پاکستان میں اسٹارلنک انٹرنیٹ سروس لینے سے متعلق حکومتی فیصلے پر ایلون مسک کا ردعمل سامنے آگیا۔
پاکستانی سوشل میڈیا صارف کے خیرمقدمی بیان پر اسپیس ایکس کے سی ای او ایلون مسک نےکہا کہ اسٹار لنک سروس کے لیے حکومت پاکستان کی منظوری کے منتظر ہیں۔
اس سے قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کے اجلاس میں وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ نےکہا تھا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ایلون مسک کی سیٹلائٹ کمپنی اسٹار لنک کو پاکستان لے آئیں۔
یاد رہے کہ تین سال قبل ایلون مسک کی کمپنی اسٹار لنک کے وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور اس وقت کے وفاقی وزیرانفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق سے ملاقات کی تھی۔
سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی لاگت
اسٹارلنک سیٹلائٹ کے ذریعے ایسے علاقوں کو بھی انٹرنیٹ فراہم کرتی ہے جہاں یہ سہولت یا تو میسر نہیں ہے یا پھر اس کی رفتار بے حد سست ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت زمینی مدار میں اسٹار لنک کے 6 ہزار 764 سیٹلائٹ موجود ہیں جن میں سے 6 ہزار 714 سیٹلائٹ دنیا کے دور دراز مقامات کو تیز رفتار ا ور براڈ بینڈ انٹرنیٹ فراہم کر رہے ہیں۔
پاکستان میں روایتی براڈ بینڈ انٹرنیٹ کنیکشن کی تنصیب پر ابتدائی اخراجات کا تخمینہ 3 سے 4 ہزار روپے کے درمیان ہے جبکہ ماہانہ اخراجات بھی ایک ہزار سے 5 ہزار روپے تک ہوسکتے ہیں۔
کاروباری مقاصد کے لیے ابتدائی خرچ لاکھوں میں پہنچ سکتا ہے (جس کا انحصار اس ادارے میں انٹرنیٹ کی ضرورت پر ہے) جبکہ ماہانہ اخراجات بھی اسی تناسب سے ایک لاکھ یا 2 لاکھ روپے ہوسکتے ہیں۔
ایک عام صارف کے لیے سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس حاصل کرنے کا کم سے کم ابتدائی خرچ 45 ڈالر سے 300 ڈالر (تقریباً 11 ہزار سے 72 ہزار پاکستانی روپے) تک ہوسکتا ہے جبکہ ماہانہ اخراجات کا تخمینہ 65 سے 400 ڈالر (تقریباً 16 ہزار سے 96 ہزار پاکستانی روپے) کے درمیان ہے۔
ظاہر ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی اتنی زیادہ لاگت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا (شوقین مزاج مالداروں کو ہم مستثنیات میں شامل کررہے ہیں)۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ اگر آنے والے چند برسوں میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی لاگت کم ہوتے ہوتے موجودہ مالیت کا صرف دس فیصد رہ جائے تو شاید اسے ہمارے ہاں بھی مقبولیت حاصل ہوجائے۔