ڈپٹی چیئرمین سیدال خان ناصر کی زیرصدارت سینٹ کا اجلاس ہوا جس دوران سینیٹر کامران مرتضیٰ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علی ظفر کا موقف ہے کہ خیبرپختونخوا کے سینیٹرز نہیں ، ایک صوبے کے سینیٹرز ہی ایوان میں نہیں تو یہ بجٹ ڈی فیکٹیو ہے ،آہستہ آہستہ معلوم ہوا ہماری تجاویز کا کوئی فائدہ نہیں۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہناتھا کہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایوان خودمختار ہے، کتنا خودمختار ہے یہ سب کو معلوم ہے ،ایس آئی ایف سی کے ادارے میں وزیر اعظم اور فوجی شامل ہیں،چھوٹے صوبوں کو جو اختیارات ملے انہیں بھی چھیننے کی کوشش کی جاتی ہے ،پی ٹی آئی دور میں این ایف سی ایوارڈ پر حملہ کیا گیا لیکن عدالتی آرڈر سامنے آگیا تھا۔
سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ بلوچستان اور کے پی کےچھوٹے صوبے ہیں لیکن کسی کو نظر نہیں آتے،پاکستان میں 76سالوں میں کبھی منتخب حکومت نہیں آئی اس بار زیادہ بلنڈر کیا گیا،اس بجٹ میں برہمن اور شودر کی طرح فائلر اور نان فائلر والی بات کی گئی۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہناتھا کہ دستور کے حوالے سے پہلا تضاد یہ ہے کہ ہم ایوان زیریں کو سفارشات دے سکتے ہیں ،سفارشات تو صرف دی جا سکتی ہے قومی اسمبلی مانے نہ مانے ،فیڈرل کنسولیڈیٹ فنڈ پر ہم ووٹ نہیں کر سکتے ،این ایف سی ایوارڈ پر تین سال سے زائد عرصہ گزر گیا کچھ نہ بن سکا،ایس آئی ایف سی ایسے ہی ہے جیسے کوئی میلہ کسی دیہاتی کی چادر چرانے کیلئے لگایا گیا ہو ۔
سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ کہا گیا کہ اس سے فاسٹ ٹریک پر فیصلہ ہوتے ہیں لیکن بلوچستان اور کے پی پر یہ ہمیشہ خاموش رہتا ہے ،معاشی انصاف کو قائم نہ رکھنامیرے صوبے کی عوام کی احساس محرومی کی اصل وجہ ہے ،دس لوگ کوئٹہ میں اغواء ہوئے ہیں، اب ان کے خاندان ان کے زندہ یا مردہ لوٹنے کے منتظر ہیں ،یہاں 76 سالوں میں انقلاب نہیں آیا ۔
ان کا کہناتھا کہ یہاں حکومت عوامی انتخاب سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے انتخاب سے آتی ہے ،ان ڈائریکٹ تو سب ٹیکس دے رہے ہیں ،اگر کوئی براہ راست ٹیکس دینے کے قابل نہیں تو ہم شہریوں کے بنیادی حقوق کیسے چھین سکتے ہیں ،بلوچستان میں مسنگ پرسن کا مسئلہ بیس سال سے چل رہا ہے ،اب پنجاب اور سندھ سے بھی بچے اٹھائے جا رہے ہیں۔
سینیٹر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ چمن کا دھرنا کتنے عرصے سے چل رہا ہے کیا وہ انسان کے بچے نہیں ہیں ،ہمیں پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہیں جانا چاہیئے ،ڈی چوک میں غزہ مظاہرے میں شریک افراد کو مار دیا گیا اس پر بھی رپورٹ اس ہاؤس کو نہیں دے گئی،اس ایوان سے اگر ہم اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم اجتماعی بد دعائیں ہی دی جائیں ۔
سینیٹر علی ظفر
سینیٹر علی ظفر نے سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنےاخراجات کم کرے،کمرتوڑٹیکس والابجٹ منظورہوگیاتوبہت جلد انقلاب آجائےگا،جب کوئی غیرنمائندہ حکومت ٹیکس لگاتی ہےتوردعمل آتاہے،عوام نےمینڈیٹ پی ٹی آئی کودیا،حکومت کسی اورنےبنالی،یہ حکومت عوام کی نمائندگی نہیں کررہی۔
سینیٹرعلی ظفرکاکہناتھا کہ بجٹ میں اُمیدکی کرن نظرنہیں آتی،یہ عوام دشمن بجٹ ہے،ٹیکس دہندگان کی کمرتوڑدی گئی،ہماری طرف سےاُٹھائےگئےنکات کا جواب کون دے گا؟وزیرخزانہ کوآج سینیٹ میں موجودہونا چاہیےتھا،ایوان میں حکومت کاکوئی ذمہ دارنہیں۔
فیصل واوڈا
سینیٹر فیصل واوڈا نے سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں ایک ایس آر او نکالا گیا ، ایک آٹو موبائل کمپنی کو پہلے فائدہ پہنچایا گیا اور کہا گیا کہ یہ میرا بزنس تھا ، میں بتا دینا چاہتا ہوں میرا اس سارے عمل میں کوئی لینا دینا نہیں، اس عمل میں ملوث افراد کی نشان دہی کر کے سزا دی جائے، الیکٹرک کاروں پر ڈیوٹی لگائی گئی ، اگر یہ سب کچھ ہماری چھتری کے نیچے ہو رہا ہے تو یہ ظلم ہے، حکومتی پالیسیوں سے چھیڑ چھاڑ کس نے کی؟وزراکہہ رہےہیں ہمیں نہیں پتا، سیکرٹریزکہہ رہے ہیں ہمیں نہیں پتا، ایف بی آر کہہ رہا ہمیں نہیں معلوم۔
محسن عزیز
محسن عزیز کا کہناتھا کہ ایک آٹو موبائل کمپنی نے انڈر انوائسنگ کی،ایس آر او کبھی جاری ہوا بھی تومیرے علم میں نہیں، جب ایس آر او جاری ہوا فیصل واوڈا وزیرتھے ، فیصل واوڈا نے مجھ سے منسوب پورا سچ نہیں بولا ،ایس آر او کا الزام پی ٹی آئی پر نہ لگائیں ،ایک انفرادی شخص یا کمپنی نے فائدہ اٹھایا ،پی ٹی آئی نےایکشن نہیں لیاتوموجودہ حکومت کیوں ایکشن نہیں لےرہی،شرم کامقام ہےہم 40سال سےصرف گاڑیاں اسمبل کررہےہیں مینوفیکچر نہیں،یہ ہمارا ملک ہے ہمیں اس کو مافیا سے بچانا چاہیے۔