امریکہ میں انتخابات ہونے جارہے ہیں جس کیلئے رپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جبکہ ڈیموکریٹس کی جانب سے صدارتی امیدوار کملا ہیرس ہیں تاہم انتخابات کے دوران سب سے اہم اور سمجھنے کی چیز ’ الیکٹورل کالج‘ ہے ۔ یہ وہ نظام ہے جس کے تحت کبھی کبھار یہ حیران کن صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے کہ عوامی ووٹوں میں برتری حاصل کرنے کے باوجود کوئی امیدوار صدارت حاصل نہیں کر پاتا۔
الیکٹورل کالج کیا ہے؟
جب امریکی عوام ڈیموکریٹ امیدوار کمالہ ہیرس یا ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیتے ہیں، تو دراصل وہ براہ راست ان امیدواروں کو نہیں بلکہ اپنے ریاستی نمائندوں کو ووٹ دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ نمائندے ایک نظام یعنی الیکٹورل کالج کے ذریعے صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔
الیکٹورل کالج میں کل 538 الیکٹورل ووٹس ہیں، اور صدارت حاصل کرنے کے لیے امیدوار کو کم از کم 270 ووٹس درکار ہوتے ہیں۔ یہ ووٹس ریاستوں کی آبادی کے مطابق تقسیم کیے جاتے ہیں اور یہ سسٹم قومی سطح پر نہیں بلکہ ریاستی سطح پر کام کرتا ہے۔
الیکٹورل کالج کیسے کام کرتا ہے؟
ہر ریاست کے الیکٹورل ووٹس کی تعداد اس کی آبادی کے مطابق ہوتی ہے، جیسے کیلیفورنیا کے پاس سب سے زیادہ یعنی 54 ووٹس ہیں جبکہ چھوٹی ریاستوں مثلاً وائیومنگ اور الاسکا کے پاس تین ووٹس ہیں۔ زیادہ تر ریاستوں میں "ونر ٹیک آل" پالیسی ہے، جس میں جس امیدوار کو سب سے زیادہ ووٹ ملیں، اسے ریاست کے تمام الیکٹورل ووٹس مل جاتے ہیں۔
الیکٹورل کالج کی پیچیدگیاں
الیکٹورل کالج میں ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایک امیدوار عوامی ووٹوں میں ہارنے کے باوجود صدارت جیت سکتا ہے۔ 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کو الیکٹورل ووٹس میں شکست دی، جبکہ کلنٹن کو عوامی ووٹوں میں تقریباً تین ملین کی برتری حاصل تھی۔ اس سے پہلے 2000 میں جارج بش نے ال گور کو اسی طرح شکست دی۔
الیکٹرز کون ہوتے ہیں؟
الیکٹرز کا تعلق ہر ریاست سے ہوتا ہے اور انہیں اپنی ریاست میں جیتنے والے امیدوار کو ووٹ دینا ہوتا ہے۔ تاہم کچھ ریاستوں میں الیکٹرز اپنی مرضی سے بھی ووٹ دے سکتے ہیں۔ ایسے الیکٹرز کو "فیتھ لیس الیکٹرز" کہا جاتا ہے۔
اگر کوئی بھی امیدوار 270 الیکٹورل ووٹس حاصل نہ کر سکے، تو امریکی ایوان نمائندگان صدر کا انتخاب کرے گا۔ یہ صورتحال تقریباً ناممکن ہے لیکن تاریخ میں ایسا 1824 میں ہوا تھا۔