اقتصادی ماہرین نےخبردارکیا ہے کہ ہنی مون کا کوئی وقت نہیں،نئ حکومت کو پہلے دن سے ہی فائر فائٹنگ کرنا پڑےگی، معاشی ایجنڈے کی کامیابی کیلئے نئے سیٹ اپ میں ایس آئی ایف سی کا مرکزی کردار ہو گا ۔
عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کے قیام کیلئے سیاسی جماعتوں کے درمیان جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم ماہرین اقتصادیات نے کہا کہ آئندہ بننے والی حکومت کو آئی ایم ایف سے نئے قرض پروگرام کا حصول ، مہنگائی میں کمی اور قرضوں کی بروقت ادائیگی نئی حکومت کیلئے بڑے چیلنجز ہوں گے۔
اقتصادی ماہرین نے معاشی میدان میں خطرےکی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا ہے کہ ایک کمزور مخلوط حکومت کیلئےمعاشی سرگرمیوں میں تیزی لانا اور بلند مہنگائی کےمارے عوام کو ریلیف دینا انتہائی مشکل ہوگا ۔ اگلے3 سال میں 74ارب ڈالر کی بیرونی مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے نئے قرض کا حصول بڑا چیلنج ہو گا ۔
ڈاکٹر ساجد امین ( ماہر اقتصادی امور) نے کہا کہ نئی حکومت کیلئے کوئی ہنی مون پیریڈ نہیں ہے اور صرف چیلنجز ہیں ، صرف ایک ایجنڈا ہے وہ ہے اکنامک ریکوری اور عام ادمی کی حالات زندگی کو بہتر بنانا ائی ایم ایف کو انگیج کرنا ہوگا فوری طور پہ ائی ایم ایف کے پاس جانا ایک کوئلیشن میں رہتے ہوئے یہ مجھے لگتا ہے بڑا اہم اس کے اندر ہوگا اتنا ہی اہم ایجنڈا ہوگا کہ انفلیشن کو کیسے کنٹرول کیا جائے اور عام آدمی کو کیسے ریلیف دیا جائے۔
اقتصادی ماہرین کےمطابق پی آئی اے، اسٹیل ملز سمیت خسارے کا شکار سرکاری اداروں کی نجکاری ناگزیر ہے۔ شرح سود میں کمی اورغیرضروری انتظامی اخراجات میں کفایت شعاری اختیار کرنا ہو گی ۔ برآمدات اور سرمایہ کاری میں اضافےکیلئے ایس آئی ایف سی فورم کا کلیدی کردار ہو گا ۔
ڈاکٹر عابد قیوم سلہری ( اقتصادی ماہر) نے کہا کہ ایس آئی ایف سی نے پچھلے چھ مہینوں میں ڈالر کی اڑان کو روکنے سے لے کے چینی کی قیمتیں روکنے اور ایران سے جو سمگلنگ ہو رہی تھی ان ساری چیزوں پہ کافی پوزیٹو رول پلے کیا ہے ایس ائی ایف سی کو مزید انکلوسو کر دیا جائے الیکشن کے بعد اس میں اپوزیشن کو دعوت دی جائے کہ وہ شامل ہو اور پھر اس کے ذریعے کنسیسینزز جو ہے معاشی مسائل کو وہ لے کے آیا جائے۔
ماہرین کاکہنا ہےحکومتی امور چلانے اور ضروری اخراجات کیلئے ٹیکس ریونیو بڑھانا ہو گا ۔ معیشت کو دستاویزی شکل دے کر ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو بتدریج 15 سے 20 فیصد تک لے جانا ہو گا ۔