جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت فارم 47 کی ہے اور یہاں جعلی حکومت بیٹھی ہے۔
پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جے یوآئی ایک نظریاتی تحریک کا نام ہے، حالات کی روش کے ساتھ ہمیں چلنا پڑتا ہے، ہم نے اکابرین اور اسلاف کے نظریے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا آئینی طور پر نظریاتی اساس کا تعین کرنا ہمارے اکابرین کا پارلیمانی کردار ہے۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ ملکی جمہوریت اور پارلیمانی سیاست معیاری نہیں اور ان پر رہزاروں سوال اٹھ رہے ہیں، کمزوریوں کی بنیاد پر نظام اور عقیدے سے دستبردار نہیں ہوا جاتا، ہماری جدوجہد جاری ہے اور جاری رہے گی۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بہت بڑا مذہبی طبقہ موجود ہے ، جس میں فرقہ وارانہ اختلافات موجود ہیں، مذہب بیزار لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام تو ہمارا بھی مذہب ہے لیکن کس کا اسلام ، کس مذہب کا اسلام ؟ کس فرقے کا اسلام؟، اگر ریاست اور مذہب کو جوڑ دیا جائے تو مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کا منفی اثرریاست پڑتا ہے، مذہب اور ریاست کے بیچ تعلق نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمانی زندگی میں ایسے مواقع آئے جہاں یہ موضوع زیربحث آیا ، ہمارامؤقف رہا کہ تمام مکاتب فکر کی سیاسی قیادت نے ہمیشہ مذہبی ہم آہنگی کا کردارادا کیا، پاکستان بننے کے بعد اولین دستاویز اسمبلی کی پاس کردہ قرارداد مقاصد تھی، 1951 میں تمام مکاتب فکر کے علما کی قیادت کا اجتماع ہوا، ملک کو اسلامی نظام کی طرف رہنمائی کیلئے حکمرانی کے 22 اسلامی دفعات مرتب کی گئیں۔
کرم کے معاملے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 20، 22 سال سے زائد عرصے سے قبائل لڑ رہے ہیں، اگر یہ شیعہ سنی فساد ہے تو کرم سے تھوڑا نیچے ہنگو آتا ہے، ہنگو بھی شیعہ سنی کا علاقہ ہے ، شیعہ آبادی سے سڑک گزر کر کوہاٹ آتی ہے، کوہاٹ میں بھی شیعہ سنی معاملہ ہے ، ماضی میں بھی فسادات ہوئے، کیا وجہ ہے کرم میں جھگڑا شیعہ سنی کا ہے اور اس کی گرمی ہنگواور کوہاٹ تک نہیں پہنچتی لیکن اس معاملے کی گرمی کراچی تک پہنچ جاتی ہے، کیا وجہ ہے اس کی گرمی لکھنؤ تک پہنچ جاتی ہے اور کیا وجہ ہے ڈی آئی خان ، پشاورتک نہیں پہنچتی اور تہران تک پہنچ جاتی ہے؟۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پتا ہے اس مسئلے کی بنیاد کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے، مسئلے کو اشتعال دیا جا رہا ہے، پریس کانفرنس کرنے والی تنظیمیں کس کے اشارے پر آگے آتی ہیں؟ کب تک معاشرے کو غلط فہمیوں کا شکار کرتے رہیں گے؟، میرے پاس بھی کچھ وفود آئے تھے، ہم نے جیسے ہی راستہ بنایا اگلے دن دوبارہ فسادات ہوگئے، ہم معاملات سیدھا کرنے کیلئے متوجہ ہوتے ہیں تو پیغام دیا جاتا ہے آپ کون ہیں مسئلہ ٹھنڈا کرنے والے اور کہا جاتا ہے ہم تو اشتعال دلا رہے ہیں ، شعلے کو اٹھا رہے ہیں۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ہم اپنا کردار قرآن کریم کے اصولوں کی نظر میں طے کرتے ہیں، فرقہ واریت کی بنیاد پر لوگوں کا خون کیا گیا، دوستوں نے مجھ سے بھی رابطہ کیا قتل کیا جا رہا ہے ، ہمیں بندوق کی اجازت دی جائے لیکن ہم نے منع کیا کہ اشتعال میں نہیں آنا اور تحمل اور برداشت سے کام لینا ہے، ہم ملک کے ساتھ وفاداری کا اظہار کر رہے ہیں ، کس بات کی سزا دی جارہی ہے، تمام تر وفاداریوں کے باوجود اس طبقے کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے تو پھر مان لو نہ مولوی اور نہ مدرسہ دہشتگرد ہے اور نہ یہ دہشتگردی کے مراکز ہیں ، الزام کے سہارے پر ان کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ آئین بناتے وقت تمام اپوزیشن موجود تھی ، تمام مکاتب فکر کے علماء تھے، ختم نبوت کے مسئلے میں بھی تمام مکاتب فکر کے علما موجود تھے، 17 ویں ترمیم آئی تو ایم ایم اے موجود تھی، 18 ویں ترمیم میں ساری اسمبلی موجود تھی، 26ویں ترمیم کے مسئلے پر تاریخ میں پہلی بار ہمیں کردار ملا جسے ادا کرنے میں ہم تنہا تھے، پی ٹی آئی اپوزیشن میں تھی لیکن مذاکرات کا حصہ نہیں تھی، ہم ان کو قدم بہ قدم صورتحال سے آگاہ کرتے رہے ، اعتماد میں لیتے رہے، ان کی اعتراض کی نشاندہی پر اسے بھی مسئلہ بنا کر مذاکرات کا حصہ بناتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مسودہ اور ڈرافٹ نہیں دیا جا رہا تھا ، چھپایا جا رہا تھا، جب مہیا کیا گیا تو سب سے پہلے حملہ آرٹیکل 8 پر ہوا، جو عام آدمی کے انسانی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے، پارلیمنٹ یا اسمبلی سے پاس قانون عدالت میں نفی ثابت ہونے پر قانون معطل کر دیا جاتا ہے، 26 ویں ترمیم میں استثنیٰ کا دائرہ بڑھا دیا گیا ، ہم نے انکار کر دیا یہ نہیں ہوسکتا، بالآخر انہیں دستبردار کرنا پڑا، ہماری عدالتوں کو کھلونا بنایا گیا، ہائیکورٹ کے ججز کو تبدیل کرنے کا اختیار بھی ہم خود اپنے ہاتھ میں لے رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کتنی بری بات ہے کہ عدلیہ پر چھاپ پڑ جائے کہ اس کا فلاں جج اس پارٹی کا ہوگا ، دوسرا اس پارٹی کا ہوگا، میں نے تنقید کی تھی کہ جج کو سامنے رکھ کر فیصلے اور آئینی ترمیم کریں گے؟، میں نے کہا تھا عدالتی اصلاحات لائیں، اگر ملٹری طبقہ کسی عدالت کو پیغام بھیج دے کہ یہ مقدمہ ہمارے زمرے میں آتا ہے تو وہ وہاں منتقل ہوجائے، 56 شقوں پر مشتمل آئینی ترمیم ہم نے 34 شقوں سے ان کو دستبردار کیا ، پھر 22 شقیں رہ گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ کیا تھا 31 دسمبر 2027 تک سود کا خاتمہ ہوگا، تمام اداروں کو ہدایات دی گئیں کہ آپ اپنے ادارے کے اندر مالیاتی نظام کو بینکوں کو ہدایات دیں کہ تمام مالیاتی نظام کو 31 دسمبر 2027 تک سود کی ادائیگی سے پاک کریں، ہم نے ترمیم دی کہ یکم جنوری 2028 سے ہر ادارے میں سود کا خاتمہ ہو جائے گا، سود کے نظام کو مستقل طور پر جڑ سے اکھاڑنے کیلئے بنیاد رکھ دی گئی، حوصلہ چاہیے ، جذباتی ہو کر آدمی بندوق کی طرف جاتا ہے، صبر اور تحمل سے کام لینا مشکل ہے، بنیادی چیز یہ ہے کہ نظریہ کو زندہ رکھنا ہے، نظریہ زندہ رہے گا تو وقت آئے گا جب آپ کو مواقع ملیں گے۔