8 فروری کو ہونے والے آئندہ انتخابات نہ صرف سیاسی بیان بازی کی وجہ سے مصالہ دار بن رہے ہیں بلکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے امیدواروں کو دیے گئے عجیب و غریب نشانات جن میں کٹورا، جوتا، ہارمونیم، چمٹا، مرغی، بوتل اور انار شامل ہیں، ہلچل مچا رہے ہیں۔
سیاسی امیداروں کی جانب سے الیکشن کمشین آف پاکستان پر الزامات لگائے گئے ہیں کہ ایسے نشانات الاٹ کرکے الیکشن کو کمزورکرنے کی دانستہ کوششوں کی گئی ہے۔
بینگن:اسلام آباد کے امیدوارعامر مغل کو بینگن کا نشان دیا گیا ہے،ان کا دعویٰ ہے کہ اس مہم سے بینگن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔مغل نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ علامت مجھے ایک غیر معمولی شہرت دے رہی ہے۔ ہر کوئی اسے دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ نشان عمران خان کے امیدوار کا ہے۔
بیڈ:بہاولپور سے انتخابات میں حصہ لینے والے اعجازگڈان اپنے انتخابی نشان بیڈ سے نا خوش ہیں،امیدوار کی جانب سے کہا گیا ہے کہ میرا انتخابی نشان ہرگھر میں پہلے سے موجود ہے جبکہ مجھے اسے اپنے حلقوں سے متعارف کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
بوتل: کوہاٹ شہر سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرشہریار آفریدی کو جب بوتل کی علامت سے نوازا گیا تو اسے اکثر پشتون ثقافت میں خالی پن یا شراب نوشی کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ عدالت میں اپنا مقدمہ ہارنےکے بعد انہوں نےبوتل کو دوا کے برتن کے طور پر تیارکیا جو سماجی برائیوں کا علاج کرنے کی علامت قرار دیا۔
دیگرنشانات جنہوں نے متعلقہ انتخابی امیدوارکو عجیب و غریب نشانات سے نوازا گیا،ان میں این اے 128 سےسلمان اکرم راجہ 'ریکٹ'، این اے 122سے لطیف کھوسہ انگریزی حرف K ، این اے 151 سے مہر بانو قریشی 'چمٹے کی جوڑی' ، اسلام آباد کے حلقہ این اے 46 سے شعیب شاہین کو ’جوتا‘، پشاور این اے 30 سے شاندانہ گلزار 'پیالا'،این اے 10 سے بیرسٹر گوہر علی خان کو بونیر سے'کیتلی' جبکہ این اے 175 سے جمشید دستی کو ہارمونیم سے نوازا گیا۔
مزیدیہ کہ پی ٹی آئی کےدیگرسابق امیدوارجو اب آزادحیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں انہیں انتخابی نشان کےطور پرمرغی اور انار الاٹ کیے گئے ہیں۔
امیدواروں کی جانب سے الزامات پرالیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنےدفاع میں موقف اپنایا کہ نشانات کا انتخاب آزاد امیدواروں کی فہرست سےکیا جاتا ہے اور یہ خالصتاً مقامی افسران کا فیصلہ ہوتا ہے۔
انتخابات قریب آتےہی پاکستان کا سیاسی منظرنامہ دلچسپ ہو گیا ہے۔