عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اہم سوالات اٹھاتے ہوئے وکلا کو اُن کی ذمہ داری بھی یاد دلا دی۔
رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نےعام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت پر اپنےریمارکس دئتے ہوئے کہاکہ کیا ہم صدر مملکت کو الیکشن کی تاریخ نہ دینے پر نوٹس کر دیں؟ وکلا شام کو ٹی وی پروگرامز میں کیس لڑتے ہیں مگر یہاں تیاری کے ساتھ نہیں آتے۔ درخواستگزاروں کا مؤقف تھا کہ اگر سپریم کورٹ آج نوے دنوں میں انتخابات کا حکم دے تو تین نومبر کو پولنگ ممکن نہیں۔ عدالت نے وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت دو نومبر تک ملتوی کر دی۔
سماعت کے آغاز پر صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے 5 اگست کو مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ چیلنج کرنے کا بتایا تو چیف جسٹس نے کہا یہ فوری نوعیت کا معاملہ تھا ،بروقت درخواست مقرر ہوتی تو ابھی تک فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ میں نے اور کمیٹی نے اپنی ذمہ داری پوری کی ۔
عابد زبیری کی جانب سے پرانے فیصلے کا حوالہ دینے پر چیف جسٹس کا سخت اظہار برہمی ۔ کہا آپ نے سماعت میں تین بار غلط بیانی کی ہے۔ایسا نہ کریں ابھی کیس تو سمجھایا نہیں اور آپ فیصلوں پر آ گئے۔آپ سپریم کورٹ بار کے صدر ہیں سیاسی جماعت کے وکیل نہیں۔ خرابی اس وقت ہوتی ہے جب وکیل سیاستدان بن جاتے ہیں۔ اگر آپ کہیں کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس، مردم شماری نتائج اور حلقہ بندیاں تینوں غلط ہیں تو آئینی تشریح کیلئے پانچ رکنی بینچ بنانا پڑے گا۔
اظہر صدیق کے وکیل انور منصور نے مؤقف اپنایا کہ صدرمملکت کے خط کے بعد تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام تھا۔ انور منصور نے فون سے دیکھ کر 13 ستمبر کا خط پڑھنا شروع کیا تو چیف جسٹس نے روک دیا کہا لگتا ہے آپ نے درخواست خود نہیں لکھی۔ وکلا شام کو ٹی وی پروگرامز میں کیس لڑتے ہیں، یہاں تیاری سے نہیں آتے۔۔ صدر نے اتنخابات کی تاریخ نہیں دی تو کیا نوٹس کردیں ۔۔اگر کوئی آئین کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو آرٹیکل 6 لگے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا جس نے بھی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی اسے نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس نے سماعت کے آرڈر میں لکھوایا کہ کیس کے درخواست گزار مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے عمل سے مطمئن نہیں۔درخواست گزاروں سے پوچھا گیا کہ الیکشن کی تاریخ نہ دینے کا ذمہ دار کون ہے تو کچھ نے کہا الیکشن کمیشن جبکہ کچھ نے صدر مملکت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ درخوستگزاروں کا مؤقف ہے کہ آج الیکشن کرانے کا فیصلہ ہو جائے تو نوے روز میں انتخابات ممکن نہیں ۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو اور وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 2 نومبر تک ملتوی کر دی۔