کیا پاکستان میں واقعی آئینی عدالت کی ضرورت ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج کل پاکستان کی سیاست کا محور ہے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت ملک میں آئینی عدالتوں کے قیام اور ججز کی تعداد بڑھانے کے لیے ایک عدالتی اصلاحات کا پیکچ اسمبلی میں آئینی ترمیم کی صورت میں لانا چاہتی ہے مگر اس آئینی ترمیم کو دو تہائی اکثر یت نہ ہونے کی وجہ سے تاحال اسمبلی میں پیش نہیں کیا جاسکا۔
اپوزیشن اتحاد کی تمام جماعتوں کی جانب سے عدالتی پیکج کی سخت مخالف نے حکومت کی تمام کوششوں کو خاک میں ملا دیا، تاہم سوال اب بھی وہی ہے کہ کیا پاکستان میں آئینی عدالت کی ضرورت ہے؟۔
قانون کی حکمرانی اور فراہمی انصاف کی عالمی رینکنگ میں پاکستان 140 ملکوں میں سے 130 ویں نمبر پر ہے ، جس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان میں زیر التواء مقدمات ہیں۔ اس وقت ملک بھر کی عدالتوں میں 24 لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں اور کُل زیر التوا مقدمات میں سے 82 فیصد ضلعی عدالتوں میں جبکہ 18 فیصد اعلیٰ عدلیہ میں ہیں۔
31 اگست تک سپریم کورٹ میں زیر التوا 60 ہزار 508 مقدمات میں سے نصف سے زائد‘ 33 ہزار 269 سول مقدمات ہیں جبکہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2023ء کے آخری چھ ماہ کے دوران زیر التوا مقدمات میں 3.9 فیصد اضافہ ہوا۔
اس ساری صورتحال کو لے کر حکومت عدالتی اصلاحات کی صورت میں آئین میں ترمیم لانا چاہتی ہے، مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم ایکٹ کے ذریعے 1973 کے آئین میں 40 سے زیادہ ترامیم تجویز کی گئی ہیں، جن پر وفاقی حکومت اتحادی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ترمیمی بل کو ووٹنگ کے ذریعے منظور کرا کر ایکٹ بنایا جا سکے۔ ان ترامیم میں چیف جسٹس کی تعیناتی کے طریقہ کار میں تبدیلی کے علاوہ وفاقی آئینی عدالت کا قیام بھی شامل ہے۔
دوتہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے اس آئینی ترمیم کو موخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ن لیگ کے سینیٹر طلال چودھری نے بتایا کہ آئینی ترامیم پر مشاورت کے لیے معاملہ 10 سے 15 روز کے لیے موخر کر دیا گیا ہے اور اس کے بعد ہی حکومت نے ترامیم منظور کرانے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیم پر نہ صرف اسمبلی میں بحث کی بلکہ وہ آئینی ترمیم سے متعلق دیگر سٹیک ہولڈرز کے تحفظات دور کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
بدھ کے روز اسلام آباد میں سپریم کورٹ بار نے آل پاکستان وکلا کے اجلاس کا انعقاد کیا جس میں وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ کو مدعو کیا گیا تاکہ مجوزہ آئینی ترامیم پر ابہام دور کیے جا سکیں اور وکلا کو اعتماد میں لیا جائے، تاہم بلوچستان کی تمام بار ایسوسی ایشنز نے آل پاکستان وکلا اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور شرکت نہیں کی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اجلاس میں کہا کہ ’ہم ایک اتحادی حکومت میں ہیں ن لیگ کی اکیلی حکومت نہیں، میں نے بارز اور وکلا کے مطالبات کو سامنے رکھا۔‘
وزیر قانون نے بتایا: ’ہمیں کہا اعداد و شمار سے بتا دیں کتنے دہشت گردی کے ملزمان کو انسداد دہشت گردی عدالتوں سے سزا ہوئی، وہاں بے نظیر بھٹو کا قتل کیس بھی سامنے آیا۔
حکومت کے سب سے بڑے اتحادی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اس ترامیم کے لیے سرگرم ہیں، بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ عدالتی نظام میں بہتری لانی ہے تو آئینی عدالت کا قیام ضروری ہے۔
وفاقی دارالحکومت میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چوری‘ قتل کے مقدمے میں انصاف کیلئے لوگوں کو 50‘ 50 سال تک کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے اپنی والدہ بے نظیر بھٹو شہید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محترمہ کہتی تھیں کہ جن ججز نے سیاست کرنی ہے وہ اپنی پارٹی بنالیں۔ بینظیر بھٹو نے اس وقت کہا تھا کہ مک میں آئینی عدالتیں ہونی چاہیں۔
حکومتی کوششوں کے برعکس اپوزیشن جماعتوں اور وکلاء تنظیموں نے اس آئینی ترمیم کی شدید مخالفت کر رکھی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اور ہم نے آئینی ترمیم کے مسودے کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹ کے اندر جو کریں گے مل کر کریں گے۔
اس کے علاوہ آئینی ترامیم کےخلاف وکلاء تحریک کا آغاز ہونے جا رہا ہے، لاہور ہائیکورٹ میں وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے حامد خان نے کہا کہ آئینی ترامیم کو خفیہ رکھنے سے ان کی بدنیتی سامنے آگئی، اس آئینی ترامیم کےخلاف وکلاء تحریک کا آج آغاز ہوا ہے۔