پاکستان، چین اور افغانستان کے درمیان حالیہ سہ فریقی وزرائے خارجہ کانفرنس کے بعد بالآخر وہ پیش رفت سامنے آئی ہے جس کا طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ کابل میں پاکستان کے موجودہ ناظم الامور عبیدالرحمن نظامانی کو مستقل سفیر کے طور پر تعینات کرنے کا فیصلہ محض ایک تقرری نہیں، بلکہ ایک بڑی سفارتی حکمت عملی کا مظہر ہے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں جمی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اور عبیدالرحمن نظامانی کے درمیان آج ہونے والی ملاقات میں جس خوش اسلوبی سے تعلقات کی "نارملائزیشن" پر بات چیت ہوئی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام آباد اور کابل اب ٹکراؤ کے بجائے تعاون کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے سنجیدہ ہیں۔
افغان وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے تعلقات میں بہتری لانے کے لیے عملی اقدامات پر گفتگو کی۔ افغان وزیر خارجہ نے نہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری پر زور دیا بلکہ پاکستان میں افغان شہریوں کے لیے رعایتوں کی امید بھی ظاہر کی۔ عبیدالرحمن نظامانی کی جانب سے ان مطالبات کو اسلام آباد تک پہنچانے کی یقین دہانی اس بات کی علامت ہے کہ اب دونوں طرف اعتماد کا ماحول بحال ہو رہا ہے۔
یہ اعتماد اس وقت مزید مستحکم ہوا جب افغان طالبان نے بیجنگ کانفرنس کے بعد پاکستان میں جنگ کے لیے جانے کو باقاعدہ طور پر ممنوع قرار دیا۔ یہ قدم اگرچہ دیر سے اٹھایا گیا، لیکن خطے میں قیام امن کے لیے ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ تین ماہ قبل تک اسلام آباد اور کابل کے درمیان جو جنگی فضا قائم تھی، اب اس کے آثار تیزی سے مٹ رہے ہیں۔
سفارتی سطح پر یہ تعیناتی اس لیے بھی اہم ہے کہ اب پاکستان کو بین الاقوامی فورمز پر افغانستان کے حوالے سے ایک مؤثر موقف اختیار کرنے کا جواز اور راستہ مل گیا ہے۔ بغیر کسی مستقل سفیر کے، نہ تو کابل میں پاکستانی مفادات کا مکمل تحفظ ممکن تھا اور نہ ہی عالمی سطح پر مؤثر سفارتی جدوجہد۔
یاد رہے کہ 2 دسمبر 2022 کو عبیدالرحمن نظامانی پر کابل میں پاکستانی سفارت خانے میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا، جس میں وہ تو محفوظ رہے، لیکن ایک سپاہی اسرار زخمی ہوئے۔ اس پس منظر میں اُنہیں دوبارہ کابل بھیجنا نہ صرف ایک جرأت مندانہ فیصلہ ہے بلکہ ان کے عزم اور حب الوطنی کا بھی اعتراف ہے۔
اب جبکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ کم ہو رہا ہے اور ٹی ٹی پی کے ساتھ افغان طالبان کے تعلقات میں بھی واضح کمی دیکھی جا رہی ہے، تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ سفیر کی تعیناتی نہیں بلکہ ایک نئے باب کی شروعات ہے — ایک ایسا باب جو خطے میں امن، ترقی اور باہمی اعتماد کی بنیاد بن سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ افغانستان میں موجود پاکستان مخالف گروپوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔






















