سعدی گارڈن کی حنا فیض پہلے تو اپنے شوہر سے کئی دنوں تک اس بات پر خفا رہیں کہ انہوں نے بچت کیے ہوئے آٹھ، نولاکھ کی رقم سےسولر کیوں لگوایا؟؟ رواں سال جون کی سخت ترین گر می میں،پانچ دن کی مسلسل لوڈ شیڈنگ نے جواں سال فیض الدین کو اتنا پریشان کیا کہ انہوں نے بیرون ملک جانے کے لیے جمع شدہ رقم سے اپنے گھر کی چھت پر، سولر اس امید پر لگوایا کہ محض ایک سال میں بل کی مد میں بچت سے ریکوری ہو جاے گی اور ان کا یہ قیاس اب درست ثابت ہو رہا ہے۔
لیکن دوسری جانب ان کے خاندان کے اکثر افراد، جن کی رہائش فلیٹوں یا اپارٹمنٹس میں ہے، قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے ونڈ یا پون اور سولر کے بارے میں لاعلم ہیں۔ بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کے تناظر میں، کراچی کے فلیٹوں کے رہائشی اس بات کے منتظر ہیں کہ انہیں متبادل توانائی کی کوئی بہتر صورتحال نظر آئے اور وہ مشترکہ کوششوں اور کلائیمٹ فائنانس کی سہولتوں کے ذریعے اس کی جانب منتقل ہو جائیں۔ شہروں میں نیٹ میٹرنگ ، ریورس میٹرنگ یا گرین میٹرنگ کا تصور اب نیا نہیں ۔اس کی لائسنسنگ کے بعد دن میں پیدا ہونے والی اضافی بجلی گورنمنٹ کے پاس چلی جاتی ہے،حکومت وہ بجلی خریدتی ہے اور پھر رات کو جب پیداوار نہیں ہو رہی اور سولر کام نہیں کر رہا تو جو بجلی صارف کے سسٹم سے لیتے ہیں وہی صارف کو فراہم کردی جاتی ہے تو صارف کا بجلی کا بل زیرو آتا ہے ۔
2023 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کا آٹھ سے دس فیصد اسٹرکچر، اپارٹمنٹ کے طور پر موجود ہے جو ایف کیٹیگیری میں آ تے ہیں ۔اگر ہم اس میں" پورشنز" کو بھی شامل کر لیں تو یہ کل ہاوسنگ کا 17-18 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ خیال رہے کہ کراچی کی 62 فیصد آبادی کراچی میں غیر رسمی بستیوں میں رہنے پر مجبور ہے (عارف حسن) اور اب تک وہاں اپارٹمنٹ کا تصور نہیں ہے۔
حسین جروار، سی ای او انڈس کنسورشیم ، اپارٹمنٹس میں بنیادی سہولتوں یعنی پانی کی موٹروں،لفٹ، پارکنگ ،کوریڈور کی روشنی کے لیے کمیونیٹی بیسڈ سولرکی اجتماعی سہولت کی جانب توجہ مبذول کراتے ہیں۔ ان کے خیال میں لاکھوں کے بل سولر کی مدد سے باآسانی ادا ہو سکیں گے۔اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں اب یہی مروج ہے۔مگر ان کو لگانے کے لیے جگہ کی کمی اصل مسلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
کمیونٹی سولر میں جب بھی گرین میٹر ، ریورس میٹر یہاں نیٹ میٹر کی بات کی جاے تو اس کے لیے بھی حکومت ایسے اقدمات کرے تاکہ ایس ڈی جی سی گول کا حصول تیز ترین ہو سکے۔ بینکوں کی جانب سے آسان شرائط پر سولر کے لیے قرضوں کا حصول یقینی بنایا جائے۔ بیشتر بنک گاڑیوں اور گھروں کے لیے فنانسنگ کرتے ہیں تو کنسیشنل فنانسنگ کے زریعے سولر یا دیگر قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر کام کی رفتار بڑھانا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ورلڈ بینک اپنے مختلف پروگراموں کے ذریعے حکومت پاکستان کے انرجی سسٹم کی ریفارم کے سلسلے میں ٹیکنیکل معاونت فراہم کرتا ہے۔ پی اے سی یعنی پاکستان افورڈ ایبل انرجی پروگرام ،ورلڈ بنک فنانسنگ، پیس پروگرام اورپاکستان افورڈ ایبل کلین انرجی پروگرام پاکستان میں سستی اور صاف توانائی کی ترقی کی پالیسی کہی جارہی ہے جس کا مقصد بجلی کی پیداواری لاگت کو کم کرنے، توانائی کے مکس کو ڈی کاربنائز کرنے، تقسیم میں کارکردگی کو بہتر بنانے اور بجلی کی سبسڈی کو دوبارہ ہدف بنانے کے ذریعے گردشی قرضوں کے بہاؤ کو کم کرنا ہے۔ یہ آپریشن تین ستونوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے حکومت پاکستان کی پاور سیکٹر میں اصلاحات کی حمایت کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے: (1) بجلی کی پیداواری لاگت کو کم کرنا اور توانائی کے مکس کو ڈی کاربونائز کرنا؛ (2) بجلی کی سبسڈی کو دوبارہ ہدف بنانا۔ اور (3) تقسیم میں کارکردگی کو بہتر بنانا۔ پاکستان کے تمام اہم بنک سولر فنانسنگ کر رہے ہیں۔
نیٹ میٹرنگ لگانے میں کافی رکاوٹیں موجود ہیں، کیونکہ اس کا لائسنس حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے۔زرایع کے مطابق حال میں نیٹ میٹرنگ کے نئے لائسنس کا اجرا نہیں ہو رہا، کیونکہ حکومت نے آئی پی پیز کے ذریعے بجلی کے معاہدے کر رکھے ہیں، اگر زیادہ صارفین نیٹ میٹرنگ پر منتقل ہو گئے تو آئی پی پییز کی مہنگی بجلی کون خریدےگا۔ حکومت کی اس سست روی نے فلیٹوں میں رہنے والوں کو نیٹ میٹرنگ کی صاف اور سستی بجلی کے زرائع سے مستفیذ ہونے سے محروم کر رکھا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ حکومت کے ساتھ، صاف توانائی کے وسائل اور فنی معاونت فراہم کرنے والے عالمی بینک نے حکومت کے ساتھ بات چیت، ڈیولپمنٹ پالیسی فنانس اور پیس پروگرام بھی اسی بنیاد پر تھا ،تو اس جانب توجہ کیوں نہیں دی؟ جس کا فایدہ براہ راست عام صارف کو پہنچتا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے سولر اور ونڈ کےلیے شروع کی جانے والی فنانسنگ اسکیم جس کا صرف چھ فیصد انٹریسٹ ریٹ تھا اسے کیوں ختم کر دیا ؟ ۔ عالمی بینک اور اسٹیٹ بینک کے یہ اقدامات سمجھ سے باہر ہیں اور بجلی کے عام صارف کی بجلی کی ضروریات پورا کرنے میں ان کی عدم توجہ کو ظاہرکرتےہیں۔ عالمی بینک کے سارے پروگرام صرف حکومت کو فائیدہ دے رہے، عوام کو کب فائدہ دیں گے؟؟۔ اس پورے عمل میں ایک بڑا مسئلا منصوبہ بندی میں مقای لوگوں اور شہریوں کی عدم شرکت بھی ہے ، عالمی بینک کے ایسے منصوبوں میں شہریوں کی تجاویز اورمشاورت ،ترقی کے اس عمل کو عام عوام کے لے سودمند بنا سکتے ہیں۔
جو لوگ فلیٹس میں رہ رہے ہیں کیا ان کے لیے کوءی ٹھوس منصوبہ موجود ہے؟ کیا کراچی الیکٹرک اپنے سسٹم کو سولر کی طرف اپ گریڈ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان سوالوں پر کے الیکٹرک کے ترجمان اویس منشی نے بتایا، '' پاکستان کا پورا پاور سیکٹر ایک ریگولیٹری نظام کے تحت کام کرتا ہے تمام قواعدو ضوابط ، قوانین اور پالیسیاں ہیں یہ ساری کی ساری یا تو وفاقی حکومت بذریعہ وزارت توانائی یا نیپرا ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے طے یا تعین کیا جاتا ہے۔ اس وقت جو نیٹ میٹرنگ یا سولر کی پالیسی پورے پاکستان میں لاگو ہوئی ہے، ملٹی اسٹوری یعنی فلیٹس کے اندر سولر لگانے کا کوئی سسٹم میسر نہیں ہے ۔انفرادی طور پہ اگر کوءی فلیٹ میں رہتا ہے تو اپنی کھڑکی پہ پینل لگا کے اس سے گھر کے کچھ برقی آلات چلا سکتا ہے، اس طرح ملٹی اسٹوری بلڈنگز کے اندرسہولت میسر نہیں ہے۔کے سولر،کے الیکٹرک کی ایک سبسڈی کمپنی ہے، ان کی مارکیٹینگ اورکمیونیکیشن الگ ہے، اس کے کمرشل اور گھریلو صارفین علیحدہ ہیں جنہیں وہ سولر پینل بیچتے ہیں۔کے الیکٹرک بحیثیت کمپنی یہ کوشش ضرور کر رہی کہ رینیوایبل انرجی کی جا نب اقدامات کرے۔ اسی حوالے سے حال ہی میں 640 میگا واٹ کے رینیو پہ انرجی کے پروجیکٹس کی کمپیٹیٹو میٹنگ کرائی گیءہے جس پر ہمیں متعدد بین الاقوامی اور مقامی سرمایہ کاروں کی جانب سے اظہار دلچسپی موصول بھی ہوا ہے اور اب تک کا ملک میں جو سب سے سستا سولر کی پیداواری لاگت کی بولی ہمیں موصول ہوئی ہے، جو کہ بہت خوش آءند بات ہے اور انشاءاللہ ہماری کوشش یہ ہے کہ جلد از جلد اس سستی ترین بجلی کو بھی اپنی پیداواری صلاحیت کے اندر منتقل کیا جا سکے مستقبل قریب میں1300 میگا واٹ کے رینیوایبل انرجی کےپروجیکٹ الیکٹرک بحیثیت ادارہ اپنی پیداواری صلاحیت میں شامل کرنا چاہ رہا ہے۔…
مجتبی بیگ معروف ماہر ماحولیات،مصنف اورٹرینر ہیں جن کی شہر میں رونما ہونے والی ماحولیاتی تغیرات و تبدیلیوں پرگہری نظر رہتی ہے۔ سولرکے انفرادی اور اجتماعی استعمال پر ان کی ماہرانہ راءے کے مطابق ،کمیونٹی سولر میں مل کر سولر لگوانا اور اس کی راشننگ کرنا بھی ایک حل کہا جا سکتا ہے۔ مثلاسو یا دو سو یونٹ کی تقسیم کے بعد باقی ماندہ بجلی کی نیٹ میٹرنگ کے زریعے حکومت کو بیچ دی جاے۔یونٹ کی تقسیم یوں منصفانہ ہو کہ دو سو یونٹ استعمال کے بعد میٹر لاک ہو جاے گا۔ سینٹرلائزڈ بیٹریاں اوپر لگی ہوں گی جس کی مینٹیننس کا خرچہ سب مل کرادا کریں گے جو ہر چھ ماہ میں ایک بار آ یا کرے گا۔ کراچی میں کچھ کمیونٹیاں باہمی اشتراک اپنے رہایشی اپارٹمنٹس میں سولر لگوا رہی ہیں۔ پڑوس سے بہتریں تعلقات اور تعاون سے یکجہتی کا ماحول بنتا ہے ۔کمیونٹی سولر کے کراچی میں کامیاب ہونے کے امکانات کم ہیں ۔بنیادی وجوہات میں،لسانی اورثقافتی تنوع کو اہم حیثیت حاصل ہے۔کراچی ایک وسیع میٹروپولیٹن شہر ہے جہاں لسانی تفرقات، سیاسی اختلافات اور جلد جلد نقل مکانی کی وجہ سے کمیونٹی سولر کامیاب ہو کر نہیں دیتا۔
ما ہرین کے مطابق گرین انرجی کی منتقلی کے ہدف تک پہنچنے کے لیے ابھی صورت حال واضح نہیں۔ گرین انرجی کے سلسلے میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔ حکومتی پالیسیاں سست روی کا شکار ہیں،اجازت نامے اور این او سی کے مسایل اس بڑے ٹارگٹ کو حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔