خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران ہونے والی بدانتظامی، مالی بے ضابطگیوں، اور سیکیورٹی بحران پر اگر نظر ڈالی جائے تو حقائق پر مبنی ایک لمبی فہرست ہے ، پچھلے دس سالوں میں یہ مسائل عوامی فلاح و بہبود اور صوبائی ترقی میں بڑی رکاوٹ بنے ہیں۔
1۔ مالی بدانتظامی اور کرپشن
آڈٹ رپورٹس میں انکشافات ہوئے کہ خیبر پختونخوا کے خزانے کو 152 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہوا، جو دھوکہ دہی، ناقص انتظام، اور غیر قانونی اخراجات کا نتیجہ ہے۔
84 ارب روپے ترقیاتی اخراجات کی غلط درجہ بندی کی وجہ سے ضائع ہوئے، جبکہ 13.29 کروڑ روپے جعلی ادائیگیوں اور 51.46 کروڑ روپے مشکوک لین دین میں خرچ کیے گئے، 80 لاکھ روپے کی سرکاری گاڑیاں غائب ہیں۔
قرضوں کا بحران
صوبے پر قرضہ 725 ارب روپے ہو چکا ہے، جو 2030 تک 2,555 ارب روپے تک پہنچنے کا خدشہ ہے، سالانہ سود کی ادائیگی 355 ارب روپے ہے، جو ترقیاتی بجٹ کے برابر ہے، یہ قرضے زیادہ تر غیر ضروری اور ناقص منصوبوں پر خرچ کیے گئے۔
ادارہ جاتی کرپشن
میڈیکل کمپلیکس نوشہرہ میں غیر قانونی بھرتیاں کی گئیں، اور کرپشن کے الزامات کے باوجود چیئرمین کو دوبارہ تعینات کیا گیا۔
ٹورزم ڈویلپمنٹ اسکینڈل:
KITE منصوبے میں 2.68 ارب روپے کی غیر قانونی اضافی اخراجات شامل ہیں، جنہیں صوبائی کابینہ نے قانونی تحفظ دیا۔
2 قانون و امان کی خراب صورتحال
الف: کرم ضلع کی مشکلات
قبائلی جھڑپوں میں 124 افراد جاں بحق اور 178 زخمی ہو چکے ہیں۔
حکومت کی غفلت کے باعث خوراک اور ادویات کی قلت نے عوام کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔
ب: سیکیورٹی اہلکاروں کی قربانیاں
خیبر پختونخوا میں 383 اہلکار شہید ہو چکے ہیں، جو امن و امان کی بگڑتی صورتحال کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ج: ترجیحات کا غلط تعین
صوبائی حکومت اسلام آباد میں احتجاجی مظاہروں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، جبکہ عوامی مسائل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
3۔ کلیدی اصلاحات کا خاتمہ
الف: پولیس اصلاحات کا خاتمہ
پولیس ایکٹ 2017، جو پولیس کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، حالیہ ترامیم کے ذریعے بے اثر ہو گیا ہے۔
پولیس کی خود مختاری ختم کرتے ہوئے اختیارات دوبارہ وزیر اعلیٰ کو منتقل کیے گئے ہیں۔
ب: یونیورسٹیوں میں سیاسی مداخلت
کے پی یونیورسٹیز ترمیمی بل 2024 کے تحت گورنر کی جگہ وزیر اعلیٰ کو چانسلر مقرر کیا گیا۔
اس اقدام نے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سیاسی بھرتیوں کا راستہ ہموار کیا اور تعلیمی آزادی کو خطرے میں ڈال دیا۔
4۔ مجموعی گورننس کی ناکامیاں
الف: غیر مؤثر اینٹی کرپشن اقدامات
اینٹی کرپشن کے ادارے بڑے اسکینڈلز کی تحقیقات میں ناکام رہے ہیں۔
اینٹی کرپشن کے مشیر کی کارکردگی صفر ہے، حالانکہ انہیں وزارتی مراعات حاصل ہیں۔
ب: ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر اور اضافی اخراجات
اہم منصوبے، جیسے سیاحت کا انفراسٹرکچر، شدید تاخیر اور 2.68 ارب روپے کے اضافی اخراجات کا شکار ہوئے۔
ج: عوامی وسائل کا غلط استعمال
ریسکیو 1122 کی گاڑیاں سیاسی احتجاج کے لیے استعمال کی گئیں۔
ڈی آئی خان اور بنوں میں پانی اور صفائی کے منصوبوں کی لاگت 600 فیصد تک بڑھا دی گئی، جو غیر ضروری اور ناقابل جواز ہے۔
- سیکیورٹی بحران اور عوامی فلاح کو نظر انداز کرنا
الف: عوامی فلاح کو نظر انداز کرنا
کرم اور پاراچنار کے متاثرہ علاقوں میں حکومتی توجہ کی شدید کمی ہے۔
عوام خوراک، پانی، اور طبی امداد کی کمی کا شکار ہیں، جبکہ صوبائی حکومت اسلام آباد میں مظاہرے منظم کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔
ب: وفاقی حکومت اور اداروں پر الزام تراشی
ڈی جی آئی ایس پی آر نے نشاندہی کی ہے کہ پی ٹی آئی اپنی ناکامیوں کا الزام وفاقی حکومت اور اداروں پر ڈال رہی ہے، جو عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔
ج: حکومتی نااہلی کا اثر
صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال نہ صرف عوام بلکہ شہید ہونے والے سیکیورٹی اہلکاروں کے خاندانوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
6۔ عوامی مطالبات اور حکومت سے اصلاحات کا تقاضا
الف: شفاف احتساب کا مطالبہ
تمام کرپشن اسکینڈلز کی آزادانہ تحقیقات کی جائیں۔
عوامی وسائل کو لوٹنے والے عناصر سے رقوم واپس لی جائیں۔
ب: ادارہ جاتی اصلاحات
اینٹی کرپشن اداروں کو ازسرنو منظم کیا جائے تاکہ وہ مؤثر طریقے سے کام کر سکیں۔
ترقیاتی منصوبوں پر سخت نگرانی کی جائے تاکہ آئندہ بے ضابطگیوں سے بچا جا سکے۔
ج: عوامی فلاح کو ترجیح دی جائے
صحت، تعلیم، اور بنیادی ڈھانچے میں فوری سرمایہ کاری کی جائے۔
کرم اور دیگر متاثرہ علاقوں میں فوری امداد فراہم کی جائے۔
د: قرضوں کے انتظام کی اصلاحات
ماہرین کو شامل کر کے صوبے کے قرضوں کا منصفانہ منصوبہ بنایا جائے۔
ترقی کے لیے پائیدار حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ صوبے کی معیشت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے۔