سرحد کے ساتھ فلاڈیلفیا کوریڈور کی طرف واپسی شروع کردی ہے۔
غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی فہرست جاری ہونے میں تاخیر پر حماس کا بیان آگیا۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ کچھ تکنیکی وجوہات کی بناء پر تاخیر ہورہی ہے، رابطوں میں رکاوٹ کے باعث پیغام رسانی میں مشکلات ہیں، ہم جنگ بندی معاہدے کے تمام نکات پر مکمل عملدرآمد کریں گے۔
اسرائیل وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک بار پھر دھمکی دی ہے کہ جب تک قیدیوں کی فہرست نہیں ملے گی جنگ بندی نہیں ہوگی۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اتوار کو علی الصبح حماس کے حامی میڈیا نے اطلاع دی کہ 3 مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی اتوار کو عالمی معیاری وقت کے مطابق صبح ساڑھے 6 بجے سے نافذ العمل ہوگی۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی اتوار کی صبح سے نافذ ہونے کے بعد یرغمالیوں کی رہائی کچھ گھنٹوں بعد ہوگی، جس سے مشرق وسطیٰ میں 15 ماہ سے جاری جنگ کے ممکنہ خاتمے کا راستہ کھل جائے گا۔
جنگ بندی کا یہ معاہدہ مصر، قطر اور امریکہ کی ثالثی میں کئی مہینوں تک جاری رہنے والی بات چیت کے بعد ہوا۔ یہ معاہدہ پیر 20 جنوری کو امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری سے چار دن پہلے طے پایا۔
جنگ بندی کے اس معاہدے کا پہلا مرحلہ 6 ہفتے تک جاری رہے گا، جس کے دوران غزہ میں موجود بقیہ 98 اسرائیلی یرغمالیوں میں سے 33 کو رہا کیا جائے گا جبکہ بدلے میں تقریباً 2000 فلسطینی قیدیوں اور نظربندوں کو اسرائیلی جیلوں سے واپس غزہ لایا جائے گا، ان فلسطینیوں میں 737 مرد، خواتین اور نوعمر قیدی شامل ہیں۔
معاہدے میں غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کے بتدریج انخلاء کی شرط بھی رکھی گئی ہے۔
اسرائیل نے ان مقامات کا نقشہ شائع کیا ہے جہاں غزہ میں فلسطینیوں کے جانے پر پابندی ہوگی۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان اویچائی ادرعی نے غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کو آج ہفتے کے روز جنوبی غزہ سے شمال کی طرف یا نیٹزارم روڈ کی طرف جانے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اب بھی خطرناک ہے۔
انہوں نے "ایکس" پلیٹ فارم پر اپنے اکاؤنٹ پر لکھا کہ معاہدے کی بنیاد پر اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی کے مخصوص علاقوں میں تعینات رہے گی، فوج کے قریب آنے پر بھی پابندی ہوگی۔
انہوں نے رفح کراسنگ کے علاقے، فلاڈیلفیا کوریڈور اور جہاں اسرائیلی فوج تعینات ہے ان تمام علاقوں تک پہنچنے کے خطرے سے بھی خبردار کیا۔
اویچائی نے کہا کہ پٹی کے ساتھ سمندری علاقے میں ماہی گیری، تیراکی اور غوطہ خوری خطرناک ہوسکتی ہے، ہم آنے والے دنوں میں سمندر میں داخل ہونے کیخلاف خبردار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "اسرائیلی علاقے اور بفر زون کے قریب جانا منع ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ہم غزہ معاہدہ اس وقت تک شروع نہیں کریں گے جب تک کہ ہم ان مغویوں کے نام حاصل نہیں کرلیتے جنہیں کل رہا کیا جائے گا، تل ابیب غزہ معاہدے کی کسی بھی خلاف ورزی کو برداشت نہیں کرے گا۔
اسرائیل وزیراعظم نے دھمکی دی ہے کہ اگر جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ کامیاب نہ ہوا تو جنگ دوبارہ شروع کردی جائے گی اور یہ پہلے سے زیادہ شدید ہوگی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا نیتن یاہو جو کرنا چاہیں کریں، امریکا کو اپنی عزت عزیز ہے، فریقین ہماری عزت کریں گے تو جنگ بندی جاری رہے گی۔