افغانستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی صورتحال کے باعث خواتین کو ناقابل برداشت تکالیف کا سامنا ہے اور معاشی و انسانی بحران نے حالات کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق 2012 میں طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے خواتین پر روزمرہ امور میں متعدد معاشرتی، معاشی اور تعلیمی پابندیاں لگ چکی ہیں، طالبان حکومت کا تعلیم پر پابندیاں لگانا خواتین کو ان کی بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے مترادف ہے
طالبان کے افغانستان میں خواتین پر لگائی جانے والی پابندیوں میں سب سے سنگین پابندی خواتین کو تعلیم سے روکنا ہے، طالبان نے لڑکیوں کے سکینڈری سکول بند کرتے ہوئے 10 لاکھ سے زائد لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کردیا۔ طالبان حکومت نے لڑکیوں کی یونیورسٹی اور پیشہ ورانہ تعلیم پر قدغن لگا کر غیر اسلامی اور غیر شرعی قرار دیا۔
یونیسیف کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے افغان معیشت کو گزشتہ ایک سال کے دوران 500 ملین سے زائد امریکی ڈالرز کا نقصان ہوچکا۔ افغان میڈیا کے مطابق اسکول بند ہونے سے خواتین اساتذہ کی بڑی تعداد بے روزگار ہو گئی کیونکہ ان اساتذہ کو صرف پرائمری سکولوں میں پڑھانے کی اجازت ہے۔
خواتین اساتذہ کی 14 ہزار سے زائد سرکاری ملازمتوں کے خاتمے کے باعث بہت سی خواتین کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہے، طالبان کی جانب سے خواتین کی ملازمتوں پر پابندی سے بہت سی خواتین اپنے خاندان کی کفالت کرنے سے محروم ہو گئی ہیں۔
افغان میڈیا کے مطابق بڑھتی بے روزگاری کی شرح کے باعث خواتین کو شدید نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے، افغانستان میں انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھے جانے پر طالبان حکومت کی عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو افغان طالبان کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تاحیات پابندی عائد کرنے کے حوالے سے سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔