سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس اعجاز الاحسن اپنے منصب سےمستعفی ہو گئے۔
سپریم کورٹ کے دو روز میں دو جج مستعفی ہوگئے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے بعد جسٹس اعجازالاحسن نے بھی استعفیٰ دے دیا انہیں اکتوبر میں ملک کا تیسواں چیف جسٹس بننا تھا، لیکن اب یہ عہدہ جسٹس منصور علی شاہ کو ملے گا
صدر ڈاکٹر عارف علوی کو آئین کے آرٹیکل 206 ایک کے تحت ارسال استعفے میں جسٹس اعجاز الاحسن نے لاہور ہائیکورٹ میں بطور جج، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے جج کے طور پر کام کرنے کو اپنے لئے اعزاز قرار دیا مستعفی ہونے وجہ صرف یہ بیان کی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے جج کے طور پر مزید کام کرنے کی خواہش نہیں رکھتے ۔
جسٹس اعجاز الاحسن سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے اور انہیں اکتوبر میں 30 واں چیف جسٹس آف پاکستان بھی بننا تھا لیکن ان کے مستعفی ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کی رکنیت کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں کی کمیٹی میں بھی ردو بدل ہوگیا سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ اور آئندہ چیف جسٹس آف پاکستان اب جسٹس منصور علی شاہ بنیں گےجبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی جوڈیشل کمیشن کے رکن ہوں گے ۔
جسٹس اعجازالاحسن نے دو روز قبل سابق جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے اختلاف کیا تھاجسٹس اعجازالاحسن نے آج سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی تھی اور وہ سپریم جوڈیشل کونسل سے الگ ہوگئے جس کے بعد جسٹس منصور کو کونسل میں شامل کرلیا گیاسپریم جوڈیشل کونسل نے آج مستعفی جج مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہےسپریم جوڈیشل کونسل نے مستعفی جج مظاہر نقوی کو آگاہی کا نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں ایک اور موقع دیا ہے، کونسل کا کہنا ہےکہ مظاہر نقوی چاہیں تو کل پیش ہوکر اپنا مؤقف دے سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے گزشتہ روز اپنا استعفیٰ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھجوایا تھاصدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا استعفیٰ منظور کر لیا گیاسابق جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس زیر سماعت ہے جس کی سماعت ہونے سے ایک روز قبل مستعفی ہوگئے۔
جسٹس مظاہرکو دوسرے شوکاز پر جسٹس اعجاز الاحسن کا اختلافی نوٹ
سپریم جوڈیشل کونسل کے جسٹس مظاہرنقوی کو دوسرے شوکاز پر جسٹس اعجاز الاحسن نے اختلافی نوٹ بھی لکھا تھا جس میں انہوں نے شوکاز واپس لینےکا مطالبہ کیا تھاجسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ کونسل کی کارروائی روایات کے خلاف غیرضروری جلد بازی میں کی جا رہی ہے، جسٹس مظاہر نقوی کےخلاف کارروائی قانونی تقاضوں کے بھی خلاف ہے اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی ریفرنس فیصلےکی نفی ہے، کونسل کو اپنے آئینی اختیارات نہایت احتیاط کے ساتھ استعمال کرنے چاہئیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ جسٹس مظاہر نقوی کے معاملے میں غوروفکر کیا گیا اور نہ ہی اس کی اجازت دی گئی، جسٹس مظاہر نقوی پر لگائےگئے الزامات بغیر ثبوت اور میرٹ کے خلاف ہیں، زیادہ تر الزامات جائیداد یا ٹرانزیکشن سے متعلق ہیں،قانون کی نظر میں لگائے گئے الزامات برقرار نہیں رہ سکتے۔
جسٹس اعجازالالحسن کون ہیں ؟
جسٹس اعجاز الاحسن 05.08.1960 کو مری میں پیدا ہوئےابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کیانہیں 1975 میں فارمن کرسچن کالج لاہور میں داخل کرایا گیا جہاں سے انہوں نے 1979 میں میرٹ پر اسکالرشپ کے ساتھ گریجویشن کیاان کی لارڈ شپ نے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور میں شمولیت اختیار کی جہاں انہوں نے اپنی تعلیمی کامیابیوں پر گولڈ میڈل سمیت متعدد ایوارڈز جیتے تھے انہوں نے خانس پور، نتھیا گلی میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے زیر اہتمام آل پاکستان یونیورسٹیز سمر موٹ میں بھی ٹاپ پوزیشن حاصل کی۔
ایل ایل بی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعدانھوںنے لاء پریکٹس میں شمولیت اختیار کی اور سول اور فوجداری قانون میں اپرنٹس شپ مکمل کی۔اس کے بعد انھوں نے کارنیل یونیورسٹی نیویارک، امریکہ میں پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم حاصل کی انہوں نے 1987 میں قانون میں ماسٹر ڈگری (LL.M) کے ساتھ گریجویشن کیا۔
امریکہ سے واپسی پر اس کی لارڈ شپ نے ایک نامور قانونی فرم کے ساتھ لا پریکٹس جوائن کی جس کا وہ بعد میں پارٹنر بن گیا اس کے قانون کی مشق میں سول، بینکنگ، جائیداد، تجارتی اور آئینی معاملات شامل تھےانہوں نے ہائی کورٹس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی بڑی تعداد میں مقدمات چلائےاور متعدد مقامی اور بین الاقوامی تجارتی ثالثی بھی کی جن میں مقامی اور کثیر القومی فریق شامل تھے۔
ان کی لارڈ شپ نے متعدد مقامی اور بین الاقوامی کانفرنسوں اور پیشہ ورانہ تربیتی کورسز میں شرکت کی جن میں ایشین بار ایسوسی ایشن اور انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام بھی شامل ہیںانہیں برٹش کونسل نے برطانیہ میں تجارتی قانون کا مطالعہ کرنے کے لیے چیوننگ اسکالرشپ سے نوازا تھاانہوں نے ڈلاس، امریکہ میں ساؤتھ ویسٹرن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اسٹڈیز سے فیلوشپ بھی حاصل کی جس کے وہ سابق طالب علم ہیں۔
ایک وکیل کے طور پر مشق کرتے ہوئے انہوں نے کئی سالوں تک معاہدہ اور تجارتی قانون پڑھایا15.09.2009 کو ان کی لارڈ شپ کو بنچ تک پہنچا دیا گیا ان کی تصدیق 11.05.2011 کو لاہور ہائی کورٹ کے جج کے طور پر ہوئی لاہور ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے اپنے دور میں ان کی لارڈ شپ نے درج ذیل کانفرنسوں میں شرکت کی وہ 06.11.2015 کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات ہوئے۔ 28.06.2016 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے طور پر ان کی بالادستی کو بڑھا دیا گیا۔