غزہ کی پٹی پر مسلسل بمباری، تباہی اور ہلاکتوں کی وجہ عملاً ہزاروں فلسطینی عرب بچوں کا قبرستان بن چکا ہے۔ خدشہ ہے کہ بچوں کی مزید اموات میں ایک اور بڑا سبب بچوں کے جسموں میں پانی کی ہو چکی کمی بن سکتی ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کے پچھلے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق 8525 شہید ہونے والے فلسطینی شہریوں میں سے 3500 فلسطینی بچے شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق اب خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ بڑی تعداد میں بچوں کی غزہ میں اموات پانی کی کمی کے عارضے کی وجہ سے ہو سکتی ہیں۔ ہمارا سنگین ترین خوف اس سے ہے کہ براہ راست بمباری کی وجہ سے مرنے والے بچوں کی تعداد پانی کے کمی سے ہونے والی ہلاکتوں کے باعث پس منظر میں جا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ غزہ میں ہر طرح کے سول انفراسٹرکچر کی بمباری سے تباہی کے سبب پانی کی فراہمی کا نظام بھی تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ اب یہ غزہ کی ضرورتوں کے مقابلے میں محض 5 فیصد باقی بچا ہے۔
یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر کا کہنا ہے کہ بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد جو پہلے چھوٹے اعداد میں تھی، پھر درجنوں میں ہوئی ، بعد ازاں بیسیوں کی تعداد میں تبدیل ہوتی ہوئی سینکڑوں میں اور اب یہ ہلاکتیں ہزاروں کو پہنچ چکی ہے۔
اب تک بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے تین ہزار کو چھو چکی ہے۔ جبکہ ہر آنے والے روز اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غزہ بچوں کا قبرستان بن چکا ہے، غزہ اپنے ہر رہنے والے کے لیے ایک جہنم زار بن گیا ہے۔