انسپکٹر جنرل ( آئی جی ) سندھ کے حکم پر ڈی ایس پی انٹیلی جنس کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی ) راجا عمر خطاب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
کراچی میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کی طرف سے شہری کی شارٹ ٹرم کڈنیپنگ اور اکاؤنٹ سے ساڑھے تین لاکھ ڈالر کی ڈیجیٹل کرنسی ٹرانسفر کرنے کے کے معاملے پر بڑی پیش رفت ہوئی ہے اور آئی جی سندھ کے حکم پر ڈی ایس پی انٹیلیجنس سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب اور ڈی ایس پی سی پیک راجا فرخ یونس کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
عہدے سے برطرفی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق دونوں افسران کو سی پی او آفس رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا۔
اعلیٰ پولیس حکام کے مطابق ایسا نہیں ہوسکتا کہ سی ٹی ڈی کی ایک ٹیم چھاپے پر نکلے اور انچارج لاعلم ہو اور اگر انچارج لاعلم تھا تو یہ نہ اہلی اور غفلت کی انتہا ہے، معاملے کی مکمل تحقیقات کے بعد پتہ لگایا جائے گا رقم کس کی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ کیس کے مرکزی ملزم سی ٹی ڈی اہلکار علی رضا سمیت 7 ملزمان فرار ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔
منگھو پیر کے شہری کے اکاؤنٹ سے 3 لاکھ 40 ہزار ڈالر ٹرانسفر کئے گئے تھے جبکہ واقعے میں ملوث اب تک 8 ملزمان گرفتار ہیں اور مزید تحقیقات جاری ہیں۔
راجا عمر خطاب کا موقف
راجا عمر خطاب نے معاملے پر اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام معاملے سے میرا کوئی تعلق نہیں اور معاملہ علم میں آنے کے بعد تحقیقات شروع کر دی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ 3 جنوری کو سی ٹی ڈی اہلکار کے خلاف مس کنڈیکٹ رپورٹ لکھی اور ابتدائی انکوائری میں علی رضا واردات میں ملوث پایا گیا جس کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں بھی روانہ کیں لیکن گرفتاری عمل میں نہ آسکی اور کوشش جاری رکھی۔