سینیٹ کی قائمہ کمیٹی ماحولیاتی تبدیلی نے اگلے ہفتے راول ٹیم کے دورے کا اعلان کردیا، ڈیم کی حالت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نالے صاف ہونے چاہئیں، اس میں کچرا نہیں آنا چاہیے۔
شاہ زیب درانی کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی ماحولیاتی تبدیلی کا اجلاس ہوا، جس میں ڈی جی ادارہ تحفظ ماحولیات ڈاکٹر فرزانہ الطاف نے راول ڈیم سے متعلق بتایا کہ سی او ڈی بڑھنے سے چھوٹی مچھلیوں کی ہلاکت ہوتی ہے، 2024ء میں مچھلیوں کی ہلاکتوں کے کچھ واقعات ہوئے، میڈیا میں کہا گیا کہ ڈیم کے پانی میں زہر ملا دیا گیا، مون سون میں تاخیر اور پانی آلودہ ہونے سے مچھلیوں کی ہلاکت ہوئی۔
ممبر کمیٹی نسیمہ وانی نے پوچھا کہ آپ نے مچھلیوں کی ہلاکت کا بتا دیا مگر انسانوں کا نہیں بتایا؟، ہزاروں شہری پانی سے پیدا ہونیوالے امراض سے متاثر ہورہے ہیں۔
ڈی جی ادارہ تحفظ ماحولیات نے کہا کہ راول ڈیم کے اطراف تجاوزات سے پانی آلودہ ہوتا ہے، بنی گالہ، بری امام اور مری کی آبادی 4 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے، ان علاقوں میں کوئی سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ بھی نہیں لگایا گیا، پانی کے معیار کی مانیٹرنگ کا نظام کسی بھی ادارے کے پاس نہیں۔
ممبر کمیٹی نسیمہ خان نے پوچھا کہ پانی کے معیار کی مانیٹرنگ کا سسٹم کس نے لگانا تھا؟، جس پر ڈی جی ای پی اے ڈاکٹر فرزانہ الطاف نے بتایا کہ واسا نے یہ سسٹم لگانا تھا۔
ایم ڈی واسا نے کہا کہ واٹر کوالٹی کا سسٹم ہمارے پاس موجود ہے، پانی کے نمونے ہر 3 ماہ بعد پی سی آر ڈبلیو آر کو بھجواتے ہیں، راولپنڈی میں 40 سے 50 سال پرانے پائپ لگے ہیں، وقفے وقفے سے ان پائپوں کو تبدیل کر رہے ہیں۔
کنوینر کمیٹی شاہزیب درانی نے پوچھا کہ راول ڈیم نیشنل پارک کا حصہ ہے، 2 کلو میٹر کے اندر کیسے تعمیرات ہوئیں؟، نالے صاف ہونے چاہئیں، اس میں کچرا نہیں آنا چاہیے۔
ڈی جی ادارہ تحفظ ماحولیات نے کہا کہ راول ڈیم کا مسئلہ 25 سال سے ہے، انہوں نے پوچھا کہ محکمہ آبپاشی یا سی ڈی اے نے ڈیم بچانے کیلئے کون سا منصوبہ دیا؟۔
ممبر کمیٹی نے کہا کہ محکمہ آبپاشی فنڈز کہاں لگاتا ہے؟، راول ڈیم کا حال تو دیکھیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی نے اگلے ہفتے راول ڈیم کے دورے کا فیصلہ کرلیا۔ کنوینر نے کہا کہ محکمہ آبپاشی پنجاب ڈیم کی صفائی کیلئے اپنی کشتی بھی رکھے، سرکاری ادارے کو کشتیوں کی جگہ دے سکتے ہیں اپنی کشتی نہیں رکھ سکتے؟، کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں چیئرمین سی ڈی اے کو بھی طلب کرلیا۔