ضرورت سے زیادہ بڑھ چڑ ھ کربولنے والی ،دوسروں کو نیچادکھانے والی اورفطری طور پرجھگڑالو خواتین لاکھ کہیں کہ وہ اپنے دل میں بُغض نہیں رکھتیں اورہر بات منہ پر کہہ دیتی ہیں تو یاد رکھیں ان کی یہ عادت صاف گوئی نہیں بلکہ بدتمیزی کہلاتی ہے اور ایسی خواتین کو ’’منہ پھٹ‘‘ کہاجاتا ہے۔
عورت کا گہنا
نرم و دھیمہ لہجہ ، شائستہ اور متحمل اندازِو گفتاروہ خوبصورت ا ور قیمتی گہنے ہیں جو ہر عورت کے نصیب میں نہیں کیونکہ انہیں دنیا کی بڑی سے بڑی قیمت چکا کر بھی خریدا نہیں جا سکتا نہ ہی بڑی بڑی تعلیمی ڈگریوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ دراصل یہ وہ ہنر ہے جو یہ اپنے والدین ، اساتذہ ، اردگرد کے ماحول اورلوگوں سے سیکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم کسی سے بات کرتے ہیں تو ہمارے انداز سے گھر، خاندان اورتعلیم و تربیت کا عکس جھلکتا ہے لیکن بدقسمتی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ، اہم عہدوں پر فائز، خوش شکل اور برانڈڈ جوڑوں میں ملبوس خواتین بھی جب منہ کھولتی ہیں توان کی ساری شخصیت ماند پڑجاتی ہے۔ ویسے بھی ضرورت سے زیادہ بڑھ چڑ ھ کر بولنے والی ،دوسروں کو نیچادکھانے والی، بدکلامی کرنے والی اورفطری طور پرجھگڑالو خواتین لاکھ کہیں کہ وہ اپنے دل میں بُغض نہیں رکھتیں، ہر بات منہ پر کہہ دیتی ہیں اور کسی سے نہیں ڈرتیں تو یاد رکھیںان کی یہ عادت صاف گوئی نہیں بلکہ بدتمیزی کہلاتی ہے اور ایسی خواتین کو ’’منہ پھٹ‘‘ کہاجاتا ہے۔
کچھ اپنے سچ بھی دوسروں کے سامنے کہہ لیا کریں
صاف گوئی کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ کسی کی دل آزاری کی جائے یالفظوں کے تیر چلا کر کسی کی روح گھائل کر دی جائے۔ ویسے بھی ہر بات کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے، اگر آپ کامقصد کسی کی اصلاح کی بجائے اپنی باتوں سے محض اسے ذلیل و رسوا کرنا ہے تویہ آپ کی کم ظرفی کے سوا کچھ نہیں۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ کوئی ناپسندیدہ اور نامناسب بات بھی مہذب انداز میں کریں تو وہ بری نہیں لگتی بلکہ اثر رکھتی ہے لیکن اگر سچی اور کھری بات بھی غیر مہذب انداز میں کی جائے جس سے کسی کی عزتِ نفس کوٹھیس پہنچے تو اس کا نتیجہ کبھی مثبت نہیں ہوسکتا اس لئے ہر سچ کہہ دینا ضروری بھی نہیں ہوتا اور اگرآپ کو سچ کہنے کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر صرف دوسروں کے بارے میں ہی سچ کیوں ؟کچھ اپنے سچ بھی دوسروں کے سامنے بیان کرکے صاف گوئی کا مظاہرہ کر لیا کریں۔
اشفاق احمد لکھتے ہیں۔۔۔
’’ ایک دن میں نے اپنی ماں سے کہا کہ اماں میں لکھنا چاہتا ہوں تو انہوں نے کہا بیٹاکیا لکھناچاہتے ہو؟ تو میں نے کہا میں سچ لکھنا چاہتا ہوں۔ میرا جواب سن کر اماں نے کہا بیٹا پھر اپنے بارے میں سچ لکھنا کیونکہ دوسروں کے بارے میں سچ کہنا بہت آسان ہے۔ ‘‘
صاف گوئی نہیں بدتمیزی ہے
ایسی خواتین اکثر دوسروں کی برائیاں کرنے میں پیش پیش نظر آتی ہیں، اگر انہیں کسی کی خامی یا کمزوری کی خبر ہوجائے تو اس کاڈھنڈورا پیٹنے لگتی ہیں تاکہ انہیں نیچا دکھا سکیں، اگر کسی کے ساتھ جھگڑے یا اختلافِ رائے کی نوبت آجائے تو اس پر ذاتی حملے کرنے سے بھی نہیں چُوکتیں۔ اسی طرح کسی کے پہننے اوڑھنے کے انداز پر منفی جملے کسنا، مذاق اڑانا، دوسروں کی خامیاں نکالنا،ان کی ذات کو تضحیک و تحقیر کا نشانہ بنانا، کسی ناپسندیدہ بات پر فوری منفی ردِ عمل ظاہر کرنا ،کسی کی پوشیدہ باتو ں کو دوسروں پرعیاں کرنا۔۔۔ غرضیکہ ہر وہ بات جس سے کسی کی تذلیل و دل آزاری ہواورعزتِ نفس کو ٹھیس پہنچے تویہ صاف گوئی نہیں بلکہ بدتمیزی کہلاتی ہے۔
عموماً منہ پھٹ یا بدکلام خواتین کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہوجائے ، ان کی کسی غلطی کی نشاندہی کی جائے یاان کی کسی بات سے انکار کیا جائے تووہ فوراً اپنے دفاع میں بدکلامی کرنے لگتی ہیں۔ ایسے میں عموماً وہ بڑے چھوٹے کا فرق تک بھول جاتی ہیں ۔
بد لحاظ عورتیں نفسیاتی طور پر کمزور ہوتی ہیں۔
ماہرِ نفسیات ہما خان کہتی ہیں’’منہ پھٹ ،زبان دراز اور بدلحاظ عورتیں نفسیاتی طور پر کمزورہوتی ہیں اس لئے وہ جلن، حسد، احساسِ کمتری، عدم تحفظ یا کسی محرومی کے باعث نا پسندیدہ حالات میں اپنے اوپر قابو کھو دیتی ہیں۔
ویسے تو کتے جیسے جانور کو بھی سکھایا جائے کہ کب اور کس پر نہیں بھونکنا تووہ سیکھ جاتا ہے مگر بعض انسان ایسے بھی ہیں کہ جنہیں اپنی زبان پر قابو نہیں اور وہ جب چاہتے ہیں اپنے اردگرد کے لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔
چنانچہ ان کے اندر چھپاغصہ اور نفرت زبان سے جھلکنے لگتی ہیں ، یوں وہ دوسروں کو ذلیل ورسوا کرنے اور انہیں نیچا دکھانے کاکوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں اور ہر ناپسندیدہ بات پر چیخ و پکار، شور شرابہ اورہنگامہ برپا کردیتی ہیں۔
جھنجھلاہٹ کیسی؟
زبان دراز اور بدکلام خواتین عام طور پر جذباتی اور اضطرابی کیفیت میں رہتی ہیں اور جب کسی سے ملتی ہیں تو ان کے وجود سے نکلنے والی منفی لہریں اردگرد کے لوگوں کو بھی بے چین کر دیتی ہیں اور لوگ ان سے دور بھاگنے لگتے ہیں۔ بدزبان اور منہ پھٹ خواتین جلد ہی دوسروں کی نظروں میں اپنا وقار کھو دیتی ہیں، ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتی ہیں اور اپنی اصلاح کرنے کی بجا ئے جھنجھلاہٹ کے باعث مزید بدکلام ہوجاتی ہیں اور بعض اوقات اپنے سب سے قریبی ساتھیوں اور رشتوں کو بھی کھو دیتی ہیں۔
بچوں کے ساتھ چیخ و پکار اور ڈانٹ ڈپٹ سے گریز کریں۔۔۔
ہما خان کے مطابق’’انسانی رویوں اور مزاج پر اس کے اردگرد کا ماحول اور لوگ بہت اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ والدین یا خاندان میں کوئی اور فرد بدکلام اور بدتمیز ہوتو جنیاتی طور پر یہ خامی بچوں میں بھی منتقل ہوجاتی ہے۔ سب سے پہلے توبچوں کے ساتھ چیخ و پکار اور ڈانٹ ڈپٹ سے گریز کریں۔۔۔
اس کے علاوہ اگر گھر میں بہت زیادہ لڑائی جھگڑا ہوتا رہے اور آپ اس ماحول میں رہنے کے عادی ہوجائیں تو یہ بدزبانی آپ کے مزاج کا بھی حصہ بن جاتی ہے۔ عموماًگھروں میں ساس بہو، نند بھابھی اور دیورانی جیٹھانی کے مابین چپقلش عام بات ہے جو ہر وقت ایک دوسرے کو نیچادکھانے کے لئے طنزو طعن کرتی نظرآتی ہیں جس کا براہِ راست اثر ان کے بچوں پر بھی ہوتا ہے۔ سرکاری اور نجی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کے مزاج میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کارویہ اور تربیتی انداز بھی طالبات کے سماجی رویوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔
عموماًسرکاری سکولوں اور کالجوں کی خواتین اساتذہ طالبات کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے انتہائی غیرمہذب رویہ اپناتی ہیں، تضحیک آمیز گفتگو کرتی ہیں، ان کی کسی خامی کو دیگر طالبات اور اساتذہ کے سامنے تنقید کا نشانہ بناتی ہیں جس سے طالبات کی شخصیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس کے برعکس نجی سکولوں اور کالجوں میں پڑھانے کے طور طریقوں میں واضح فرق ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ نجی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والی طالبات جب عملی زندگی میں آتی ہیں تو ان کے سماجی رویے، بول چال کے انداز ، ادب آداب اور شخصیت میں رکھ رکھاؤ دیگر لوگوں سے بہترہوتا ہے ۔میں سمجھتی ہوں بڑی بڑی تعلیمی ڈگریاں تو کوئی بھی ادارہ دے سکتا ہے مگر بہتر تربیت ہر ادارے میں نہیں ملتی۔۔۔‘‘
زہرہ جبیں نامی خاتون بناتی ہیں
’’میں نے کانونٹ سکول سے ابتدائی تعلیم کے بعد پاکستان کے ہائی میرٹ رکھنے والے اداروں سے تعلیم حاصل کی اور گذشتہ بیس برسوں سے ایک سرکاری کالج میں پڑھارہی ہوں ۔ مجھے اکثر اپنی ساتھی اساتذہ کے رویوں پر شدید حیرت ہوتی ہے ، بہت سی پی ایچ ڈی کرنے والی اساتذہ بھی نہ صرف طالبات کے ساتھ بول چال میں انتہائی غیرمہذب رویہ اپناتی ہیں بلکہ اپنی ساتھی اساتذہ کے ساتھ بھی غیر مہذب گفتگو کرتی ہیں، ان کے اس رویے کی وجہ سے طالبات ہی نہیں بلکہ کئی اساتذہ بھی ان سے بات چیت سے گریز کرتی ہیں ، دور سے انہیں دیکھ کر راستہ بدل لیتی ہیں۔
میں سمجھتی ہوںمیں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں اپنے اساتذہ اور اردگرد کے لوگوں سے جوسیکھا، وہی آج میری شخصیت کا حصہ ہے، اسی طرح ہر استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ طالبات کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کوسنوارنے اور نکھارنے میں مثبت کردار ادا کرے کیونکہ اساتذہ کے رویے طالبات کی شخصیت پر ہمیشہ کے لئے اپنی گہری چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔‘‘
حناتحسین جو ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی میں جاب کرتی ہیںان کا کہنا ہے
’’میں اپنی دو کولیگز کے رویوں سے سخت نالاں ہوں، وہ اس قدر بدتہذیب اور بدزبان ہیں کہ انہیں بات کرتے ہوئے کسی کا لحاظ نہیں رہتا۔ جب جی میں آتا ہے معمولی باتوں پر ہنگامہ برپا کر دیتی ہیں، اگر کسی بات پر اختلافِ رائے ہوجائے تودوسرے کی بات کو سنے بغیر ہی تضحیک آمیز گفتگو کرنے لگتی ہیں۔ اگر انہیں ان کی غلطی بتائی جائے تو اپنی غلطی ماننے کی بجائے دوسروں پر تنقید کرنے لگتی ہیں تاکہ انہیں نیچادکھا سکیں اور بعد میں آرام سے کہہ دیتی ہیں ہم تو دل میں نہیں رکھتے ، جو سچ ہو منہ پر کہہ دیتے ہیں، اگر کسی کو بری لگتی بھی ہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔۔۔ان کے اسی منہ پھٹ رویے کی وجہ سے آفس کے لوگ ان سے دوستی کرنا تو دور کی بات، علیک سلیک کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔‘‘
ذرا منہ سنبھال کر بات کریں۔۔۔
ماہرِ سماجیات صائمہ سمیر کے مطابق’’ انسانی شخصیت میں منفی رویوں اور رجحانات کو جتنا جلدی ہوسکے ، بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ انسان کی خامیاں اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں اور پھر انہیں بدلنا آسان نہیں ہوتا۔ بعض خواتین اپنے اردگرد موجود لوگوں کی بے عزتی کر کے ان پر حاوی ہونے کی کوشش کرتی ہیں، اونچی آواز میں بات کر کے وہ سمجھتی ہیں کہ لوگوں کو دبا لیں گی لیکن حقیقت تویہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی تعلیم و تربیت، اپنے گھر کے ماحول اورخاندانی پس منظر کا آئینہ دکھا رہی ہوتی ہیں، ایسی صورتحال میں بھی خود پر قابو رکھیں کیونکہ کسی کو نیچا دکھانے کے لئے خود کو نیچے گرانا ضروری نہیں۔
بہتر ہے ایسی خواتین سے بات چیت میں احتیاط کریں، اگر وہ بدکلامی پر اتر آئیں تو جہاں تک ممکن ہو، بات کو بڑھاوانہ دیں بلکہ تحمل مزاجی سے کام لیتے ہوئے خاموشی سے وہاں سے نکل جائیں کیونکہ ہرشخص غلط درست کا فرق بخوبی جانتا ہے اس لئے اپنی صفائی میں کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جس شخص کو اپنی عزت کی پرواہ نہ ہو، وہ دوسروں کی عزت کا پاس کیسے رکھ سکتاہے؟
اگر کام کی جگہوں پر منہ پھٹ خواتین سے واسطہ پڑے تو بہتر ہے انہیں نظر انداز کریں، انہیں اپنی زندگی میں اتنی اہمیت نہ دیں کہ وہ آپ کی زندگی پر اثر انداز ہوسکیں بلکہ ایسی زبان دراز خواتین سے ہرگز بے تکلف نہ ہوں۔
فطری طور پر منہ پھٹ عورتوں سے جتنا ہوسکے فاصلہ رکھیں۔ اسی طرح جو خواتین کسی کونیچا دکھانے کے بعد دوسروں کے سامنے اپنی برتری اورصاف گوئی کے قصے بڑھ چڑ ھ کر سناتی ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے ، انہیں بتائیں کہ ان کا یہ رویہ درست نہیں تھا اور انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ویسے بھی انسان کا ضمیر اس کا سب سے بڑا محتسب ہوتا ہے ، اپنے ضمیر کی آواز سنیں، اگر کسی کی دل آزاری کر کے آ پ کا دل بے چین ہو تو اپنے رویوں پر خود قابو پائیں اور جاننے کی کوشش کریں لوگ آپ سے کیوں دور ہو رہے ہیں؟ اگر کوئی آپ سے بات کرنا پسند نہیں کرتا، کوئی آپ کو دیکھ کر نظر انداز کرتا ہے یا اپنا راستہ بدل لیتا ہے تو اسے اپنا رعب و دبدبہ نہیں بلکہ اپنی توہین سمجھیں جس کی ذمہ دار بھی آپ خود ہی ہیں ۔
آپ جتنی بھی تعلیم یافتہ ہوں، اگر آپ اونچی آواز میں ہنگامہ برپا کر کے بات کریں گی تویاد رکھیں آپ اس سے کسی کا کچھ نہیں بگاڑ رہیں بلکہ اپنی ہی تذلیل کی وجہ بن رہی ہیں۔ اس کے برعکس جب آپ کسی سے پیار ، محبت، شائستگی اور دھیمے لہجے میں بات کریں گی تو نہ صرف سننے والوں کو اپنا گرویدہ بنالیں گی بلکہ جو بات آپ کہنا چاہتی ہیں وہ بھی دوسروں تک پہنچ سکے گی۔ بات کرتے ہوئے یہ خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ آپ کس سے ہم کلام ہیں؟اگر آپ کے سامنے عمر اور تجربے میں کوئی بڑا ہے تو اس سے سلیقے اور ادب سے پیش آئیں خواہ وہ کتنی بھی ناپسندیدہ بات کریں، اسی طرح اگر کوئی عمر اور تجربے میں چھوٹا ہے تو اس سے شفقت اور حسنِ اخلاق سے پیش آئیں، اگر کسی کی کوئی بات ناگوار لگے تو بدتمیزی کرنے سے بہتر ہے کہ اس جگہ سے چلی جائیں لیکن کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے کسی کی دل آزاری ہو یا عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچے۔ خوش مزاجی اور دھیمہ لہجہ اپنا کر دوسروں کے دلوں میں جگہ بنائیں۔
نوٹ: (فیچر میں شامل تصاویر علامتی اظہار کے لئےخود بنائی گئی ہیں۔)