جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور بڑبولا شخص ہے ، دوسرے صوبوں کے ساتھ لڑائی کا ماحول کیوں بنا رہے ہیں ، اگر آپ نے اپنے صوبے میں طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے تو کریں، صوبوں کو آپس میں لڑانے کی حمایت نہیں کرسکتا، بدقسمتی ہے کہ ہمارا ایسی مخلوق سے واسطہ پڑا ہے، وزیراعلیٰ کے پی کا بیان بچگانہ ہے اور ان کے منصب کے شایان شان نہیں، بیان پر ردعمل دینا توہین سمجھتا ہوں۔
پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم اتنے کمزور نہیں ، ہم آئینی اور جمہوری انداز میں میدان میں ہیں ، یہ پارلیمان اتنی بڑی آئینی ترمیم کی حقدار نہیں ، جعلی پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم کرانا زیادتی ہے ، آئینی ترمیم کے ذریعے مارشل لا لگا رہے تھے جسے ہم نے سپورٹ نہیں کیا ، پیپلزپارٹی ، پی ٹی آئی اور جے یو آئی اپنے اپنے مسودے بنا رہے ہیں ، مسودے تیار کر کے ایک دوسرے سے شیئر کریں گے، ہم عوامی سطح پر آئینی ترامیم کیخلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ ہمارابجٹ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ( آئی ایم ایف ) بنا رہا ہے ، ہمارا اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں ہے، نہیں ہوسکتا حکومت آئے اور ایک دن میں بنیادی سہولیات مل جائیں ، تمام معاملات پالیسیوں کے تسلسل سے چلتے ہیں، ہم نے اپنی حکومت میں بنیادی تعلیم مفت کر دی تھی۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کے پی میں ہمارا ووٹ اور مینڈیٹ چوری کر کے پی ٹی آئی کو دیا گیا ، ہم سے بڑے جلسے اور مظاہرے کس نے کیے؟، ہم ملک بھر میں جلسے اور مظاہرے کر رہے ہیں ، سیاسی اختلافات ہوسکتے ہیں مگر ایسا لب ولہجہ بچگانہ ہے ، جلسے روکنا غیر جمہوری رویہ ہے ، اس کی مذمت کرتے ہیں ، حکومت کو جلسوں کی اجازت دینی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک فاٹا کیلئے مشکل سے ایک ارب روپے ملے ہیں، اُس وقت فاٹا کو ہر سال 100 ارب روپے ملنے چاہئیں تھے، فاٹا کے عوام کیلئے 800 ارب روپے ملنے چاہئیں تھے، مجھے کہا گیا کہ امریکا کا دباؤ ہے ، میں نے کہا موجودہ حالات ایسے نہیں کہ فاٹا انضمام کیا جائے ، فاٹا انضمام پر جنرل ( ر ) باجوہ اور دیگر لوگوں سے بات ہوئی تھی، امریکی افسر کون تھا جو آیا اور کہا فاٹا کا انضمام لازم ہے، انضمام کے بعد وہاں کےعوام اب زیادہ مشکلات سے گزر رہے ہیں ، قبائلی اضلاع میں جنگ لگی ہوئی ہے ، لوگ ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں پارلیمان کی بالادستی پر کوئی کمپرومائز نہیں ہونا چاہیے ، پہلے کے مسودے دیکھ کر ہم نے کہا ہمیں قبول نہیں، پی ٹی آئی بھی ایک مسودہ لارہی ہے، چاہتےہیں اتفاق رائے کے ساتھ ترمیم لائی جائے، پی پی اور جے یو آئی کے درمیان بھی بات ہوئی ہے ، دیکھتے ہیں اگلے مرحلےمیں حکومت کیا مسودہ لاتی ہے ، یہ سیاسی مقاصد کیلئے آئینی ترمیم کی طرف جا رہے ہیں ، سمجھتے ہیں الیکشن ہوں اور عوام کے صحیح نمائندے پارلیمنٹ میں آئیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جیسے 2018 میں ہمارے حوصلے بلند تھے اب بھی بلند ہیں ، ہم نے بتا دیا ہے کہ ہمیں ہلکا مت لیا جائے۔