سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے چیئرمین عمران خان کی درخواست ضمانت پر وفاق اور وزارت داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے۔
بدھ کے روز سپریم کورٹ کے جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل تین رکنی بینچ نے چئیرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں ضمانت کی درخواست پر سماعت کی جس کے دوران سابق وزیراعظم کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں۔ سائفر کیس ، عمران خان کی فرد جرم کیخلاف اپیل پر سماعت ملتوی
بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ماتحت عدالت کے سامنے اس دوخواست پر کئی گھنٹے دلائل دیئے ہیں جس پر جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ آپ مقدمات سیاسی طور پر چلائیں گے تو یہی ہوگا، کسی نے کہا تھا کہ اخراج مقدمہ اور ضمانت ایک ساتھ چلائیں، ملزم 60 سال سے کم نہیں ، کیس مزید انکوائری کا ہے تو اس طرف لائیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آپ کے کیس کے مرکزی گراؤنڈز کیا ہیں؟ جس پر سلمان صفدر نے بتایا کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ سائفر کیس بنتا ہی نہیں تھا، جو دفعات لگائی گئی ہیں وہ جاسوسی جیسے جرائم پر لگتی ہیں، کہیں نہیں بتایا کہ کہاں جاسوسی ہوئی یا کسی دشمن ملک کو فائدہ پہنچا۔
یہ بھی پڑھیں۔ اسلام آباد ہا ئیکورٹ نے سائفر کیس کا جیل ٹرائل کالعدم قراردیدیا
جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں آپ نے سائفر کا کوڈ کمپرو مائز کیا، کوڈ اگرچہ تبدیل ہوتا رہتا ہے ، کئی بار ہفتے بعد بھی بدل سکتا ہے، وکیل نے کہا کہ جو الزام ہے اس پر جرمانہ یا 2 سال قید بنتی ہے مگر دفعات بڑی لگا دیں، سائفر کو قانون کے مطابق ڈی کلاسیفائی کرکے سیکیورٹی کمیٹی میں پیش کیا گیا تھا، کمیٹی میں سائفر آنے اور ڈی مارش کا ذکر سپریم کورٹ فیصلے میں ہے، عدم اعتماد کے معاملے پر عدالتی فیصلے میں اس کا تذکرہ آیا۔
جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ ابھی آپ نوٹس ہی جاری کرانا چاہتے ہیں تو اس کی حد تک دلائل دیں۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے درخواست پر وفاق اور وزارت داخلہ کو نوٹس جاری کر دیا گیا اور فریقین سے جواب طلب کیا گیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ سائفر ایک خفیہ دستاویز تھی یا نہیں؟ جس پر سلمان صفدر نے بتایا کہ ڈی کلاسیفائی ہونے کے بعد سائفر سیکرٹ دستاویز نہیں تھا، جسٹس یحییٰ نے استفسار کیا کہ کیا ڈی کلاسیفائی ہونے سے پہلے سائفر کو ملزم نے دکھایا؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ اس دوران سائفر کسی کو بھی نہیں دکھایا گیا۔
جسٹس طارق نے استفسار کیا کہ سائفر ہوا میں لہرا کر بتایا جائے اس میں یہ لکھا ہے تو کیا ابلاغ کے زمرے میں نہیں آتا؟۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ سائفر دفتر خارجہ کے پاس ہے تو ملزم سے کیا ریکور کرنا ہے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ میرے مؤکل کے بعد ایک اور وزیر اعظم نے بھی سائفر پر میٹنگ کی، دوسرے وزیراعظم کے پاس بھی سائفرکی کاپی 169 دن رہی، پھر کہا غائب ہوگئی۔
دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کی جانب سے آئندہ تاریخ کھلی عدالت میں مقرر کرنے کی استدعاکی گئی جسے عدالت عظمیٰ کی جانب سے مسترد کیا گیا اور جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیئے کہ اس کو اسپیشل کیس نہ بنائیں، سادہ ہی چلنے دیں ، آئندہ تاریخ آفس ہی مقرر کرے گا ، صحافی ابھی لکھ دیں گے پتہ نہیں کیوں تاریخ نہیں دی ، نوٹس جاری ہونا لازمی تھا اور وہ کر دیا ہے ، نوٹس جاری کئے بغیر ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
بعدازاں، عدالت عظمیٰ کی جانب سے چئیرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔