اعلیٰ تعلیم کی خواہش رکھنے والی خضدار کی پولیو سے متاثرہ جمیلہ کا کہنا ہے کہ پولیو مرض سے پریشان تو نہیں ہوں مگر جو خوشیاں ایک عام انسان کو حاصل ہیں ان سے محروم ضرور ہوں، پولیو مرض کے شکار ہونے سے قبل میں خود اپنے لئے چیزیں خریدنے دکان جاتی تھی اور کالونی کے اسکول بھی اکیلی جاتی تھی جب پولیو کا شکار ہوئی تو زندگی میں کافی تبدیلیاں آگئیں۔
بارہ بی بی جمیلہ نے سماء سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب میں 7 سال کی تھی، اس دوران مجھے اچانک سے درد محسوس ہوا کہ میں اپنے پاؤں سے چل نہیں سکتی ہوں جب میرے والد نے میرا علاج کرایا تو معلوم ہوا کہ پولیو کا شکار ہوگئی ہوں۔
جمیلہ کے والد 60 سالہ شاہ محمد نے بتایا کہ میں پیشے کے لحاظ سے مزدور ہوں، دن بھر مزدوری کر کے گھر کا چولہا جلاتا ہوں میں اپنی بیٹی اور زوجہ کے ہمراہ ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا ہوں، اس عمر میں بھی اپنی بیٹی جمیلہ کی خوشیوں میں کوئی کمی آنے نہیں دی، جمیلہ میرا بیٹا اور بیٹی بھی ہے کیونکہ میں اولاد نرینہ سے محروم ہوں، میری بیٹی میری زندگی ہے اور میری تمام خوشیاں میری بیٹی سے جڑی ہوئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کم عمری میں جمیلہ اپنی سہیلیوں کے ہمراہ ہمیشہ گلی میں کھیلتی تھی، گھر کا سامان بھی قریبی دکان سے لے آتی تھی، ایک دن قریبی اسکول گئی، واپسی پر ایک راہگیر نے اٹھا کر جمیلہ کو گھر پہنچایا، علاج کرنے پر معلوم ہوا کہ جمیلہ پولیو کا شکار ہوگئی ہے، پھر ان کیلئے اسکول جانا بند ہوگیا، کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ معذور افراد کیلئے الگ سے ایک اسکول ہے، جہاں معذور افراد کو پڑھایا جاتا ہے، اسپیشل اسکول انتظامیہ سے رابطہ کرکے وہاں پر جمیلہ کو داخل کرایا، اب وہ روزانہ معذور افراد کی بس میں اسکول جاتی ہے، گھر کے سامنے سے اسکول کی گاڑی انہیں اٹھانے آتی ہے۔
شاہ محمد نے مزید بتایا کہ شروع میں جمیلہ کیلئے کوئی سائیکل موجود نہیں تھی، ایک دن اسکول بس میں سوار کرنے گیا تو اس دوران وہ اچانک سے گرگئی مجھے بہت دکھ ہوا میں نے سوچا کہ جمیلہ کا اسکول جانا بند کروں لیکن یہ فیصلہ کرنا میرے لئے کافی مشکل تھا، کیوں کہ میری بیٹی کا کہنا ہے کہ وہ اسکول میں کافی خوش ہے اور وہ مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے، اپنی بیٹی کی خاطر مزدوری کرکے پیسے جمع کئے اور ان کیلئے سائیکل خریدی، جب سائیکل گھر لے آیا تو جمیلہ سائیکل دیکھ کر بہت خوش ہوگئی۔
ان کا کہنا ہے کہ جمیلہ نے اسپیشل اسکول میں پانچویں جماعت پاس کرلی ہے مگر اس اسکول میں مزید آگے تعلیم فراہم نہیں کی جاتی جبکہ میری بیٹی کی خواہش کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے والدین کا نام روشن کرے، اب وہ اسپیشل اسکول میں صرف کڑھائی، سلائی سیکھ رہی ہے، اس کیلئے سلائی مشین خریدنے کی خواہش رکھتا ہوں۔
نیشنل اسپیشل ایجوکیشن سینٹر خضدار میں عدم پالیسی کا شکار
جمیلہ نے اپنی معزوری کو نظر انداز کرتے ہوئی نیشنل اسپیشل ایجوکیشن سینٹر خضدار میں پانچویں جماعت پاس کرلی ہے 1987میں قائم ہونے والایہ ادارہ معزور افراد کے لئے تعلیم کا مرکز ہے2002میں اس اسکول کے لئے حکومت کی جانب ایک منفرد کمپلیکس تعمیر کیا گیا جس کی خوبصورتی اپنی مثال آ پ ہے اور بلوچستان میں شاہد ہی کسی اسکول کا بلڈنگ اس قدر خوبصورت اور اچھی طرز کا ہوعرصہ دراز سے اس اسکول میں صرف پرائمری لیول تک تعلیم فراہم کی جاتی ہے مڈل سیکشن کے لئے کلاسز اور ہاسٹل کی سہولت بھی دستیاب ہے لیکن حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ یہ قومی ادارہ بحران کا شکار ہے۔
نیشنل اسپیشل ایجوکیشن کمپلیکس خضدار کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالحکیم ساسولی کا کہنا ہے کہ اس ادارے میں چار قسم کی معذوری کا شکار 150 کے قریب بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کررہے ہیں، قوت سماعت اور گویائی سے محروم بچوں کو سائن لینگویج کے ذریعے پڑھایا جاتا ہے، جسمانی معذور اور بصارت سے محروم بچوں کیلئے الگ کلاسز کا انعقاد کیا جاتا ہے اور آہستہ سیکھنے والے بچوں کو کھیل کے ذریعے تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پانچویں جماعت پاس لڑکوں کیلئے ٹیلرنگ اور لڑکیوں کیلئے سلائی، کڑھائی سکھانے کیلئے الگ سے کلاسز موجود ہیں اور کمپیوٹر کی کلاسز کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے، یہ تمام ہُنر سکھانے کا مقصد اسپیشل بچوں کو معاشرے میں خود کفیل بنانا ہے۔
عبدالحکیم ساسولی کا کہنا ہے کہ اس ادارے کو بجٹ اور سلیبس میں مشکلات کا سامنا ہے، معذور بچوں کو عام کتابوں سے پڑھانے پر مجبور ہیں، حکومت کی جانب سے گاڑیوں کے ایندھن کیلئے بھی مناسب بجٹ نہیں ملتا، ہم اپنی مدد آپ اور مقامی لوگوں کے تعاون سے بچوں کیلئے کپڑے اور اسٹیشنری خریدتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس ادارے کا بنیادی مقصد معذور افراد کی بحالی ہے، اس مقصد کیلئے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے مگر اسکول میں ماہرین کی اسامیاں خالی ہیں، کئی دہائیوں سے تعلیم کی فراہمی کیلئے کوشاں اس ادارے کو مڈل اسکول کے طرز پر تعمیر تو کیا گیا ہے مگر یہاں صرف پرائمری لیول تک تعلیم کی سہولت موجود ہے، اسکول کے بچوں نے جون 2022ء میں صدر پاکستان سے ملاقات کے دوران اسکول کو مڈل کا درجہ دینے کیلئے مطالبہ کیا تھا، جس پر صدر پاکستان نے متعلقہ ادارے کو خط ارسال کرکے ایک کاپی معذور بچوں کو فراہم کی تھی مگر آج تک اس پر کوئی عملدرآمد نہ ہوسکا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر نیشنل اسپیشل ایجوکیشن کمپلیکس خضدار نے مزید کہا کہ کوئٹہ، کیچ، سبی اور خضدار میں اسپیشل بچوں کیلئے تعلیمی ادارے موجود ہیں، 18ویں ترمیم سے قبل یہ تعلیی ادارے وفاقی حکومت کے اختیار میں تھے، اس ترمیم کے بعد یہ تمام ادارے صوبائی حکومتوں کے پاس آگئے، جس کے بعد خضدار میں اسپیشل کمپلیکس 3 سال تک بند رہا، طویل کوششوں کے بعد اس ادارے کے دروازے دوبارہ کھل تو گئے مگر یہ ادارہ جزوی طور پر کام کررہا ہے۔
اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایک مختصر سا بجٹ ملتا ہے، جس کی مدد سے ہم صرف اسکول سے چند کلومیٹر فاصلہ پر واقع معذور بچوں کو تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں، ہمارے پاس اتنا ایندھن نہیں کہ ہم پورے شہر میں بسوں کو چلائیں، اگر مناسب بجٹ ملتا ہے تو شہر اور قریبی علاقوں تک ہماری بسیں سفر کریں گی، سلیبس اور اسٹیشنری سمیت معذور افراد کو کھیل و دیگر شعبوں میں ترقی میسر ہوگی، باہمت بچوں کیلئے مشینری اور ضروری آلات کی بھی ضرورت ہے، ہاسٹل کی بحالی اور ماہرین امراض کی مدد سے معذور بچے ہمارے معاشرے میں برابری کا مقابلہ کرسکتے ہیں یہ سب صوبائی حکومت کے تعاون سے ممکن ہے۔
ستاسی فیصد معذور افراد تعلیم کے زیور سے محروم
پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی رپورٹ کے مطابق صوبہ بلوچستان میں 20 ہزار 825 معذور افراد رجسٹرڈ ہیں (جبکہ نادرا کے پاس رجسٹرڈ معذور افراد کی تعداد 50 فیصد ہے، نادرا کے مطابق 2020ء میں بلوچستان کے اندر 10 ہزار 545 معذور افراد رجسٹرد تھے جبکہ سال 2021 میں پاکستان میں 3 لاکھ 71 ہزار 833 معذور افراد رجسٹرڈ ہوئے جن میں سب سے زیادہ 2 لاکھ 95 ہزار 93 جسمانی طور پر معذور افراد شامل تھے)۔
بلوچستان میں شہروں کے مقابلے میں دیہاتوں میں معذور افراد کی تعداد 66 فیصد ہے، ایک سال سے 18 سال کی عمر کے بچوں کی تعداد 10ہزار 372 ہے، جن میں بچیوں کی تعداد 25 فیصد ہے اور اس میں ٹرانسجینڈرز بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صوبے میں 3 ہزار کے قریب معذور افراد خدمات سر انجام دے رہے ہیں جبکہ 1600 معذور افراد کام کی تلاش میں ہیں، صوبے کے 10 ہزار 372 معذور بچوں میں 2 ہزار 748 تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ 5 ہزار 780 معذور بچے اسکول سے باہر ہیں، 66 فیصد طلباء میٹرک سے قبل اسکول چھوڑ دیتے ہیں اور 20 فیصد میٹرک (بشول 3 فیصد بچیاں) اور صرف 5 فیصد اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تعلیم حاصل کرنیوالوں میں بچیوں کی تعداد بہت کم ہے، 4 ہزار 79 بچے گھروں میں ملازمت کرتے ہیں، 2 فیصد اپنی مہارت سے اپنے حصہ کا چولھا جلانے کیلئے معاشرے میں پنجہ آزمائی کرتے ہیں جبکہ صوبے میں 5 ہزار 585 افراد تعلیم سے آراستہ ہیں اور 13 ہزار 396 افراد تعلیم کی زیور سے محروم ہیں۔
یاد رہے کہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو سالانہ رپورٹ ہوتے ہیں یا نادرا کے پاس رجسٹرڈ ہوتے ہیں، سال 2018ء میں بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام و دیگر این جی اوز کے تعاون سے معذور افراد پر بلوچستان کے 7 اضلاع کی 211 یونین کونسلز میں ایک سروے کیا گیا تھا، اس سروے کی رپورٹ میں معذور افراد کے بنیادی حقوق سمیت مسائل بھی اجاگر کئے گئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 211 یونین کونسلز میں 4 ہزار 709 معذور افراد موجود ہیں، جن میں 63 مرد، 37 خواتین ہیں۔ اس رپورٹ سے اندازہ ہوجاتاہے کہ زیادہ تر معذور افراد رجسٹر نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں، 42.4 فیصد معذور افراد معذوری کی وجہ سے اسکول نہیں جاسکتے ہیں، 20.5 فیصد غربت کی وجہ سے، 9.2 فیصد ضروریات، 2.9 فیصد عمر اور 25 فیصد معذور افراد اسکول نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں۔
اس سروے کے مطابق صرف 13 فیصد معذور افراد تعلیم حاصل کرتے ہیں، باقی 87 فیصد معذور افراد تعلیم کے زیور سے محروم ہیں اور ایک فیصد معذور افراد ملازمت کرتے ہیں۔
بلوچستان میں آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر معذور افراد رجسٹرڈ بھی نہیں ہوتے، نیشنل اسپیشل ایجوکیشن سینٹر خضدار میں ملازم کے طور پر کام کرنے والے نصیر احمد نے ہمیں بتایا کہ ایک دفعہ انہیں دو معذور بچوں کی خبر ملی، جنہیں اپنے ادارے میں داخل کرانے کا ارادہ کیا اور کار خیر میں معذور بچوں کے والدین کو رضامند کرنے میں کامیاب بھی ہوا، چند ہفتے بچوں کو اسکول میں گزر گئے اور ایک دن بچوں کے والد جو پیشے کے لحاظ سے مزدور ہے انہوں نے بچوں کیلئے اخراجات اور فنڈ کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ جب انہیں بتایا گیا کہ ادارے کی طرف سے فنڈ نہیں دیا جاتا بلکہ صرف پڑھایا جاتا ہے تو انہوں نے ہم پر مختلف الزامات تراشیاں کر کے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے منع کردیا، ان بچوں کا ب فارم یا کسی اور ادارے کے ذریعے رجسٹریشن بھی نہیں ہوئی تھی۔
معذور طلباء کا حکومت سے حق دینے کا مطالبہ
نیشنل اسپیشل ایجوکیشن سینٹر خضدار میں زیر تعلیم پولیو کا شکار جمیلہ کی کہانی سے ملتی جلتی کہانی 10 سالہ شاہ زیب اور ہربیار کی بھی ہے۔ شاہ زیب کے والد گل حسن نے بتایا کہ شاہ زیب پیدائشی طور پر چل نہیں سکتاْ انہوں نے بتایا کہ شاہ زیب کا علاج کرانے ان کو ہر بڑے شہر لیکر گیا لیکن علاج ممکن نہ ہوسکا، اب وہ مجبوراً اسپیشل اسکول میں پڑھ رہا ہے، میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا ٹھیک ہوکر ایک عام اسکول میں تعلیم حاصل کرے لیکن اس اسکول میں بھی وہ کافی خوش ہے، پہلے کھڑا نہیں ہوسکتا تھا اب تھوڑا بہت چل بھی سکتا ہے۔
شاہ زیب کے اسکول کے دوست ہربیار کے دادا محمد یوسف اور نانا محمد ابراہیم کرد نے بتایا کہ ہربیار پڑھائی میں بہت اچھا ہے، اسے پہلے کسی چیز کا خیال نہیں تھا، ایک جگہ سے اٹھ بھی نہیں سکتا تھا تمام تر ذمہ داریاں گھر والوں پر ہوتی تھیں لیکن اب اسکول میں داخل کرانے کے بعد ہربیار دوڑ بھی سکتا ہے اور قریبی رشتہ داروں اور اپنے دوستوں سے ملنے بھی جاتا ہے، کالونی کے دوست پیار سے اس کو ”میر“ کہتے ہیں جبکہ اسکول میں انہیں ”بھائی“ کے نام سے پکارتے ہیں۔
نیشنل اسپیشل ایجوکیشن سینٹر خضدار میں بطور معلمہ خدمات سرانجام دینے والی اسماء گل نے بتایا کہ ان بچوں کو تعلیم دیتے ہوئے روح کو سکون ملتا ہے، 11 سال کے عرصے کے دوران ان بچوں سے ایک بڑا رشتہ قائم ہوا ہے، تمام بچوں کو اپنے بچوں کی طرح محسوس کرتی ہوں، ایسا لگتا ہے یہ ہمارے اپنے گھر کے بچے ہیں، ان بچوں کو پڑھانا میرے لئے خوش نصیبی کی بات ہے اور یہ آخرت کیلئے ایک کار خیر ہے، ان جیسے خاص بچوں کو عام بچوں کی نسبت سمجھانا تھوڑا مشکل ضرور ہے مگر اب اس کی عادت بن گئی ہے۔
معذور افراد سمیت دیگر شعبے 2010ء میں 18ویں آئینی ترمیم کے بعد وفاق صوبوں کو ملنے سے مزید ابہام پیدا ہوگئے ہیں، معذور افراد دوگنا ہوگئے ہیں، کوئی مرکزی رابطہ کاری اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کا طریقۂ کار نہیں ہے، وفاقی، صوبائی اور ضلعی حکومتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی طرف سے کی گئی کوششیں بہت بکھری ہوئی ہیں، تمام صوبے اور اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری اس سے نمٹنے کے ذمہ دار ہیں، روزگار، بحالی، تعلیم اور معذور افراد کی تربیت سمیت متعلقہ قوانین کا ہونا ضروری تھا۔
آرٹیکل 38 ڈی لوگوں کی سماجی اور معاشی بہبود کے فروغ کے بارے میں بات کرتا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ ایسے افراد جو مستقبل یا عارضی معذوری کی وجہ سے اپنی روزی کمانے سے قاصر ہیں انہیں ریاست کو زندگی کی بنیادی ضروریات جیسے خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور طبی امداد مہیا کرنا ہوں گی، یہ آرٹیکل تمام معذور افراد کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔