وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے تانے بانے ایران اور افغانستان سے ملتے ہیں اور دہشتگردوں کے خلاف کثیرالجہتی اور ٹارگٹڈ آپریشن ہوگا۔
سماء کے پروگرام "ندیم ملک لائیو" میں میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے دہشت گردی، قومی سلامتی کمیٹی (این اے سی) کے اجلاس، اور حکومتی پالیسیوں کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی جس کے دوران انہوں نے انکشاف کیا کہ این اے سی کے ایک اجلاس میں دہشت گردوں کی واپسی کا معاملہ زیر بحث آیا تھا لیکن وہ خود اس میں شریک نہیں ہوئے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ معاملہ پہلے سے طے شدہ ہے۔
وزیر دفاع نے بتایا کہ اجلاس میں شہباز شریف جنرل ( ر) قمر جاوید باجوہ سے یہ سوال نہ پوچھ سکے کہ دہشت گردوں کو واپس کیوں لایا جا رہا ہے۔
خواجہ آصف کے مطابق اجلاس میں محسن داوڑ نے اس پالیسی کی مخالفت کی اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا لیکن انہیں دوبارہ بولنے سے روک کر چپ کرا دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں نے اس فیصلے پر اعتراضات اٹھائے مگر مخالفت اس شدت سے نہ ہو سکی جس کے اثرات کو مؤثر طریقے سے سنبھالا جا سکتا اور اس پالیسی کے نتیجے میں تقریباً 4 ہزار دہشت گردوں کو واپس لا کر بسایا گیا جس کے خلاف سوات میں عوامی جلوس بھی نکلے۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے تانے بانے ایران اور افغانستان سے ملتے ہیں، پاکستان نے خفیہ ٹھکانوں اور بارڈر پار ہائیڈ آؤٹس پر حملے کیے لیکن تعداد کو ٹی وی پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر انہیں مکمل طور پر ختم (وائپ آؤٹ) نہ کیا گیا تو یہ ریاست کے لیے سنگین خطرہ بن جائیں گے۔
خواجہ آصف نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دو حکمت عملیوں کا ذکر کیا، ایک "کائنیٹک اسٹریٹجی" جو متاثرہ علاقوں میں فورس کے استعمال پر مبنی ہوگی اور دوسری "سوفٹ اینڈ ہارڈ اسٹیٹ" پالیسی۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کو مضبوط ہونا چاہیے اور ڈیلیورنس اس سطح تک لے جانی چاہیے جہاں شدت پسندی کے رجحانات بڑھ رہے ہیں۔
بلوچستان کے حالات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ روایتی لیڈرشپ اور قبائلی زعما اب یہ مان رہے ہیں کہ دہشت گرد ان کے قابو میں نہیں اور یہ مسئلہ نوجوان نسل کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔
انہوں نے تاریخی حوالوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نواب نوروز خان کو معاہدے کے باوجود ایوب خان نے پھانسی دی جبکہ بگٹی معاملے میں مشرف ذمہ دار تھے۔
انہوں نے جنرل ضیا کے دور میں افغانستان میں مداخلت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ جہاد نہیں، بڑی طاقتوں کی جنگ تھی جس میں پاکستان چمچہ بنا۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف قوم متحد تھی لیکن اب وقت ہے کہ اسے جڑ سے ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں ورنہ اس کے اثرات جلد نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کہہ دیا ہے وہ آپریشن کے حق میں نہیں ہیں ، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے آپریشن کی مخالفت کی نہ حق میں بات کی ، انہوں نے رسمی طور پر ایک تنقید بھی کی ہے اور کہا کہ ہمارے لیڈر کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے، دہشتگردی کے پرچے میرے پر بھی بنے ہوئے ہیں ، یہ اچھا کام نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے ناسور کو ختم کرنے پر فوکس ہے، پی ٹی آئی صرف بانی پی ٹی آئی میں دلچسپی رکھتی ہے، ان کا اول اور آخر بانی پی ٹی آئی ہے، ان کی نظر میں بھاڑ میں جائے پاکستان ، کہتے ہیں بانی نہیں تو پاکستان نہیں، بانی جہاں بھی ہوتے آپ کو حصہ لینا چاہیے تھا، وہ رات کے 11 بجے اجلاس میں شرکت سے مکرے ہیں، مطالبات کریں تو ایسا تو نہیں چل سکتا۔
خواجہ آصف نے ملٹری کورٹس کی حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ ان کی جماعت اسے سپورٹ کرے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صحت کی وجہ سے نواز شریف ملاقاتوں سے گریز کرتے ہیں، ڈاکٹرز نے سفر سے پرہیز اور سرگرمیاں محدود کرنے کا کہا ہے، انہوں نے خود کہا ہے میری طبیعت خراب ہے۔