سپورٹس سائیکالوجی بہت دلچسپ اور وسیع موضوع ہے سپورٹس سائیکالوجی کو سمجھے بغیر دنیا کا کوئی بھی کھیل سمجھناممکن ہی نہیں۔ جب دنیابھر میںدیگر شعبۂ زندگی میںترقی ہونے لگی تووقت کے ساتھ ساتھ سائیکالوجی یعنی شعبۂ نفسیات کی اہمیت بھی بڑھنے لگی اورمختلف کاموںمیں سائیکالوجی کوسمجھنے کی کوشش کی جانے لگی جس کی مثال بجلی کی طرح ہے یعنی جیسے آج ہماری زندگی میں کوئی بھی کام بجلی کے بغیر ممکن نہیںرہا، اسی طرح کوئی بھی کام نفسیات کو سمجھے بغیر ممکن نہیں۔
سپورٹس سائیکالوجی کے حوالے سے معروف ماہرِ نفسیات ڈاکٹر صداقت علی نے سماء ویب سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب کھلاڑیوں نے کھیلوں میں غیرمعمولی طورپر نمایاں کارنامے سرانجام دینے شروع کئے تو اس سے اندازہ ہوا کہ اونچے درجے کے کھیلوں میںانسانی نفسیات کا خاصاعمل دخل ہے ۔یہ بھی دیکھا گیا کہ کسی دن جذبات یا خیالات میںذرا بھی اونچ نیچ ہوئی ہو تو کھلاڑیوں کی پرفارمنس متاثر ہوتی ہے جس کے نتیجے میںہم اکثرکھلاڑیوں سے یہ سنتے ہیںکہ’’ آج میں زون(Zone) میں نہیں تھا، ردھم(Rythem) میںنہیں تھا کچھ دن ایسے بھی ہوتے ہیں جس میں کھلاڑی اپنے آپ کوذہنی طورگراوٹ کا شکارمحسوس کرتا ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جسمانی طور پر بھی فٹ(Fit) نہیں ہوتااور انرجی کی کمی کی وجہ سے وہ دوسروں(تماشائی اور حریف) کاسامنا کرنے میںدشواری محسوس کرتا ہے۔
کھیلوں میں ماہرِ نفسیات کی ضرورت کیوں؟
ان مسائل کو دیکھتے ہوئے کھلاڑیوں کوذہنی اور جسمانی طور پر تیار کرنے کے لئے مختلف شعبوں میں کوچز(Coaches) کی ضرورت محسوس کی گئی جنہوں نے کھلاڑیوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان کا مورال بلند کرنا ،امید دلانا، روشن خیالی پیدا کرنے کی تربیت دیناشروع کی۔ بعد ازاں اونچے درجے کے کھلاڑیوں نے سپورٹس سائیکالوجی کی مدد سے اپنے کھیلوں کو بہتر بنایااور اپنی صلاحیتوں کومزید نکھاراجس کے نتیجے میںیہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کچھ کھلاڑی لمبے عرصے تک اپنے کھیلوں کو مستحکم کرنے کے قابل ہوئے ہیں ۔انہوں نے گولڈمیڈل جیتے، اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ممتاز مقام حاصل کیا۔ان میں سے بعض کھلاڑیوں نے عروج کی طرف سفر کیا تو کچھ زوال پذیرہوئے،پھر انہیںدوبارہ عروج حاصل کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔اس کے علاوہ کھیل کے دوران چوٹ کھا جاتے ہیں،ذہنی یا جسمانی جھٹکا لگتا ہے ان تمام محرکات کوسپورٹس سائیکالوجی میںگذشہ35برسوں کے دوران بہت گہرائی سے دیکھا اور سمجھاگیا۔
فزیوتھراپسٹ توموجود ہوتے ہیں!!
عام طور پر کھیلوں میں کوچزکے ساتھ فزیوتھراپسٹ توموجود ہوتے ہیںمگراب اونچے درجے کے کھیلوں میں فزیوتھراپسٹ بھی ہوتے ہیں اورگذشتہ0 3برس سے رواج زیادہ ہے۔اولمپکس کے مقابلوں میںایک خاص دن کھلاڑی ذہنی،معاشرتی طور پر فٹ ہوتا ہے اس کی نیند پوری ہوتی ہے،اس نے کھانا ٹھیک سے کھایا ہوتا ہے۔اونچے درجے کے کھیلوں میں کھلاڑیوں کا فرق بہت کم ہوتا ہے مہارت کے لحاظ سےکسی خاص دن کسی کھلاڑی کا مزاج فیصلہ کرتا ہے ہار جیت کا۔
کھلاڑی کی سیلف ٹاک ضروری کیوں؟
سٹریس کو ریلیکسیشن میں بدلنااور مقابلے کے لئے تیار ہونا۔ایک دوسرے کا مورال خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیںایسے میں جن کھلاڑیوں کی سیلف اسٹیم(Self Esteem)کم ہوتی ہے ان کا کھیل فوری طور پر گراوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ایسے میں کھلاڑی کی سیلف ٹاک کرنا ضروری ہوتی ہے۔یکدم یہ سوچے کہ میں نہیں جیت سکتا،یا وہ اپنے کھیل سے مطمئن ہوکہ وہی جیتے گاجس کے جسم میں لچک ہوتی ہے اور اسے اپنی پرفارمنس پر اعتبار ہوتا ہے کہ آج میں ہی جیتوں گا۔
کھلاڑی ہارتا کیوں ہے؟
کیپٹین کا مورال گرایا جاتا ہے۔ہوم گراؤنڈ ایڈوانٹیج ہوتا ہے تماشائیوں سے بھی ہمت بندھتی ہے اور جیت کا جذبہ مضبوط ہوتا ہے اورنفسیاتی سہارا ملتا ہے۔اس کے برعکس صورت حال ہوتو اپنے سٹریس کو کیسے قابو میں رکھیں۔ایک کھلاڑی جو بال پہ نظر رکھتا ہے وہ زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہےبہ نسبت اس کے جو اس فکر میں مبتلا رہتا ہے کہ میں ہار گیا توکیا ہوگا۔
ہارنے کا امکان ہارنے کے لفظ کے ساتھ بڑھتا چلاجاتا ہے۔جو کھیل پر فوکس کرتے ہیں وہ کھیل ضرورتوںکے مطابق لمحہ بہ لمحہ اپنی صلاحیتوں کو مدِ نظررکھتے ہیںاور قطعی طور پر منفی سوچ کو آڑے نہیں آنے دیتے۔بعض دفعہ کھلاڑیوں کامنفی سوچناکہ اگر اچھا نہ کھیلے تو ٹیم سے نکال دیئے جائیں گے۔ ریٹنگ کم ہوجائے گی نتیجے کے بارے میں پریشان رہتے ہیںہارنے کا خوف کھیل کو بہت زیادہ متاثر کرتا ہے۔انسانوں کے دماغ اور کوآرڈینیشن کو کم کردیتا ہے سٹریس میں دماغ سے نکلی ہوئی کمانڈپر جسمانی اعضاء پوری طرح عمل نہیں کرتے کیونکہ یہ بڑاپیچیدہ معاملہ ہے کہ کس طرح پہلے کھلاڑی کے دماغ میں وہ موومنٹس تبدیل ہوتی ہیں۔بعد میںا س نے عمل درآمدکروانی ہوتی ہے کون ساکھلاڑی جیتے گا۔کچھ کھلاڑی فطری طور پر اپنے سٹریس پر قابو پانے میں مہارت رکھتے ہیںتو ان کے حالات پر قابو پاناآسان ہوتا ہے اس لئے کچھ کھلاڑی نچلے درجے کے کھیلوں میں تو اچھا پرفارم کرتے ہیں مگر فائنل کھیلوں میںسٹریس بڑھ جاتا ہے توپرفارمنس اچھی نہیں ہوتی۔ایسے میں بہتر ہے تیاری کے دوران کوچ نے جو تیاری کروائی ہے انہیں تھکانے(Exersion)سے بچا نے کی کوشش کریں۔
کوچ کی غلطی؟
ایسے میں کوچ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیںکہ کھلاڑیوں کوزیادہ سے زیادہ پریکٹس کروائیںجس سے کھلاڑی تھک جاتے ہیں۔ میرے خیال میں جب مقابلے قریب آرہے ہوتے ہیں کھلاڑیوں کو تھکنے سے گریز کرناچاہیے۔کھلاڑی کا پریکٹس کے دوران تھکنا پہلی غلطی ہے جبکہ دوسری غلطی یہ ہوتی ہے لمبی تھکان کے بعدکھلاڑی کو لمبے آرام کرنے کا کہہ دیا جاتا ہے جو انتہائی نقصان دہ ہے ۔آرام غیرضروری طور پر نہ کریں مسلسل آرام نہ کریں دوہفتے کھیلنے کے بعد مسلسل دو ہفتے آرام نہ کریں۔وقت مقرر کریں دورانیہ کم رکھیں اور ریسٹ زیادہ کریں۔ورنہ بعض اوقات ریسٹ کرنابھی ذہنی تھکاوٹ کا باعث بنتاہے۔
ورک ریسٹ سائیکل کو لہروں کی شکل میں ہونا چاہیے اگر کسی کو زیادہ کھیلنا ہے فرض کریں 14گھنٹے کھیلنا ہے تو 4گھنٹے کھیلنے کے بعد ایک گھنٹہ ریسٹ کریںاور ایک حد سے زیاہ کھیلنا نہیں چاہیے۔کوئی بھی کھیل 8گھنٹے سے زیادہ کھیلنا بھی نہیں چاہیے.کیونکہ8گھنٹے سے زیادہ کھیلنے کے لئے دن بھی 24گھنٹے سے زیادہ چاہیے جو کہ ممکن نہیں ہے۔
زندگی میں کوئی بھی کھیل ہویا بزنس بھی...اگر کوئی کر لیتا ہے تو یکدم چھوڑ کر آرام نہیں کرناچاہیے۔ اکثر لوگ بزنس کرنے والے چھٹیوں پر چلے جاتے ہیں واپس آکرزیادہ برے حال میں ہوتے ہیں۔ 12گھنٹے کام کرنے کے بعد یکدم نہ چھوڑیں۔ ہر روز 20%کم کر دیں ، 40%رہ جائے تو اسے جاری رکھیں باڈی بلڈرز بھی آہستہ آہستہ وزن بڑھاتے ہیں۔جب وزن بڑھ جاتا ہے تو ایک جگہ ایگزرشن exersion ہوجاتی ہے ۔اس کا طریقہ یہ ہے وزن کو ایک دم نہ بڑھائے بلکہ بڑھائے اور کم کرے،پھر بڑھائے اور کم کرے تاکہ یکسانیت سے بچا جا سکے۔
کھلاڑی کواپنے اندر کی آواز کو دبانا نہیں چاہیے
حد سے بڑھ جائے تو ...آرام کرے یا کام کرے تو یکسانیت آجاتی ہے ۔ایکسرسائزکرتے ہوئے ایک خاص حد کو چھو کر نیچے آنا اور اوپر جانا چاہیے،کھلاڑی کواپنے اندر کی آواز کو دبانا نہیں چاہیے۔بعض دفعہ ہار اپنے کھلاڑیوں کو زیادہ مشکل موقع د یتی ہے کہ وہ اور محنت کریں اور ہارے ہوئے کھلاڑی میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ کہہ سکے کہ میں اس سے زیادہ نہیں کر سکتا،ذہنی اور جسمانی فٹنس بھی ایک ساتھ ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتو مورال نیچے آجاتاہے ایسے میں اپنے اندر کی آواز کو سننا بہت ضروری ہے۔پہلی بات یہ کہ ورزش کا طے شدہ پلان ہے اس سے تجاوز نہ کریںفوراً تھکاوٹ نہیں ہوتی بلکہ چند گھنٹے بعد ہوتی ہے۔اکثر لوگ جب ورزش کر رہے ہوتے ہیں تو اپنی سکت کی آخری حدوں کو چھُونے لگتے ہیں۔اس وقت لگتا ہے سب ٹھیک ٹھاک ہے اگر صبح اٹھتے ہوئے تازہ دم محسو س نہ ہوتوپچھلے دن کی ورزش کا جائزہ لیںدنیا میں زیادہ تر ورزش کرتے ہی نہیں ہیں۔جتنی ورزش کی ضرورت ہے وہ کرتے ہی نہیں ہیں ۔
لالچ نہ کریں
کھلاڑیوںکا ہر کام اور مقدارطے شدہ ہوتا ہے لیکن اس وقت انہیں لگتا ہے دو چکر اور لگا سکتا ہوں ۔صبح اٹھ کر 5،6لیٹر پانی لی لیںتو ٹوکسکس نہیںبنتے۔جب ضرورت سے زیادہ جسم تھک جائے تو جسم میں فاصد مادے بن جاتے ہیں ،جسے خارج کرناضروری ہے۔پانی پئیں اور پیشاپ سے نکال دیں جو کہ آسان ہے اگر ایسا نہیں کریں تو فاصد مادے کافی دن خون میں رہیں گے اور اس کا اثرآپ کی پرفارمنس میں نظر آئے گا۔پُرجوش ہونے میں برائی نہیں ہے مگر بزنس مین بھی دل کے دوروں کی وجہ سے ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔جیسے کہتے ہیں پُرجوش گھوڑابے لگام۔
ہر چیز میں اعتدال ضروری ہے
بلڈ پریشر،شوگر، کولیسٹرول۔کسی بھی ٹیم میں 11کی جگہ بنانا بڑا مشکل کام ہے،نیوٹریشن کا کام ہے بیلنس ڈائیٹ لیں پروٹین شامل کریں ورزش کو معمول بنائیں۔شکر کا استعمال کریں۔انرجی ڈرنکس ،کیفین کا استعمال ترک کریں۔
الکوحل کااستعمال کھیل کو متاثر کرنے کا باعث بنتا ہے۔اسی طرح بعض اوقات سٹیرائڈز کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں عارضی پن کو ترجیح دیتے ہیں۔اگر جیت بھی گئے تو بعد میں نقصان ہوگا،بہت ضروری ہے کہ سپورٹس سائیکالوجسٹ اسے اعتدال میں رکھے۔ورزش بذاتِ خود بہت اچھی چیز ہے مگر اعتدال سے کریں تو فائدہ ہوگاورنہ نہیں۔موسم ، عمراور کھلاڑی کے وزن کومدِ نظر رکھنا چاہیے
برِ صغیر کے ہر کھلاڑی کو وہم ہوتا ہے کہ پسینہ نہ آئے تو ورزش کا اثر نہیں ہوا۔ ۔
مینٹل ٹفنیس کیسے سیکھیں؟
مینٹل ٹفنیس پڑھنے سے نہیں سیکھنے سے آتی ہے۔بعض لوگ مشکلات بڑھنے سے برباد ہوجاتے ہیںآج کی سائنس یہ نہیں کہتی کہ کچھ پانے کے لئے کھونا بھی ضروری ہے۔آج آپ کچھ کھوئے بغیر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں جو حالات جیتنے میں مدد دیں وہ تلاش کریں جیسے اگر کوئی بچہ اے سی میں سارا سال پڑھتا ہے تو امتحان پسینے میں دینے پڑیں تو سارا سال کا پڑھا ہوابھی کام نہیں آتا۔جہاں جیسے سیکھتے ہیں اسی حالت میں مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیںاور انہیں عملی زندگی گزارنا کہتے ہیں۔
پرفارمنس کو دوہرا نہیں سکتاتو۔۔۔
اگر کوئی کھلاڑی اپنی پرفارمنس کو دوہرا نہیں سکتاتوپھر اس کھیل کے اہل نہیں ہیں...نشانہ بازی، سوئمر،دوڑ،ایتھلیٹ۔ دباؤ سے ڈیل کرنا اور استعمال کرنا مثبت انداز میںا س کا کام ہے۔کیا اس نے مشقیں جاری رکھیں یا چھوڑ دیں، عمر کے ساتھ ساتھ یہ سب اثرانداز ہوتا ہے اب وہ چاہتا ہے وہی پرفارمنس نظرآئے تووہی محنت اور مشقیںجاری رکھے۔لمبا دورانیہ ہوسکتا ہے مگرہمیشہ کے لئے نہیں ہوسکتا۔پہلے مشقت اور آسائشیں آجاتی ہے۔کھیل کے علاوہ اورترجیحات بن جاتی ہیں۔کچھ لوگ اچھی پرفارمنس کامظاہرہ کرنے کے بعد سمجھتے ہیں اب اگر پرفارمنس خراب ہوبھی گئی تو کوئی بات نہیں ٹیم سے نہیں نکالیں گے۔
کھلاڑی جیتیں کیسے؟
کام اور آرام کا مکسچر ہوناچاہیے،کسی بھی چیز کی زیادتی سے گریز کریں، کھیل ہو، ایکسرسائز ہویا خوراک۔۔۔سائیکل چھوٹی چھوٹی ہو مگر سائیکل لمبی ہوتو مسائل ہوجاتے ہیں سارا دن کچھ نہیں کھائیں گے مگر رات کو ڈٹ کر کھائیں گے جو کہ غلط ہے۔کیلوریز کا خیال رکھیں۔چھوٹے وقفوں میں کھائیں گے توٹوکسکس سے محفوظ رہیں گے،پانی پی کر اور لوز موشن لگوا کر وزن کم کرتے ہیں عام لوگوں کو4لیٹر پانی چاہیے تو کھلاڑیوں کو 8لیٹر پانی پینا چاہیے۔پانی پیا س لگنے سے بھی پہلے پینا چاہیے،نیند کا انتظار نہ کریں، ڈسپلن کے مطابق کام کریں۔
کیپٹن کی نفسیات ٹیم پر کتنی اثرانداز ہوتی ہے؟
جیسے ریل گاڑی کے انجن کی مثال ہے۔کیپٹن روح پھونک سکتا ہے۔اگر کسی بے چین شخص کے پاس بیٹھیں تو آپ کو بے چینی ہونے لگے گی۔اگر کپتان غصے میں ہے یاچڑچڑاہے تو کھلاڑی بھی ایسے ہی ہوں گے۔
کھیل کے دوران نفسیاتی معائنہ ؟
کھیل دوران کھلاڑیوں کا نفسیاتی معائنہ ضروری ہے۔ پاکستان میں کھلاڑیو ں کے لئے ایسا کچھ نہیں ہے،اپنے آپ سے کیسے نبھاہ کرنا ہے اپنے آپ سے کیسے بات کرنی ہے یعنی سیلف ٹاک، یہ سب کھلاڑیوں کونہیں سکھایاجاتا۔ہم انسان خود سے بری بات کرتے ہیں جیسے ٹیچرز اور کوچز جیسے مہربان لوگ ہم سے جیسے بات کرتے ہیں ہم اپنے آپ سے وہی بات کرتے ہیں کھیل کے دوران جو بھی براسوچیں وہی ہوجاتا ہے۔سڑک پر گاڑی لے کر جائیں تو ایکسیڈنٹ ہوجاتاہے،دماغ بری چیز پر فوراً عمل کردیتا ہے،لوگ ایسی چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں جو وہ نہیں چاہتے مگر ان کے ساتھ ویساہوجاتا ہے،اس لئے ہمیں وہ سوچناچاہیے جو ہم چاہتے ہیں کہ ہوجائے یعنی اچھا سوچنا چاہیے۔
دھمکی سےکیا ہوتا ہے؟
دھمکی دنیا میں بہت مقبول چیز ہے اس کے برعکس سائنس کہتی ہے کہ گول سیٹ کریں شاباش دیں۔نہ پورا ہوتو سزا نہ دیں دوبارہ گول سیٹ کریں۔سزا صرف نفرت میں دی جاتی ہے،غفلت پر سرزنش کی جاتی ہے۔دھمکیوں سے متوسط پرفارمنس سامنے آتی ہے .
کوچز کا کام
کوچزریوارڈ دیتے ہیںگیجٹس کا استعمال کریں۔بہترمثبت ماحول تشکیل دیں۔کھلاڑیوں کی مہارت کو تسلیم کیا جائے ۔کھیل کو بھی پیشہ سمجھ لیا جائے توہر کھلاڑی کو سہولیات دی جائیںوالدین سہارا دیں ۔بعض کھلاڑی گلیوں میں کھیل کھیل کرخود کو زخمی کر دیتے ہیں ان کا ذہن بھی زخمی ہوجاتا ہے اورسوچیں بھی پسماندہ ہوجاتی ہیں۔آج فلاں کا دن تھاقسمت کی بنیاد پر کھیلتے ہیں۔یاد رکھیں ہر کھلاڑی ہر کھیل کے لئے موزوں نہیں ہوتا۔