الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ جاری کرنے کے بعد جہاں تک سیاسی پارٹیاں متحرک ہوئی ہے وہی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا عمل دن بدن تیز ہورہا ہے۔ سیاسی پارٹیاں کئی یک تنہا اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کو تیار جبکہ کئی امیدوار کسی کے ساتھ ہاتھ ملاکر انتخابات میں اپنی راہ ہموار کرنے کی کوشش میں ہیں ۔قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 266 قلعہ عبداللہ کم چمن میں بھی سیاسی دڑابازی شروع ہوچکی ہے۔
اس وقت بڑے سے چھوٹے ووٹ بینک تک رسائی حاصل کرنے میں پارٹیوں نے ضلعی سطح پر اتحاد ، کارنر مٹینگ ، سیاسی ملاقاتیں ہونے کو تیار ہے بلوچستان کے اس قومی اسمبلی کی نشست پر مد مقابل تین اہم بڑی پارٹیوں کے امیدوار ہونگے۔ جن میں جمعیت علماء اسلام (ف)، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی( اچکزئی)اور عوامی نیشنل پارٹی شامل ہے ۔
یہ حلقہ نظریاتی ووٹ سے لیکر قبائل کی بنیاد پر ووٹ میں تقسیم ہے ۔حلقہ میں جمعیت علماء اسلام (ف) کا ووٹ مذہبی حلقے ، خاص کر مدارس ، تبلیغ سے جڑے اور مذہبی ہم خیال افراد میں زیادہ ہے جبکہ قوم پرست وو ٹ قومی مفادات اور برادری رجحان رکھنے والے افراد میں زیادہ ہے ۔ قومی اسمبلی کے اس حلقہ میں قوم پرست ووٹ سب سے زیادہ ہے لیکن قوم پرست سیاسی حلقوں کے درمیان تقسیم سے یہاں مذہبی سیاسی ووٹ بینک میں اضافہ ہو اہے۔
گزشتہ انتخاب میں این اے 266 جو ماضی میں محض قلعہ عبداللہ پر مشتمل تھا جس کی صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں تھی یہ تین نشستیں قلعہ عبد اللہ ،1 ،2، اور 3پر مشتمل تھیں ۔ نئی حلقہ بندی میں قلعہ عبداللہ اور چمن کو ملا کر ایک قومی اسمبلی کا حلقہ بنادیا گیا ہے اور صوبائی نشستوں کی تعداد 3 سے ایک کم کر کے 2کر دی گئی ہے۔ جس پر مقامی سیاسی رہنماوں نے الیکشن کمیشن کو اپنی شکایت جمع کروادی تھی جو اب زیر سماعت ہے ۔
یاد رہے2021 میں چمن کو ضلع کی حیثیت دی گئی تھی اس سےقبل چمن ضلع قلعہ عبداللہ کا حصہ تھا۔
2018 کے عام انتخابات میں پرانا حلقہ این اے 263 قلعہ عبداللہ کے قومی اسمبلی کی نشست پر جمعیت علما ء اسلام (ف) کے رہنما صلاح الدین جو مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل پاکستان کے ٹکٹ پر انتخاب لڑے تھے اکثریتی37971 ووٹ لیکر منتخب ہوئے ، دوسرے نمبر پر عوامی نیشنل پارٹی کے اصغر خان21417 اور تیسرے پر پی کے میپ کے محمود خان اچکزئی 19989 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔
جبکہ صوبائی سطح پر قلعہ عبداللہ کی تین نشستوں میں سے 2 عوامی نیشنل پارٹی اور 1 متحدہ مجلس عمل پاکستان نے اپنے نام کی۔ اسی طرح 2013 کے عام انتخابات میں قلعہ عبداللہ کی قومی اسمبلی کے نشست پر پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی 38534 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ۔اس الیکشن میں محمود خان نے کوئٹہ کی قومی اسمبلی کی نشست پر بھی کامیابی حاصل کی تھی بعدازاں قلعہ عبد اللہ کی نشست چھوڑ دی ،اسی نشست کے ضمنی انتخاب میں پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے عبدالقہارو 37584ووٹ لے کر کامیاب ہوئے انہوں نے جمعیت علماء اسلام کے امیدوار کو شکست دی تھی۔صوبائی اسمبلی کی3 نشستوں میں سے 2پر پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی جبکہ1عوامی نیشنل پارٹی کے حصہ میں آئی تھی ۔ ۔
چمن سے مقامی صحافی سعید اچکزئی کے مطابق ماضی میں قلعہ عبداللہ کی تین صوبائی نشستیں تھی ۔جب چمن کو ضلع کی حیثیت دی گئی تو اعتراضات تب ہی سے شروع ہوگئے تھے ، کیونکہ چمن کو آبادی کے لحاظ سے ضلع بنے کے بعد دو صوبائی نشستیں ملنی تھی اعتراضات کا محور زیادہ تر ژڑی بند کا علاقہ رہا ،جس میں قوم پرست اور مذہبی پارٹیاں کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کے اصغر خان اور انجینئر زمرک بھی آمنے سامنے رہے البتہ بعد میں الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں کی پہلی فہرست میں ایک سیٹ کم کرکے چمن اور قلعہ عبداللہ کو ایک ایک صوبائی نشست دی گئی۔
قلعہ عبداللہ سے جمعیت علما ء اسلام ( ف )کے سابق امیدوار حاجی حبیب اللہ کاکوزئی نے سماء سے بات کرتے ہوئے بتایا ، اب تک باضابطہ طور پرسیاسی سر گرمیاں شروع نہیں کی گئی ، اس وقت جمعیت علماء اسلام (ف) الیکشن کے لئے امیدواران کی نامزدگی کر رہی ہے یہ نامزدگی مرکزی پالیمانی کمیٹی ،ضلعی اور صوبائی بورڈ کے سفارشات کے تناظر میں کی جاتی ہیں۔ انتخابات میں اتحاد کا طریقہ کار کا تعین بھی مرکز ضلعی اور صوبائی بورڈ کے ساتھ مشاورت کے بعد کرتا ہے ۔انکا مزید کہنا تھا کہ قلعہ عبد اللہ کی ایک سیٹ کم کرنا ، اندھیر نگر کی مثال ہے آٹھ لاکھ سے زائد کاحلقہ ہونے کے باوجود بھی ایک صوبائی نشست کم کر دی گئی ، اعتراضات ہمیں پہلے سے سب تحصیل دوبندی پر رہی ہے ۔ماضی کی حکومتی دستاویزات میں سب تحصیل دوبندی چمن کا حصہ رہا ہے لیکن نئی حلقہ بندی میں ضلع قلعہ عبداللہ کا حصہ بنادیا گیا ہیں ۔ جو سراسر غیر منصفانہ ہے ۔الیکشن کمیشن سے یہی گزارش ہے کہ وہ حقیقی بنیادوں پر عوامی تناظر میں حلقہ بندیاں کریں اور انتخابات کے انقعاد میں پر امن ماحول دے اور شفافیت کو برقرار رکھے ۔
مقامی صحافی سعید اچکزئی کے مطابق پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے چند دن قبل باقاعدہ چمن میں اپنی سیاسی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے متواتر کارنر مٹینگ منعقد کی جاتی رہی ہیں البتہ باضابطہ طور پرانتخابی مہم اب تک شروع نہیں کی گئی۔ ضلع چمن میں تمام مد مقابل پارٹیاں ، اے این پی(اصغر خان اچکزئی) ، پی کے میپ ، جے یو آئی ف اور باپ (کیپٹن عبد الخالق) کا اپنا ایک مخصوص ووٹ بینک ہے،اگر سیاسی کمپین کی بات کی جائے تو پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے علاوہ کسی جماعت نے بقاعدگی سے سیاسی سرگرمیاں شروع نہیں کی ہے۔
ہم نے قلعہ عبداللہ کے سابقہ قومی اسمبلی کے ممبر مولانا صلاح الدین اور صوبائی اسمبلی کے ممبران ، اصغر خان (اے این پی ) حاجی نواز (جے یو آئی (ف) اور انجینئر زمرک(ے این پی ) سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی جانب سے ہمیں جواب موصول نہیں ہوسکا ۔
قلعہ عبداللہ سے مقامی صحافی منصور احمد اچکزئی نے بتایا کےصوبائی حلقوں کی بنیاد پر اب تک تو کوئی سیاسی سرگرمی نہیں ہوئی البتہ قومی حلقہ کے بنیاد پر پشتونخوا ہ ملی پارٹی کے چیرمین محمود خان اچکزئی کی جانب سے چند دن قبل چمن کا دورہ کیا گیا ۔
بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں میں اختلافات عموماً منظر عام پر آ رہاہے ،کچھ عرصہ قبل پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی میں اختلافات نے تقسیم کی صورتحال اختیار کی اور پارٹی دو حصوں میں الگ ہوگئی۔ ایک طرف پارٹی کی سربراہ خوشحال خان جن کے ساتھ شریک چئیر مین بختیار یوسفزئی ہے تو دوسری جانب محمود خان اچکزئی ہی سربراہی کر رہے ہیں۔ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ پارٹی کےنام اور انتخابی نشان پر دونوں جانب سے اختلاف موجود ہیں یہ مکمل طور پر واضع نہیں کیا جا سکتا ہے کے پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی (دونوں گروپس) کیجانب سے متوقع امیدواروں کے ووٹ پر کیا اثرات پڑیں گے ۔
صحافی منصور اچکزئی نے مزید بتایا کہ اب تک تو کوئی واضع اتحاد کی خبر سامنے نہیں آئی ، البتہ یہ افواہیں سرگرم ہے کہ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اورجمعیت علماء اسلام (ف)میں ضلعی بنیاد پر سیٹ ایڈ جسٹمنٹ ہوسکتی ہے ۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کی پی ٹی آئی اور بلوچستان عوامی پارٹی کےساتھ اتحاد کی باتیں بھی گردش میں ہیں ۔ چمن اورقلعہ عبداللہ میں الائنس کے علاوہ برادری کی بنیاد پر بھی ووٹ کا ایک بڑی تعداد ہے ۔