انسداد دہشت گردی عدالت اسلام آباد نے مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ ام حسان اور دیگر ملزمان کیخلاف سرکاری عملے پر حملے اور فائرنگ کے کیس میں 4 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
لال مسجد کے سابق امام مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ ام حسان سمیت متعدد افراد کیخلاف شہزاد ٹاؤن تھانے میں مجسٹریٹ مرتضیٰ چانڈیو کی مدعیت میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
متن کے مطابق خواتین اور مردوں نے سی ڈی اے کی گاڑیاں توڑیں، پولیس اہلکاروں سے اینٹی رائٹ کٹس بھی چھینی گئیں، ام حسان سمیت متعدد افراد نے سی ڈی اے عملے پر فائرنگ کی۔
مقدمے میں مزید کہا گیا ہے کہ دو گولیاں سرکاری گاڑیوں کو جاکر لگیں، ام حسان سمیت 9 خواتین کو گرفتار کیا گیا، گرفتار افراد میں 8 مرد بھی شامل ہیں، ایک پستول بھی برآمد کرلیا۔
پولیس نے مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ ام حسان سمیت دیگر ملزمان کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا، جن میں 6 خواتین اور 7 مرد شامل ہیں، عدالت نے تمام ملزمان کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے کی، اس موقع پر دلائل دیتے ہوئے وکیل صفائی نے کہا کہ ملزمان کو مسجد سے گرفتار کیا گیا، پولیس نے کیا چیز برآمد کرنی ہے؟۔ ام حسان نے کہا کہ مسجد کا تنازعہ چل رہا تھا، انتظامیہ سے مذاکرات کیلئے گئے تو گرفتار کرلیا۔
پولیس نے کہا کہ سی ڈی اے کی جانب سے مدرسہ کیلئے مختص پلاٹ پر تعمیرات جاری تھیں، ملزمان نے حملہ کیا اور تعمیراتی سامان اٹھا کر لے گئے، ملزمان سے ریکوری کرنی ہے، 5 دن کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
جج طاہر عباس سپرا نے پوچھا کہ جب ملزمان موقع سے گرفتار ہوئے تو کیا ریکوری کرنی ہے؟۔ پولیس حکام نے بتایا کہ ملزمان کے دیگر شریک ساتھیوں کو بھی گرفتار کرنا ہے، جج نے کہا کہ ام حسان پہلے بھی آپ 4 کیسز میں اشتہاری ہیں۔ جس پر وکیل ام حسان کا کہنا تھا کہ ہمیں ان کیسز کا ابھی معلوم ہوا، عدالت میں پیش ہوجائیں گے۔
جج طاہر عباس سپرا نے ریمارکس دیئے کہ مساجد، چرچ، مندر اور امام بارگاہوں پر لڑائیاں کیوں ہوتی ہیں؟، ہم عبادت گاہوں پر لڑنا کب چھوڑیں گے؟۔