جنرل (ر) فیض حمید کو حراست میں لینا اور پھر ان کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز ہونا کسی طرح بھی معمول کی بات نہیں ہے، یہ ساری بات اس بات کا ثبوت ہے کہ پاک فوج میں خود احتسابی کا ایک کڑا نظام موجود ہے، کچھ عرصہ قبل ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک پریس بریفنگ میں بڑے واضح انداز میں بتایا تھا کہ فوج میں خود احتسابی کا موثر نظام موجود ہے۔
تفصیلات کے مطابق بانی پی ٹی آئی جو جیل میں اپنے جرائم کی سزا کاٹ رہا ہے ، نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید ہمارا اثاثہ تھے جسے ضائع کردیا گیا مگر انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ جنرل فیض حمید کو اثاثہ کہنے کا اصل مطلب کیا ہے؟
کیا وہ اس کے سہولت کار تھے؟ یا اس کے سیاسی مدد گار تھے؟
آج سے کچھ دن قبل نجی ٹی وی کے اینکر نے بھی اپنے پرگرام میں انکشاف کیا تھا کہ جنرل(ر) فیض حمید پی ٹی آئی کے تمام معاملات کو چلاتے تھے، اور جو کچھ بھی کیا جاتا تھا اس کے پیچھے ان کی ہدایات نمایاں ہوتی تھیں۔ اس لحاظ سے آج جو بانی پی ٹی آئی انہیں اثاثہ قرار دے رہے ہیں وہ معاملہ سمجھ میں آتا ہے۔
بانی پی ٹی آئی اور دیگر افراد جو جنرل (ر) فیض حمید کو حراست میں لئے جانے اور ان کے کورٹ مارشل کے حوالے سے طرح طرح کے تبصرے اور تجزیئے کر رہے ہیں انہیں اصل بات کرنی چاہئے، ان تمام کو یہ بتانا چاہئے کہ دیکھو پاک فوج میں خود احتسابی کا کیسا کڑا نظام ہے جس نے اپنے سابق ڈی جی آئی ایس آئی تک کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے اور اس کے علاوہ بھی اس سے جڑے افراد کی گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کا اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہنا تھا کہ میرا جنرل ریٹائرڈ فیض سے کوئی تعلق نہیں، اگر فوج جنرل ریٹایرڈ فیض کا احتساب کرنا چاہتی ہے تو کرے، میرا ان سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ فوج کا اندرونی معاملہ ہے۔ یہ اس شخص کے یوٹرن لینے کی ایک اور بڑی مثال ہے، ایک جانب اسے اثاثہ قرار دیتا ہے دوسری جانب کہتا ہے کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں، اسی طرح یہی بانی پی ٹی آئی ہے جس نے اپنے اقتدار میں کہا تھا کہ میری خواہش تھی کہ جنرل فیض حمید دسمبر تک ڈی جی آئی ایس آئی رہے آج اس بیان سے بھی مکر کر ایک اور یو ٹرن لے لیا ہے ۔